پنکج چترویدی
(مترجم:محمد صغیرحسین)
ساون تو رم جھم برسا لیکن بھادوں جو جم کر برسا تو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسنے والا ملک قدرت کے اس انمول تحفے کو آفت کہنے لگا۔ گھر، گاؤں، تالاب پانی سے لبالب بھرگئے۔ عام فہم بات ہے کہ برسات کی ان تمام بوندوںکو پورے سال کے لیے احتیاط سے نہیں رکھا گیا تو خشک سالی کا خدشہ برقرار رہے گا۔ ہر بوند کو جمع کرنے کے لیے ہمارے پاس چھوٹی/بڑی ندیوں کا جال ہے۔ تپتی دھرتی کے لیے بارش محض ٹھنڈک لے کر نہیں آتی، وہ خوشحالی اور ترقی کی دستک بھی ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی ہمارے لیے ایک انتباہ ہے کہ اگر برسات اوسط سے زیادہ ہوگئی تو ہماری ندیوں میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ وہ مزید پانی لے سکیں۔ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ سیلاب اور تباہی کے مناظر خشک سالی اور قحط کے مناظر کی طرح لرزہ خیز ہوجاتے ہیں۔ 2015میں مدراس میں آنے والی باڑھ نے یہ سبق دیا تھا کہ کس طرح شہر کے وسط میں بہنے والی ندیوں کو جب سماج نے نیست و نابود کردیا تو پانی اُن کے گھروں میں داخل ہوگیا۔ ممبئی تو ہر سال اپنی چار ندیوں کو ختم کردیے جانے کا خمیازہ جھیلتی ہے۔ خود دارالحکومت دہلی میں جمناندی ٹنوں ملبہ انڈیلے جانے کے سبب چھچھلی ہوگئی ہے۔ این جی ٹی (National Green Tribunal) نے دہلی میٹروسمیت کئی محکموں کو خبردار کیا۔ مگر اس کے باوجود تعمیراتی کاموں سے نکلنے والی مٹی اور ملبے کوجمناندی میں انڈیل دینا عام بات ہوگئی ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پورے ملک میں کوڑا بڑھ رہا ہے اور کوڑے کو کھپانے کے مقامات سمٹ رہے ہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ چلتی ٹرین کی رسوئی کے کوڑے سے لے کر مقامی میونسپلٹیوں کے کوڑے تک شہر اور گاؤں کی ندیوں میں دھکیلے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ندیاں بھررہی ہیں اور چھچھلی ہوتی جارہی ہیں۔ ندیوں کو لاحق خطرات نے نوع انسانی کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ ظاہر ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ ہماری ندیوں کے سامنے بنیادی طور پر تین قسم کے خطرات ہیں: پانی کی کمی، مٹی کی زیادتی اور آلودگی۔
کرئہ زمین کی حرارت میں روزافزوں اضافے کی وجہ سے موسم میں تبدیلی آرہی ہے اور اسی کے نتیجے میں یا تو بارش بے حدو حساب یا پھر برائے نام ہورہی ہے۔ مانسون کے تین مہینوں میں مشکل سے چالیس دن پانی برسنا یا پھر ایک ہفتے میں ہی موسلادھار بارش ہوجانا یا پھر بے حد کم بارش ہونا، یہ تمام صورتیں، ندیوں کے وجود کے لیے خطرہ ہیں۔ بڑی ندیوں میں برہم پتر، گنگا، مہاندی اور برہمنی کے راستوں میں پانی خوب برستا ہے اور ان میں کم سے کم بہاؤ 4.7 لاکھ مکعب میٹر فی مربع کلومیٹر ہوتا ہے۔ وہیںکرشنا، سندھو، تاپی، نرمدا اور گوداوری کا راستہ کم بارش والا ہے، اس لیے اس میں پانی کا بہاؤ 2.6لاکھ مکعب میٹر فی مربع کلومیٹر رہتا ہے۔ کاویری، پینّار، ماہی اور سابرمتی میں تو بہاؤ 0.6لاکھ مکعب میٹر ہی رہ جاتا ہے۔ سینچائی اور دیگر کاموں کے لیے پانی کا زیادہ نکالنا، باندھ وغیرہ کے سبب ندیوں کی قدرتی شکل و صورت کے ساتھ چھیڑچھاڑ ہوئی اور اس کے نتیجے میں پانی گھٹتا جارہا ہے۔ ہندوستانی ندیوں کے راستوں سے ہر سال 1645 مکعب کلومیٹر پانی بہتا ہے جو دنیا کی تمام ندیوں کا 4.44فیصد ہے۔ اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھیں تو ہم پانی کے معاملے میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ مالامال ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پورے پانی کا کوئی 85%پانی بارش کے تین مہینوں میں سمندروں میں چلا جاتا ہے اور ندیاں سوکھی رہ جاتی ہیں۔
ندیاں اپنے ساتھ، اپنے راستے کی مٹی، چٹانوں کے ٹکڑے اور بہت ساری معدنیات بہاکرلاتی ہیں۔ پہاڑوں اور ندیوں کے راستوں پر بے تحاشہ جنگل کٹائی، کان کنی، ڈائنامائٹوں کے استعمال وغیرہ کے سبب تھوڑی سی بارش میں بھی بہت سا ملبہ بہہ کر ندیوں میں گرجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ندیاں چھچھلی ہورہی ہیں، ان کے راستے بدل رہے ہیں اور تھوڑا سا پانی آنے پر ہی اُن میں باڑھ آجاتی ہے۔یہ بھی خطرناک ہے کہ حکومت اور سماج دونوں ہی انتظار کرتے ہیں کہ کب ندی سوکھے اور کب وہ اس کی چھوڑی ہوئی زمین پر قبضہ کرلیں۔ اس سے ندیوں کے پاٹ سکڑ رہے ہیں۔ اُن کے قریب آبادیاں بڑھنے سے آلودگیاں بڑھ رہی ہیں۔ کارخانوں کا کچرا، گھروں کا کوڑا، کھیتوں میں استعمال ہونے والی کھادوں اور دواؤں کے اجزائ، مٹی کا کٹاؤ وغیرہ ایسے اسباب ہیں جو ندی کے پانی کو زہریلا بنادیتے ہیں۔ ہم کارخانوں کو کتنا ہی موردالزام ٹھہرائیں لیکن ندیوں کی گندگی کا تین چوتھائی حصہ گھریلو بول وبراز اور گندے پانی سے ہی آتا ہے۔
آج ملک کی 70فیصد ندیاں آلودہ اور حالت نزع میں گرفتار ہیں۔ ان میں گجرات کی املاکھیڑی، سابرمتی اور کھاری، ہریانہ کی مارکنڈا، مدھیہ پردیش کی کھان، اترپردیش کی کالی اور ہنڈن، آندھراپردیش کی مُنسی، دہلی کی جمنا اور مہاراشٹر کی بھیماکو شامل کر دس ندیاں سب سے زیادہ آلودہ ہیں۔ حالت زار یہ ہے کہ ملک کی 27ندیاں، معیار مطلوب پر پوری نہیں اترتیں۔ ویسے گنگا ہو جمنا، گومتی، نرمدا، تاپتی، گوداوری، کرشنا، کاویری، مہاندی، برہم پتر، جہلم، ستلج،چناب، راوی، بباس، پاروتی، ہردا، کوسی، گڈگولا، مَسے ہا، وروڑا،بیتوا، ڈھونک، ڈیکن، ڈاگرا، رمجان، دامودر، سورن ریکھا، سریو ہو یا رام گنگا، گولا ہو یا سرسیا، پُن پُن، بوڑھی گنڈک ہو یا گنڈک، کملا ہو یا پھرسون، بھگیرتھی ہو یا اُس کی معاونین، کم و بیش تمام ندیاں آلودہ ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہیں۔دراصل گزشتہ پچاس سالوں میں بے لگام ترقی اور بے تحاشہ صنعت کاری کے سبب پانی کی شکل میں قدرت کی بیش بہا نعمت کو وسیلے کے طور پر دیکھا جانے لگا، محنت و عقیدت کے جذبات مفقود ہوئے اور صارفیت کا جذبہ پروان چڑھتا گیا۔ چوں کہ ندیوں سے جنگل، پہاڑ، جنگلی جاندار، چڑیاں اور عام زندگی سب کے سب باہمی طور پر ہم رشتہ ہیں، اس لیے جب ندیوں پر بحران آیا تو اُن کے دامنِ رحمت سے وابستہ کیا جاندار کیا بے جان، کوئی بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہا۔
یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ندیوں کی نجات کا ایک قانون گزشتہ 64سالوں سے کسی لال بستے میں بند ہے۔ پارلیمنٹ میں1956ء میں ریوربورڈایکٹ(River Board Act) پاس ہوا تھا۔ اس قانون کی دفعہ چار میں مذکور ہے کہ مرکزی سرکار ایک سے زیادہ ریاستوں میں بہنے والی ندیوں کے لیے ریاستوں سے صلاح و مشورہ کرکے بورڈ بناسکتی ہے۔ اس بورڈ کے پاس ندیوں سے متعلق گوناگوں مسئلوں مثلاً فراہمی آب، آلودگی روکنے کے لیے ازخود طریقۂ کار تیار کرنا، ندیوں کے کنارے ہریالی لگانا، بیسن کی تعمیر کرنا اور تمام تر منصوبوں کی نگہداشت کرنا وغیرہ سے متعلق قانون و ضابطے بنانے کا اختیار ہے۔ ندیوں کے تحفظ کا اس قدر مؤثر قانون موجود ہونے کے باوجود، آج تک کسی بھی ندی کے لیے کوئی بورڈ نہیں بنایا گیا۔ آئین سے متعلق کاموں کے احتساب کے لیے وضع کیے گئے وینکٹ چلیّا کمیشن نے تو اپنی رپورٹ میں اسے ایک ’’مردہ قانون‘‘ قرار دیا تھا۔ دوسرے اصلاح انتظامیہ کمیشن نے بھی کئی ترقی یافتہ ملکوں کی مثال دیتے ہوئے اس قانون کو سنجیدگی سے نافذ کرنے کی سفارش کی تھی۔ یہ محض ایک نمونہ ہے کہ ہمارا سماج اپنی ندیوں کے وجود کے تئیں کس قدر بے حس اور بے پرواہ ہے۔
بدبختی یہ ہے کہ مختلف وجوہات سے ندیوں کے چھچھلے ہونے، اُن کی مقدارِظرف کم ہونے اور آلودگیاں بڑھنے سے عام برسات کا پانی بھی اُس میں سما نہیں رہا ہے اور جو حیات بخش پانی سراپا رحمت تھا وہ اب زحمت تمام بن گیا ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)