مغربی بنگال کی سیاسی بساط پر مہروں کے کھسکانے، بڑھانے اور سامنے لانے کا عمل تیز ہوگیا ہے ۔کہیں نیا سیاسی اتحاد بن رہاہے تو کہیں سیاسی بازیگروں کی رسی ڈھیلی کی جارہی ہے اور کہیں ان پر لگام لگانے کا کام بھی ہورہا ہے ۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگال کی سیاسی بساط پر جس تیزی سے چالیں چلی جارہی ہیں، وہ ریاست میںپھر ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی ۔ سیاست کے اس شطرنج میں اب تک اصل کھلاڑی ترنمول کانگریس اور بھارتیہ جنتاپارٹی کو ہی سمجھاجارہاتھا لیکن بایاں محاذ کے کانگریس اور انڈین سیکولر فرنٹ کے ساتھ ہونے والے اتحاد کی وجہ سے اب یہ کھیل سہ رخی ہوگیا ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی اور ترنمول کانگریس سے یکساں دوری بنائے رکھنے کا عزم لے کر میدان انتخاب میں اترنے والے اس تیسرے سیکولر اتحاد نے ایک طرف ممتابنرجی کی مشکلیں بڑھادی ہیں تو دوسری طرف بھارتیہ جنتاپارٹی کو بھی ایک نیا چیلنج دے دیا ہے۔
اس سیکولر اتحاد کا اصل نشانہ مسلم ووٹ ہیں اورا نہیں ہموار کرنے کیلئے ہی نظریاتی اختلاف کے باوجودسی پی آئی ایم نے کانگریس کے ساتھ ساتھ عباس صدیقی کی نومولودپارٹی انڈین سیکولر فرنٹ کو اپنا اتحادی بنایا ہے ۔10کروڑ کی آبادی والی اس ریاست میں اسمبلی کی کل294 سیٹیں ہیں اور تقریباً 100 سیٹوں پر بنگلہ مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔ان میں سے46سیٹوں پر بنگلہ مسلم آبادی 50فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ نئے اتحاد نے سیاسی جمع تفریق کے بعد کانگریس کو 92 اور انڈین سیکولر فرنٹ(آئی ایس ایف )کو 37 سیٹیں دینے کا فیصلہ کیا ہے، باقی ماندہ سیٹوں پر بایاں محاذ میں شامل پارٹیاں اپنے امیدوار اتاریں گی۔ سردست جو اعلان سامنے آیا ہے اس کے مطابق عباس صدیقی کی آئی ایس ایف کو شمالی بنگال میں 6 سیٹیں دی گئی ہیں ۔مزید 8سیٹیں دیے جانے پر غور وخو ض کیاجارہاہے ۔
بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل شمالی بنگال کے مختلف اضلاع میں بی جے پی نے گزشتہ کئی برسوں میں اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ سابقہ پارلیمانی ا نتخاب میں یہاں درا ندازی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ہوا کھڑا کرکے ووٹوں کو پولرائز کیاگیا تھا اور ہندو ووٹ ایک طرف ہوجانے اور مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوجانے کے سبب یہاں سے ترنمول کانگریس کو بری طرح ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب بھی یہ خطہ ایک طرح سے بی جے پی کیلئے نرم چارہ کی حیثیت رکھتا ہے گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے یہاں فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑے تھے اوربنگال میں اس کے زیادہ تر ارکان پارلیمنٹ اسی خطہ سے ہیں۔آئی ایس ایف نے مسلم اکثریتی اضلاع مرشدآباد اور مالدہ سے زیادہ سیٹیں مانگی تھیں لیکن کانگریس نے اس کی شدید مخالفت کی۔ ویسے بھی یہ اضلاع روایتی طور پر کانگریس کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ پردیش کانگریس کے صدر اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کا تعلق بھی مرشدآباد سے ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بایاں محاذ اور آئی ایس ایف دونوں ہی اپنے مطالبہ سے دستبردار ہوگئے۔
یہ نیا اتحاد بنگال کے ووٹروں کو ایک متبادل فراہم کرنے کی کوشش میں ہے۔جس بالغ نظری کے ساتھ یہاں سیٹوں کی تقسیم کا کام کیاجارہاہے، اس سے یہ خطرہ بھی کسی حد تک کم ہوگیا ہے کہ مسلم ووٹ منتشر ہوجائیں گے۔مسلمانوں کے سامنے اب دو انتخاب ہوگا ترنمول کانگریس یا سیکولرا تحاد کے امیدواروں میں سے انہیں کسی ایک کا فیصلہ کرناہوگا۔ اب یہ ان کی سیاسی بصیرت پر ہے کہ وہ کسے یقینی جیت تک پہنچاتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خطرہ بھی سر ابھار رہاہے کہ اس اتحادکی وجہ سے کہیں بی جے پی کی پولرائزیشن کی سیاست کو تقویت نہ مل جائے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے بنگال کی سیاست میں جارحانہ قوم پرستی کے تجربات سے بھی اس خدشہ کو تقویت ملتی ہے۔ سیاسی ماہر ین کا کہنا ہے کہ سی پی آئی ایم نے آئی ایس ایف کو اپنے اتحاد میں شامل کرکے بنگال میں ہندو توکی پوزیشن مضبوط کی ہے اور سیکولر ووٹوں کوتقسیم کے دہانے پر پہنچادیا ہے ۔ لیکن اب تک ایسا کوئی منظر نامہ سامنے نہیں آیا ہے جس سے یہ بات کہی جاسکے۔اس کے برخلاف یہ دیکھاجارہاہے کہ مسلمان جس پارٹی پر بھروسہ کرکے اور اس کے امیدواروں کو سیکولر سمجھ کر منتخب کرتے ہیں وہ اگلے انتخاب تک بی جے پی کی گود میں جابیٹھتا ہے۔ تازہ واقعہ پانڈیشور کے ایم ایل اے اورآسنسول میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین جتیندر تیواری کا ہے ۔پیر کی رات تک وہ مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی کے خلاف سربکف تھے لیکن منگل کی دوپہر انہوں نے ترنمول کادامن جھٹک کر بی جے پی کا جھنڈا تھام لیا۔اس لیے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ترنمول کانگریس کے تعلق سے تشویش کا شکار ہے۔اس طبقہ کو نئے سیکولر اتحاد میں نیا امکان نظرآرہاہے۔اب دیکھنا ہے کہ بنگال کی سیاسی بساط پر جاری یہ سہ رخی مقابلہ ابھی اور کن تبدیلیوں سے گزرے گا۔
[email protected]
بنگا ل میں نیا سیکولر اتحاد
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS