نہ دلیل نہ وکیل، ماورائے عدالت قانون

0

محمد حنیف خان

سیاہی اس وقت تک خوف ناک نہیں ہوتی جب تک امید کی کرن روشن ہو،جب امیدیں بھی ختم ہوجاتی ہیں تو یہ سیاہی پورے وجود کو گھیر لیتی ہے جو اندر باہر ہر جگہ محیط ہوتی ہے۔یوں تو کوئی بھی قانون کسی ایک فرد/طبقے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ سب کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کا استعمال ضرور اس کو محدود کر دیتا ہے،یہ تحدید جو فکری دھارے کا نتیجہ ہوتی ہے وہی سب سے زیادہ خوفناک ہے۔یوپی حکومت نے حالیہ اسمبلی سیشن میں اترپردیش اسپیشل سیکورٹی فورس (یوپی ایس ایس ایف)کی تشکیل کو منظوری دی ہے جس کا اعلامیہ جاری ہوچکا ہے جو بادی النظر میں بہت اچھی فورس ہوسکتی ہے لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس کا استعمال اس سے قبل اسی طرز پر بنائے گئے قوانین کی طرح نہ ہو کر اس کی روح کے مطابق ہو لیکن اس کے برعکس صورت حال میں اندیشوں کوراہ ملتی ہے۔یہ سب جانتے ہیں کہ جس پارٹی کی اتر پردیش میں حکومت ہے وہ کس فکری دھارے کی حامل ہے،ماضی میں اس کے بعض اقدام کی جمہوری نظام میں یقین رکھنے والے افراد تنقیدکرتے رہے ہیں۔یوپی میں نظم و نسق کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی اسے لائق ستائش نہیں گردانا گیا۔ ماضی کے ریکارڈ نے اپوزیشن کے ساتھ ہی دیگر سیاسی و فکری حلقے کو خوف وہرا س میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ ان کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ’’پنجرے کے توتے‘‘کی طرح اس فورس کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ اتر پردیش میں ایسے قانون کی ضرورت ہی کیا تھی؟کون سے واقعات اس کے محرک ہیں کہ ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے جس کے پاس لامحدود اختیارات ہوں،جب اس پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو ایک بھی ایسا واقعہ نظر نہیں آتا ہے جس سے محسوس ہو کہ یوپی ایس ایس ایف جیسی فورس کی یوپی کو ضرورت تھی۔
عدالتوں کے قیام کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ سماج میں انصاف کو جاری و ساری کر سکیں،ایک بھی ایسا شخص نہ ہو جس کے ساتھ کسی بھی طرح کا ظلم روا رکھا گیا ہو۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قانون ہی ماورائے عدالت وضع کر دیے جائیں اور ان پر عدالتوں کا ہی زور نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اترپردیش اسپیشل سیکورٹی فورس (یوپی ایس ایس ایف)ماورائے عدالت ہی ہے۔اس فورس کے پاس وہ طاقت ہوگی جو سرحدی مسلح افواج کو حاصل ہوتی ہے، وہ کسی کے بھی دکان،  مکان اور کاروباری ٹھکانوں کی نہ صرف کبھی بھی تلاشی لے سکتی ہے بلکہ بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کرسکے گی۔اس کو کسی دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہوگی حالانکہ اس کی ذمہ داری سرکاری عمارتوں و دفاتر کے ساتھ ایئر پورٹ اور میٹرو اسٹیشنوں کی حفاظت ہوگی لیکن جس وسیع پیمانے پر اس فورس کو اختیارات دیے گئے ہیں، وہ اشارہ کسی دوسری جانب کر رہے ہیں۔کیونکہ یوپی ایس ایس ایف کے کسی بھی ممبر کے خلاف نہ تو ایف آئی آر درج کرائی جاسکتی ہے اور نہ ہی عدلیہ ریاستی حکومت سے اجازت کے بغیر از خود نوٹس لے سکتی ہے۔قانون کی یہ شقیںاس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ یوپی حکومت اس فورس کو جیسے چاہے اور جس کے خلاف چاہے استعمال کرسکتی ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جمہوری نظام میں حکومتوں کو کسی ایسے قانون /قوانین کی ضرورت کیوں پڑتی ہے جن کا تعلق عدالتی نظام سے نہ ہو؟جب نظام حکومت میں عدلیہ کا پورا ایک شعبہ کام کرتا ہے تو پھر الگ سے حکومتیں زیادہ طاقت کی خواہاں کیوں ہوتی ہیں؟