جنسی زیادتی کیس میں ناگپور ہائی کورٹ کا فیصلہ

0

عبدالحفیظ گاندھی

19 جنوری 2020کو بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ کی سنگل جج جسٹس پشپا گنیڈی والا نے ایک عجیب فیصلہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ جنسی زیادتی کے لیے جلد سے جلد کا چھونا ضروری ہے۔ اپنے فیصلے کی حمایت میں جج نے جنسی جرائم سے بچوں کا تحفظ ایکٹ، 2012(The Protection of Children from Sexual Offences Act,  2012 (POCSO Act)) کے سیکشن7کا حوالہ دیا۔ جج کے مطابق سیکشن7میں جنسی زیادتی کے جرم کے لیے براہ راست جسمانی رابطہ ہونا چاہیے۔ جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی کو کپڑوں کے اوپر سے چھونے کو جنسی زیادتی کا جرم نہیں سمجھا جائے گا۔
میرے خیال میں یہ فیصلہ غلط ہے۔ سیکشن7میں کہیں بھی لفظ براہ راست کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس حصے میں صرف جسمانی رابطے(physical contact) کا ذکرہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکشن7میں جنسی زیادتی کے جرم کے لیے  جلد سے جلد چھوئے یہ ضروری نہیں ہے۔ اگر جنسی نیت سے کسی بھی طرح کا جسمانی رابطہ کیا گیا ہے ، تو وہ POCSO ایکٹ کے سیکشن7کے دائرے میں آجائے گا۔
نچلی عدالت نے پوکسو ایکٹ کی دفعہ8میں ملزم کو تین سال کی سزا سنائی۔ لیکن بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ نے نچلی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ ہائی کورٹ کے جج نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کو پوکسو ایکٹ کی دفعہ7اور8میں بری کیا جاتا ہے اور ملزم کو صرف آئی پی سی کی دفعہ354میں قصوروار مانا جائے گا۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ پوکسوایکٹ کے مقابلے میں آئی پی سی کی دفعہ354معمولی جرم ہے۔
ناگپور بینچ کے اس فیصلے پر لوگوں نے برہمی کا اظہار کیا۔ بہت سے لیگل اسکالرس کا یہ ماننا ہے کہ موجودہ فیصلہ میں ہائی کورٹ کی جج نے POCSOایکٹ کے ارادے اور مقصد کو نظرانداز کیا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد بچوں کو جنسی جرائم سے بچانا ہے۔ ناگپور بینچ کے موجودہ فیصلے سے POCSO ایکٹ کمزور ہوگا جس سے معاشرے میں بچوں کے جسمانی استحصال میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
راحت کی بات یہ ہے کہ فیصلے پر تنازع دیکھ کر سپریم کورٹ نے جسٹس پشپا گنیڈی والا کے فیصلے پر روک لگا دی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس شرد اے بوبڈے کی بینچ نے اس فیصلہ پر اسٹے لگادیا جب اٹارنی جنرل آف انڈیا کے کے وینوگوپال نے سپریم کورٹ سے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے غلط پیغام جائے گا اور یہ فیصلہ ایک غلط نظیر بنے گا۔ وینوگوپال نے یہ بھی کہا کہ ناگپور ہائی کورٹ کا فیصلہ POCSO ایکٹ کے ارادے کو بھی کمزور کرتا ہے۔ اٹارنی جنرل کے ذریعہ سپریم کورٹ کے نوٹس میں معاملہ لانے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس رجسٹر کرتے ہوئے ملزم اور ریاست مہاراشٹر کو نوٹس جاری کیا۔ اب اس پورے کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوگی۔بچوں کے قومی کمیشن نے بھی اس معاملہ کا نوٹس لیا تھا اور حکومت مہاراشٹر کو ناگپور بینچ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کے لیے کہا تھا۔
اگر اس فیصلہ پر روک نہیں لگائی گئی ہوتی تو آنے والے وقت میں یہ فیصلہ معاشرے کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا۔
جس کیس کی ہم بات کر رہے ہیں اس میں ملزم کسی بہانے سے ایک بچی کو اپنے گھر بلاتا ہے اور پھر اس کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔ اس بچی کے سینہ پر ہاتھ پھیرتا ہے اور اس کی شلوار اُتار دیتا ہے۔ بچی کے چیخنے پر پڑوسی بچی کی ماں کو بلاتے ہیں۔ ماں وہاں آکر دیکھتی ہے کہ بچی کو ملزم نے ایک کمرے میں بند کررکھا ہے۔ اس کے بعد ماں اور بچی براہ راست پولیس اسٹیشن جاکر ایف آئی آر درج کرادیتی ہیں۔ نچلی عدالت نے بچی اور والدہ کے بیانات کی بنیاد پر مؤقف اختیار کیا کہ ملزم نے پوکسوایکٹ کی دفعہ7 میں جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا ہے ، لہٰذا عدالت نے دفعہ8میں تین سال کی سزا سنادی۔
لیکن جب ملزم نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تو بمبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ کی جج نے نچلی عدالت کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ اس میں پوکسوایکٹ کے تحت جنسی زیادتی کا جرم نہیں بنتا۔ ناگپور بینچ کی جج نے یہ بھی کہا کہ اس کیس میں دیے گئے ثبوتوں سے یہ واضح نہیں ہے کہ ملزم نے بچی کے سینے کو کپڑوں کے اوپر دبایا یا کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈال کر بچی کے ساتھ بدسلوکی کی۔
