شاہین باغ کی دادی

0

ہمارے ملک ہندوستان میں معمر خواتین کو بڑی عزت حاصل رہتی ہے۔ ان کے ڈانٹنے کا لوگ برا نہیں مانتے۔ معاشرے کو ایک سمت دینے میں وہ اہم کردار ادا کرتی ہیں، البتہ مظاہروں کا حصہ وہ کم ہی بنتی ہیں لیکن سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہروں میں کئی باتیں دیکھنے میں آئیں۔ مسلم خواتین کی یہ امیج ٹوٹی کہ وہ پردے میں رہتی ہیں، اس لیے اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں بلند کر سکتیں، ان کے ساتھ ہمدردی کی جانی چاہیے۔ سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہروں میں معمر مسلم خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مظاہروں کی جگہوں پر اپنی موجودگی درج کراکر یہ احساس دلایا کہ ان کی ہڈیاں کمزور ہوئی ہیں مگر ان کا جوش کمزور نہیں پڑا ہے۔ ملک بھر سے مظاہروں میں شامل ہونے والی ان خواتین میں کچھ کو بہت شہرت ملی۔ ان کچھ خواتین میں بھی بلقیس بانو کو اتنی شہرت ملی کہ وہ شاہین باغ کے مظاہروں کا ایک چہرہ بن گئیں۔ اکثر لوگ ان کے اصل نام سے انہیں کم جانتے ہیں، کیونکہ وہ ’شاہین باغ کی دادی‘ نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ اس سال بھی ’ٹائم میگزین‘ نے 100 متاثرکن لوگوں کی فہرست میں ہندوستان کی کئی شخصیتوں کو شامل کیا ہے۔ ان میں وزیراعظم نریندر مودی، گوگل کے سی ای او سندر پچائی، ایچ آئی وی پر ریسرچ کرنے والے پروفیسر رویندر گپتا، اداکار آیوشمان کھرانا اور بلقیس بانو شامل ہیں۔
یہ حیرت کی بات ہو سکتی ہے کہ دنیا کی اہم شخصیتوں کے ساتھ بلقیس بانو کو منتخب کیا گیا ہے مگر اس انتخاب پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ شخصیتیں بڑا عہدہ پانے، کسی فن کا مظاہرہ کرنے یا کسی خاص میدان میں ریسرچ کرنے سے ہی نہیں بنتی ہیں، حق بات غیر جانبداری سے کہنے، اس پر ڈٹے رہنے اور انصاف کے حصول کے لیے پرامن مظاہروں سے بھی بنتی ہیں۔ ’شاہین باغ کی دادی‘ بلقیس بانو ایک جمہوری ملک کی شہری ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کہنے کے لیے اسی حق کا استعمال کیا جو ان کے ملک کا جمہوری نظام انہیں دیتا ہے۔ بلقیس بانو بلا خوف و خطر مظاہرہ کر سکیں، اپنی بات رکھ سکیں، کیونکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں مؤدبانہ انداز میں بات کہنے کا یکساں حق سب کو حاصل ہے۔
بلند شہر کی رہنے والی 82 سالہ بلقیس بانو کی بے باکی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ شاہین باغ کے مظاہروں کے دوران جب ہندوستان کے وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ کہا کہ ’سی اے اے پر ہم (مودی سرکار) ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘ تو بلقیس نے یہ کہا تھا کہ ’اگر وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے تو میں کہتی ہوں کہ ہم ایک بال برابر بھی نہیں ہٹیں گے۔‘ ان کا ایسا کہنا وزیرداخلہ امت شاہ کی یا ان کا مظاہرہ کرنا وطن عزیز کی بدنامی کی وجہ نہیں بنا بلکہ اس سے عالمی برادری کو یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ ہندوستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت ہے اور اسی لیے یہاں کی ایک معمر خاتون وزیرداخلہ کو جواب دے سکتی ہے۔
’ٹائم میگزین‘ نے لکھا ہے کہ بلقیس بانو نے یہ پیغام دیا کہ ’جمہوریت کو بچائے رکھنا کتنا ضروری ہے۔‘ میگزین کا ماننا ہے کہ ’وہ بھارت میں محرومین کی آواز بنیں۔ وہ کئی بار مظاہرے کی جگہ پر صبح 8 بجے سے 12 بجے رات تک رہا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ ہزاروں دیگر خواتین بھی وہاں موجود ہوتی تھیں اور خواتین کے اس مظاہرے کو ’’ردعمل کی علامت‘‘ مانا گیا۔‘ سچ تو یہ ہے کہ ’ٹائم میگزین‘ کی دنیا بھر کے 100 بااثر لوگوں کی فہرست میں بلقیس بانو کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ کوئی مظاہرہ مقامی یا محدود نہیں ہوتا، گلوبلائزیشن کا یہ دور کسی مظاہرے کو ایک علاقے تک محدود نہیں رہنے دیتا، اس لیے مظاہرہ کرنے والوں کو ایشو کو بہتر طور پر سمجھ کر تحمل کے ساتھ مظاہرہ کرنا چاہیے اور اسی طرح حکومتوں کو فیصلے کرتے وقت یہ اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اس پر مظاہروں کا ایک سلسلہ تو شروع نہیں ہوجائے گا۔ لیڈروں کو ’بے لگام بیان بازی‘ سے گریز کرنا چاہیے اور عام لوگوں، معاشرے کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی آواز کون سنے گا۔ بلقیس بانو کے شوہر مزدور تھے۔ 10 سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ دہلی میں بیٹے، بہو کے ساتھ رہتی ہیں لیکن حالات جذبات کے اظہار میں ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنے۔ بلقیس بانو نے غیر جانب داری اور جمہوری طریقے سے مظاہرہ کیا اور اسی بات نے لوگوں کو متاثر کیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ ’ٹائم میگزین‘ کی بااثر لوگوں کی فہرست میں بلقیس بانو کی شمولیت سے عالمی برادری کو ہندوستان کے جمہوری نظام کی اہمیت کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی۔ 
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS