لیہہ ورگھیز/شروتی نائک
(مترجم: محمد صغیر حسین)
نور جہاں نساء کو 2016میں یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاجو، آسام میں واقع فورنرز ٹریبونل (Foreigners Tribunal)نمبر4کے روبرو یہ ثابت کرے کہ وہ ایک ہندوستانی شہری ہے۔ اس نے کئی دستاویزات پیش کئے جن کی بناء پر ٹریبونل نے اسے ہندوستانی قرار دے دیا۔ نساء ان چند مشکوک غیر ملکیوں میں سے ایک ہے جنہیں ٹریبونل کے سامنے اپنے دفاع کا موقع ملا۔ ہم نے حق اطلاعات ایکٹ کے تحت حاصل کردہ، 16جون 2017سے لے کر 30دسمبر 2019تک فورنرز ٹریبونل کے صادر کردہ 818، آرڈرز کا تجزیہ کیا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ 96%معاملات کا یک طرفہ (ex parte)فیصل کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں آرڈرز متناقض، مبہم، بے سروپا اور تعصب آمیز تھے۔
پولیس کے دعوے: آرڈرز کی اکثریت ایک بندھے ٹکے ڈھرے پر مبنی تھی۔ صرف لوگوں کے نام، پولیس اسٹیشن اور تاریخیں بدلی ہوئی تھیں۔ پولیس کی تفتیشات سوالوں کے دائرے میں آتی ہیں۔ ان معاملات میں سے 733معاملات میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مشکوک غیر ملکیوں سے مل چکی ہے۔ پولیس نے ان مشکوک غیر ملکیوں سے ان کی شہریت کے دستاویزی ثبوت مانگے اور ان میں سے 570نے مبینہ طور پر کوئی دستاویز نہیں پیش کئے (باقی آرڈرز میں یہ نہیں دکھایا گیا کہ کوئی دستاویز پیش کی گئی تھی یا نہیں)۔ یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ شہریت جیسے سنجیدہ اور اہم معاملے میں، 570نے شہریت کے لئے اپنے دعوئوں میں کاغذ کی ایک پرچی بھی پیش نہیں کی۔ ان میں سے 218معاملات میں، پولیس نے یہ بتایا کہ مشکوک غیر ملکی بنگلہ دیش سے آئے تھے (اکز میمن سنگھ سے)۔ مشکوک غیر ملکیوں سے پولیس کی مبینہ ملاقاتوں کے علاوہ آرڈرز میں پولیس کے ذریعے کسی اور تفتیش کا حوالہ نہیں ملتا۔
اگرچہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی تفتیشی رپورٹ داخل کرنے سے پہلے مشکوک غیر ملکیوں سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن کم از کم 98%معاملات میں پولیس والے ان غیر ملکیوں کو تلاش کرنے سے قاصر رہے تاکہ انہیں ٹریبونل میں حاضر ہونے کا نوٹس دیا جاسکے۔ پولیس والے الزام دیتے ہیں کہ یہ افراد اپنی پہلی آبادیوں کے رہنے والے نہیں تھے کیوں کہ ان گائوں کے لوگ اور سرپنچ بھی انہیں پہچان نہیں سکے۔ ایک پیشہ ور ایڈووکیٹ نے انکشاف کیا کہ ان کے چند مقدمات میں مشکوک غیر ملکیوں کی جانب سے سرپنچ بھی گواہان کی حیثیت سے ٹریبونل کے روبرو حاضر ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ پولیس نے مشکوک غیر ملکیوں کے پتے ٹھکانے کے بارے میں ان سے کبھی بھی پوچھ گچھ نہیں کی۔
چونکہ فورنرز ٹریبونل پولیس سے جرح کی اجازت نہیں دیتا، اس لئے مشکوک غیر ملکیوں سے ان کی ملاقاتوں اور پھر دوبارہ انہیں تلاش کرنے میں ناکامی کو نہ تو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ پولیس اور ٹریبونل یہ سارے کام انتہائی آرام سے کرتے ہیں اور آسام میں بنگلہ دیشیوں کو پکڑنے اور انہیں ملک بدر کا خوف واندیشہ قائم ودائم رہتا ہے۔ عام فوجداری مقدمات میں ملزم کو اس وقت تک مرتکب جرم نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ ریاست اسے مجرم نہ ثابت کردے۔ اُسے مجرم ثابت کرنے کا بار ریاست کے شانوں پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فورنرز ایکٹ 1946کے تحت ثابت کرنے کا بار ملزم پر عائد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ٹریبونل میں حاضر ہونے میں ناکام رہتا ہے تو یہ اُسے دفاع کا موقع دئے بغیر ہی یک طرفہ شنوائی کے بعد اسے غیر ملکی قرار دینے کا آرڈر پاس کرسکتا ہے۔ تمام یک طرفہ فیصلوں میں، پولیس نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ مشکوک غیر ملکی ہندوستانی نہیں ہیں، کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، پھر بھی تمام ملزمین کو بنگلہ دیشی قرار دے دیا گیا۔
بنگلہ دیشیوں کی بے تحاشہ تلاش:صرف31معاملات میں مشکوک غیر ملکیوں کو ان پر عائد الزامات کی تردید کی اجازت دی گئی۔ سارے 31معاملات میں ٹریبونل کے ایک ہی رکن نے آرڈر پاس کئے تھے۔ فورنرز ٹریبونل کے رکن کی حیثیت سے اس خاتون کی پیش روی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ آسام میں بنگلہ دیشیوں کی تلاش کی جان توڑ کوششوں نے شہریت کے دعوئوں کے فیصلے میں نیم عدالتی عمل کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ انہیں جولائی 2015میں، معاہداتی طور پر، ٹریبونل کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ 20جون 2017کو، کئی دیگر ارکان کے ساتھ ساتھ ان کی رکنیت کی توسیع سے انکار کردیا گیا کیونکہ انہوں نے زیادہ افراد کو غیر ملکی قرار نہیں دیا تھا۔ ان کی دوبارہ تقرری تب ہی ممکن ہوسکی جب انہوں نے کئی دیگر ارکان کے ساتھ اپنی ملازمت کے خاتمے کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں عذر داری کی۔
ہم نے جن معاملات کا تجزیہ کیا، ان میں سے چونکہ زیادہ تر یک طرفہ فیصل کئے گئے تھے، اس بنا پر ہمیں یہ توقع تھی کہ مقدمے کی کارروائی تیزی سے ہوئی ہوگی، لیکن توقع کے برعکس ہر کیس کے تصفیے میں اوسطاً دس سال کا عرصہ لگا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تجزیہ شدہ معاملات میں 92%مقدمات 2018 اور 2019 میں طے کئے گئے تھے۔ 82% معاملات میں پولیس نے ٹریبونل کو تعمیل نوٹس کے بارے میں اسی عرصے یعنی 2018اور 2019میں باخبر کیا تھا جب کہ کچھ معاملات تو 1999سے زیر التوا تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ سارے معاملات کو کئی سالوں تک ٹھنڈے بستے میں رکھا گیا تھا اور دفعتاً 2018اور 2019میں غیر ضروری سرعت کے ساتھ انہیں نمٹا دیا گیا۔ ٹریبونل نے رپورٹ کی وصولی کے بعد اوسطاً 39دنوں کے اندر اندر یک طرفہ آرڈر پاس کردیا۔
ٹریبونل نے ان معاملات کے 97فیصد میں مشکوک غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے احکامات صادر کئے۔ تاہم شاید ہی کوئی، یا محض چند ہی واقعی طور پر ملک بدر کئے گئے کیونکہ ملک بدری تب ہی ممکن ہے جب بنگلہ دیش انہیں قبول کرنے کو تیار ہو۔ آسام کے وزیر برائے پارلیمانی امور نے کہاکہ 13مارچ 2013سے 31جولائی 2020تک صرف 227افراد ملک بدر کئے گئے۔
فورنرز ٹریبونل کی کارکردگی کو مبنی بر عدل و انصاف اور شفاف بنانا ایک اہم اور فوری ضرورت ہے۔ انیس لاکھ افراد کو شہریوں کے قومی رجسٹر میں اندراج سے محروم کردیا گیا ہے۔ ان کی گزارشات ٹریبونل کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ ان کے معاملات کو ماضی کی طرح من مانے طور پر اور سنگدلی کے ساتھ طے کرنا حق و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔
بشکریہ: دی ہندو
لیہہ ورگھیز اور شروتی نائک، بنگلورو میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم DAKSHسے وابستہ ہیں۔ زیر نظر میں مذکور ان کی آراء ان کی ذاتی ہیں۔ ادارے یا مترجم کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