ناگپور ہائی کورٹ کی جج کے مطابق اگر کپڑوں کے اوپر سے سینہ کو دبایا گیا ہے تو پوکسو ایکٹ کی دفعہ7نافذ نہیں ہوگی۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ سینہ پر ہاتھ کپڑوں کے اندر یا کپڑے ہٹا کے رکھنے پر ہی سیکشن 7میں جنسی زیادتی کا جرم ہوگا۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق جنسی زیادتی کے جرم کے لیے جلد سے جلد کا چھونا ضروری ہے۔
POCSOایکٹ کے سیکشن7کی یہ تشریح قانونی طور پر غلط ہے۔ سیکشن7میں جلد سے جلد کے چھونے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ اس سیکشن میں غلط نیت سے کسی بھی طرح کا چھونا جنسی زیادتی کے زمرے میں آجائے گا۔
ایک اور بات جو اس فیصلے میں غیرمناسب ہے وہ یہ ہے کہ متاثرہ بچی کا نام بھی اس فیصلے میں لکھا گیا ہے۔ فیصلہ میں متاثرہ بچی کا نام سامنے آنے سے اس کے مستقبل پر برا اثر پڑسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلہ سے بچی کا نام ہٹادے۔
ناگپور بینچ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب خواتین کے خلاف سنگین جرائم سامنے آرہے ہیں۔ ہاتھرس اور بدایوں اضلاع کے واقعات آج بھی ہمارے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ آئے دن شرمسار کرنے والے واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ موجودہ فیصلے میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ مجرم یہ کہہ کر بچ سکتے ہیں کہ انہوں نے کسی خاتون کو کپڑوں کے اوپر سے چھوا ہے۔
دلّی میں دسمبر 2012میں نربھیا کے ساتھ دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ پورا ملک اس واقعہ کو سن کر حیران رہ گیا تھا۔ جس بے رحمی کے ساتھ اس واقعہ کو انجام دیا گیا، وہ انسانی سوچ سے بالاتر تھا۔ کوئی حیوان ہی اس طرح کے واقعہ کو انجام دے سکتا ہے۔ اس واقعہ کے خلاف طلبا اور نوجوان سڑکوں پر آگئے۔ جنسی جرائم کے خلاف سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے جسٹس ورما کمیٹی تشکیل دی۔ مرکزی حکومت نے ورما کمیٹی کی سفارشات کی بنا پر جنسی جرائم کی سزا میں توسیع کردی۔ جنسی جرائم کا دائرہ وسیع کیا گیا اور انہیں مزید سخت بنایا گیا۔یہاں تک کہ کچھ جنسی جرائم کے جرم میں موت کی سزا بھی رکھی گئی۔
ان سب کے باوجود جنسی جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین میں موت کی سزا رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم عصمت دری کا ارتکاب کرنے کے بعد متاثرہ کو جان سے مارنے لگے۔ عصمت دری کی متاثرہ کو قتل کرنے کے بہت سے واقعات مختلف ریاستوں میںسامنے آئے۔ لیگل اسکالرس حیران ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ مجرم عصمت دری کے بعد متاثرہ کو جان سے مارنے لگے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ موت کی سزا سے بچنے کے لیے عصمت دری کی شکار، جو واقعہ کی واحد گواہ ہوتی ہے ، کوہی راستہ سے مجرم ہٹانا چاہتے ہیں تاکہ کوئی ثبوت ہی نہ بچے۔
ہم نے قانون تو سخت بنادیے، لیکن اس کا منفی پہلو یہ رہا کہ یہ سخت قوانین ایک طرح سے عصمت دری کی متاثرہ کی جان کے لیے خطرہ بن گئے۔ میرا واضح طور پر ماننا ہے کہ سخت قانون بنانے کے بجائے قانون میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جن سے مجرموں کی سزا میں اضافہ ہو۔ہمارے موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ سزا کی شرح میں اضافہ ہوسکے۔ 'Severity of Punishment‘سے زیادہ ہمیں ’ Surety of Punishment‘کی ضرورت ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق94.8فیصد جنسی استحصال کے معاملات جاننے والوں کے ذریعہ انجام دیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان معاملات کو دبادیا جاتا ہے۔ ان کی پولیس میں شاذ و نادر ہی اطلاع دی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں ناگپور بینچ کا فیصلہ صورتحال کو مزید خراب بنا سکتا ہے۔اب معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے اور عدالت نے اس پر اسٹے بھی لگا دیا، اس لیے ابھی تو یہ مسئلہ فوری طور پر ملتوی ہوگیا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ پورے معاملے کی سماعت کے بعد ناگپور بینچ کے فیصلے کو کالعدم کردے گا۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS