انجینئر خالد علیگ
گزشتہ کئی سالوںسے ایران اور سعودی عرب کے درمیان میں کشیدگی نے مشرق وسطی کی سیاست میں ہیجان کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ امام خمینی کے انقلاب کے بعد ایرانی قیادت کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ ایران مسلم دنیا کی قیادت کرنے کا اہل ہے، دوسری طرف سعودی عرب عالم اسلام پہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا تھا اور غالباً یہی وجہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کی کشیدگی کا اہم سبب بنا۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے قبل پہلوی خاندان کی شہنشاہیت قائم تھی جو مغربی دنیا کے کافی قریب تھی۔ پہلوی خاندان اور مغربی دنیا کے درمیان تعلقات نہایت دوستانہ اور خوش گوار ہوا کرتے تھے اور ایران کو مسلم دنیا میں امریکہ کا سب سے قریبی حلیف تصور کیا جاتا تھا، ظاہر ہے ان حالات میں ایران میں حکومت تبدیل کرانے یا انقلاب بپا کرانے کے لیے عوام کے اندرAnti American Sentiment پیدا کرنا لازمی تھا جو کام امام خمینی نے بہت خوبی سے انجام دیا۔ ایران میں حکو مت کا تختہ پلٹ گیا۔ خمینی صاحب نے فرانس سے واپس آکر ایران میں اسلامی نظام قائم کر دیا اور شاہ پہلوی کو ایران چھوڑ کر مصر میں پناہ لینی پڑی۔ ایران انقلاب نے مشرق وسطی کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کیا جس کی بنیاد امریکہ اور اسرائیل کی دشمنی پہ رکھی گئی تھی۔ ادھر مصر میں1967کی جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد سوویت یونین کے خلاف غصہ کی شدید لہر پیدا ہو گئی تھی۔عربوں کا خیال تھا کہ سوویت یونین نے1967 کی جنگ میں عربوں کا ساتھ اس طرح نہیں دیا جس کی توقع کی جاتی تھی یا جس طرح امریکہ نے یہودیوں کا دیا تھا اور یہی ان کی شکست کی وجہ ہے، اس احساس نے عرب ممالک میں سوویت مخالف جذبہ پیدا کر دیا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ1967کی جنگ کے چند سال بعد ہی روس کے سب سے بڑے حلیف مصر میں صدر جمال عبدالناصر کا انتقال ہوگیا اور مصر کی قیادت انور سعدات کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا جس کا نتیجہ دنیا کے سامنےCamp David agreement کی شکل میں برآمد ہو۔اس معاہدے میں میں عالم عرب کے سب سے طاقتور ملک مصر نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ اسرائیل اور مصر کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر جمال عبدالناصر عرب ممالک میں امریکہ اور اسرائیل مخالف طاقتوں کے محور تسلیم کیے جاتے تھے۔ شام، لیبیا، یمن، لبنان، تیونس، سوڈان، عراق صدر جمال عبدالناصر کو عرب دنیا کا بے تاج بادشاہ مانتے تھے۔ اس دور میں امریکن دوستوں کی لسٹ سعودی عرب اور خلیجی ممالک تک محدود تھی لیکن صدر ناصر کے انتقال اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ عربوں کا سب سے طاقتور ملک مصر امریکہ کا رفیق بن گیا اور امریکہ نے دوسرے ملکوں پر ڈورے ڈالنے شروع کردیے، نتیجتاً اردن، تیونس، مراکش اور الخزائر جیسے ممالک میں مغربی اثر بڑھنے لگا اور عرب دنیا میں امریکہ کے دوستوں کی تعداد بڑھ گئی۔ دوسری طرف امریکہ مخالف ملکوں نے ایران کے گرد جمع ہونا شروع کر دیا اور دھیرے دھیرے ایران امریکہ مخالف طاقتوں کا لیڈر بن گیا۔
امریکہ اور اسرائیل کو اس خطرہ کا بخوبی احساس تھا لہٰذا ایران کو کمزور کرنے کی تدابیر ہونے لگیں ،بڑی ہوشیاری سے خلیج کی جنگ کا اہتمام کرایا گیا جس میں سعودی عرب نے عراق کا بھرپور ساتھ دیا مگر خلیج کی جنگ کے وہ نتائج حاصل نہ ہو سکے جس کی امید امریکی خیمہ لگائے ہوئے تھا بلکہ نقصان یہ ہوا کہ ایران کے عوام کے دلوں میں امریکہ مخالف جذبہ اور بھی شدت اختیار کرگیا۔ ایسا نہیں ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہمیشہ سے تعلقات اسی طرح کشیدہ رہے ہوں، پہلوی دور حکومت میں دونوں ممالک میں نہایت خوشگوار تعلقات تھے، اس کے علاوہ 2007 میں جب ایران کے صدر احمد نژاد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو سعودی حکومت نے بہت گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک خوشگوار دوستی کے دور کی شروعات ہونے جا رہی ہے لیکن2016میں سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر باقرالنمر کو پھانسی کی سزا سے ان کے مابین تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے۔ تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ کو شدید نقصان پہنچایا گیا جس کے نتیجہ میں سعودی عرب نے ایران سے سفارتی رشتہ منقطع کر لیا اور دونوں ممالک میں تلخیاں مزید بڑھ گئیں۔ اس کے بعد کی صورتحال ساری دنیا کے سامنے ہے۔ عراق میں امریکہ کی فتح اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں ایران نواز حکومت کے قیام نے ایران کے حوصلے مزید بلند کر دیے۔ اس تبدیلی نے پورے خطے کی سیاسی تصویر بدل دی، صدام سے تو چھٹکارا مل گیا لیکن عراق میں ایران نواز حکومت قائم ہوگئی۔ شام میں پہلے سے بشار الاسد کی حکومت قائم تھی جو امریکہ کی شدید مخالف ہے۔ لبنان میں حذب اللہ ایک طاقتور تنظیم کی حیثیت حاصل کر چکی تھی ایسی صورت میں عراق میں بھی ایران نواز حکومت کے قیام سے ایران سے لے کر لبنان تک امریکہ اور سعودی مخالف طاقتوں کے جماوڑے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا جو امریکی مفاد کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا تھا لہٰذا اس خطرہ سے نمٹنے کے لیے آئی ایس آئی ایس(ISIS) بنائی گئی۔ شام میں بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی مہم شروع ہوئی جس میں سعودی عرب نے کروڑوں ڈالر شام کے باغیوں پہ صرف کیے۔ ادھر ایرا ن نے بھی یمن میں حوثی قبائل کے ذریعہ باقاعدہ جنگ شروع کر دی جس کا اصل ہدف سعودی عرب تھا دونوں محاذوں پر ابھی بھی جنگ جاری ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پورا عالم اسلام ایک vertical split کے دھانے پہ کھڑا ہے۔ایک طرف سعودی عرب اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے اسرائیل تک سے مفاہمت کرنے کو تیار ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کا حالیہ قدم یہی اشارہ کر رہا ہے کہ اسرائیل امریکہ پوری طرح بساط بچھا چکے ہیں، چالیں چلی جا رہی ہیں حالانکہ سعودی وزیر خارجہ نے جرمنی میں بیان جاری کر کے کہا ہے کہ وہ اسرائیل سے رشتہ قائم نہیں کریں گے لیکن اس بات پہ یقین کرنا نا سمجھی کے مترادف ہے کہ امارات نے اتنا بڑا قدم سعودی اجازت کے بغیر اٹھایا ہوگا۔ ہو سکتا ہے امریکی الیکشن سے پہلے کچھ اور ممالک بھی اسی قسم کے اعلانات جاری کریں۔
دوسری طرف چین اور ایران کے درمیان بڑھتے رشتے ایران اور روس کے درمیان پہلے سے موجود قربتیں، شام اور لبنان کی موجودہ صورت حال، سعودی عرب اور ترکی کے درمیان بڑھتی کشیدگی، پاکستان اور چین میں تیزی سے بڑھتا بھائی چارہ ایک ایسی صورت حال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو خصوصی طور پر عالم اسلام اور عموماً ساری دنیا پہ اثر انداز ہوں گے۔
او آئی سی میں اختلافات کی خبریں ہیں اور کہا یہ جارہا ہے کہ ترکی یا پاکستان کی قیادت میں ایک نئے اسلامی گروپ کی تیاری ہو رہی ہے جس کو چین اور روس کی پشت پناہی حاصل ہوگی۔ حالیہ خبر یہ ہے کہ ایران نے امارات کا ایک تیل کا جہاز اپنے قبضہ میں لیا ہے۔ ایران امریکہ کے پڑوسی ونیزوئیلا کو میزائل فروخت کر رہا ہے جس سے امریکی صدر خاصے ناراض ہیں ویسے بھی وہ نومبر کے الیکشن کو جیتنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، اس لیے عین ممکن ہے کہ او آئی سی دو حصوں میں تقسیم ہوجائے۔ ایک طرف سعودی عرب اور امریکہ کے حلیف ممالک اور دوسری طرف چین اور روس کی حمایت میں پاکستان، ترکی، ملیشیا، ایران، شام وغیرہ۔ ظاہر ہے، پہلے گروپ کو اسرائیل کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔ موجودہ صورت حال میں تو یہی لگتا ہے کہ عربوں کی دولت تک رسائی حاصل کرنے کا اسرائیلی خواب شرمندۂ تعبیر ہوا چاہتا ہے۔
[email protected]