یہ معاملہ صرف اتر پردیش کا نہیں ہے مرکزی اور ملک کی متعدد ریاستی حکومتیں اس سے قبل اس طرح کے قوانین وضع کر چکی ہیں،جس سے انہوں نے عدلیہ کو بالکل الگ رکھا ہے۔وہی خود مدعی بھی ہوتی ہیں اور منصف بھی،ایسے میں انصاف کا کیا ہوگا کبھی کسی کو اس کی فکر نہیں رہی ہے بلکہ جس نے بھی ایسے قوانین وضع کیے اس کے اپنے مفاد رہے ہیں خواہ مرکز کی سرکاریں رہی ہوں یا  پھر ریاستی حکومتیں رہی ہوں،اس معاملے میں سب کا ریکارڈ سیاہ ہی رہا ہے۔اس قانون کو بھی اپوزیشن نے ’’سیاہ قانون‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ قانون رولٹ ایکٹ 1919 (Anarchical and Revolutionary Crime Act of 1919)کا عکس محسوس ہوتا ہے، جسے ’’سیاہ قانون‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا۔برٹش حکومت نے ملک کی آزادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے اور ایسی تحریکات کو کچلنے کے لیے یہ قانون وضع کیا تھا،جس کے تحت حکومت کو یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی ہندوستانی کو جب چاہے گرفتار کرلے اور عدالت میں بغیر مقدمہ چلائے اس کو قید کر دے۔اس قانون کے تحت ملزم کو یہ بھی حق نہیں تھا کہ وہ اپنے خلاف مقدمہ درج کرانے والے کا نام جان سکے۔یوں بھی اس طرح کے جتنے بھی قانون اب تک وضع کیے گئے ان کا مثبت پہلو جو عوام کو باور کرایا گیا وہ کبھی ابھر کر سامنے نہیں آیا بلکہ اس کے وہ منفی پہلو غالب رہے جن کی طرف ابتدا میں اپوزیشن نے اشارے کیے تھے۔اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ 1967 میں یواے پی اے، 1987میں ٹاڈا،1999میں مکوکا،2002میں پوٹا اور 2003 میں گجکوکا جیسے قانون دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے۔ٹاڈا کے تحت 76036افراد کو گرفتار کیا گیاجس میں ایک فیصد ہی مجرم قرار پائے۔ 2004 میں جب پوٹا قانون کالعدم قرار دیا گیا اس وقت تک1031افراد کی گرفتاری ہوئی،18معاملات کی سماعت ہوئی جن میں سے 13میں مجرم قراد دیا گیا۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی) کے اعداد وشمار کے مطابق یواے پی اے کے تحت 2016میں 33میں سے 22معاملات میں ملزموں کو بری کردیا گیا جبکہ 2015میں 76 میں سے 65 میں الزام ثابت نہیں کیے جاسکے۔ 2014سے 2016کے درمیان کے اعداد وشمار کے مطابق 75فیصد معاملات میں رہائی یا بری کیے جانے کا فیصلہ عدالتوں نے سنایا ہے۔ان قوانین کے تناظر میں اگر یوپی کے اس نئے قانون،اس کی شقوں اور اس فورس کوملنے والے لامحدود اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ حکومتیں عدالتوں سے ایسے افراد کو بری کیے جانے سے نالاں ہیں، اسی لیے اس قانون کو ماورائے عدالت رکھا گیا ہے۔یوپی ایس ایس ایف کا اعلامیہ تو جاری کردیا گیا ہے لیکن آئین ہند کے آرٹیکل 22کی شق (1اور 2)سے یہ ٹکراتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔جس کے مطابق کسی بھی شخص کو پولیس بغیر جرم بتائے گرفتار نہیں کر سکتی ہے،اس کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کا وکیل رکھے، گرفتار شخص کو 24گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے،یہاں نہ دلیل نہ وکیل سبھی فیصلے ماورائے عدالت ہوں گے۔حکومت اور اپوزیشن دونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آمریت دبے پاؤں جمہوریت کے راستے سے ہی آتی ہے،ابتدا میں کسی کو محسوس نہیں ہوتا کہ جمہوریت آمریت کی راہ پر چل نکلی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت میں ایسے قوانین ہی آمریت کو راہ دیتے ہیں،اس لیے اپوزیشن کو جمہوریت کی بقا اور سالمیت کے لیے سینہ سپر ہوجانا چاہیے اور حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اس کا انتخاب بہتر طرز حکمرانی کے لیے کیا گیا، اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ مستقبل میں آمروں کے لیے راہ تیار کرے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS