وبھوتی نارائن رائے
کچھ بصری تجربے ایسے ہوتے ہیں، جنہیں آپ ہمیشہ بھول جانا چاہیں گے۔ کسان تحریک کے دوران حال میں انہیں اور ان کے ٹریکٹروں کو راجدھانی دہلی کی سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لیے پولیس کے ذریعہ سڑکوں پر نصب کی گئی لمبی نوکیلی کیلیں یا خاردار تاروں کے باڑے ایسے ہی نظارے ہیں، جنہیں دیکھتے ہوئے گھبراہٹ اور دہشت ایک ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیوں ممکن ہورہا ہے کہ جمہوریت بننے کے عمل میں مصروف ایک معاشرہ اور اپنے کو اس کے مطابق بنانے کی کوشش کررہی پولیس کی جگلبندی ایسے مناظر پیدا کررہی ہے جو کسی بھی مہذب آنکھوں کو پرکشش نہیں لگیں گے۔
اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ ہندوستان میں پولیس کے ردعمل اکثر غیرپیشہ ور اسباب سے متاثر ہوتے ہیں۔ 26جنوری کو جس طرح سے دہلی میں گھسے تخریب کار ٹریکٹرسیکورٹی کا دائرہ توڑتے ہوئے لال قلعہ تک پہنچ گئے اور بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے اس پر ایک مذہبی جھنڈا لہرا دیا گیا، اس سے کسی کو بھی دہلی پولیس کو ایک پیشہ ور پولیس فورس ماننے میں دقت ہوگی۔ اپنی شروعاتی غلطی پر لیپاپوتی کرنے کی کوشش میں دہلی پولیس نے تحریک کے اگلے مرحلہ کو روکنے کے لیے ہریانہ، اترپردیش کی سرحدوں پر ایسے انتظامات کیے کہ کئی ممبران پارلیمنٹ کو ایوان میں کہنا پڑا کہ ایسے مناظر تو انہوں نے پاکستان کی سرحد پر بھی نہیں دیکھے ہیں۔
پولیس کی جلدبازی میں کیے گئے بے تکے انتظامات کے اسباب تلاش کرنا بہت مشکل نہیں ہوگا۔ نظم و نسق قائم رکھنے کی ذمہ داری کچھ حالات کے بعد پولیس کی قیادت پر چھوڑ دی جانی چاہیے۔ کسی صورت حال میں ہدف طے ہونے کے بعد اسے حاصل کرنے کی حکمت عملی بنانے اور نافذ کرنے کی ذمہ داری اسی قیادت کی ہونی چاہیے، لیکن ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ عموماً پولیس کے ذریعہ طے کی گئی حکمت عملی میں اہم مشورے غیرپیشہ ور ذرائع سے آتے ہیں اور اکثر وہی فائنل بھی ہوتے ہیں۔ 26جنوری کو دہلی میں پھیلی لاقانونیت اسی کی مثال ہے۔ جس طرح سے واقعہ پیش آیا، اس سے یقین کرنا مشکل ہوگاکہ کسان مارچ سے نمٹنے کی حکمت عملی پولیس کی اعلیٰ قیادت بنارہی تھی یا اس میں وقت وقت پر ضرورت کے مطابق تبدیلی کررہی تھی۔ پورا ملک خاموشی سے دلی کی سڑکوں پر لاقانونیت اور اس سے نمٹنے میں پولیس کی ناکامی دیکھ رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ یوم جمہوریہ کی تقریبات کی شان و شوکت اور ان پر ممکنہ دہشت گردانہ خطروں کے سبب دہلی پولیس کی پہلی ترجیح وہی تھی، لیکن اس کے بعد بھی جتنے وسائل اس کے پاس نظر آرہے تھے، وہ مضبوطی سے مزید صحیح حکمت عملی سے استعمال کیے جاتے تو لاقانونیت کافی حد تک محدودکی جاسکتی تھی۔ چھوٹے پردے سے چپکا ملک دونوں فریق، کسانوں اور پولیس کے جوابی حملے دیکھ رہا تھا اور کسی سے یہ پوشیدہ نہیں رہا کہ پولیس کی پوزیشن کبھی بھی واضح نہیں تھی کہ اسے کرنا کیا ہے۔ کوئی غیرمرئی ہاتھ تھا جو اس کی حکمت عملی میں اپنی ضرورت کے مطابق وقتی تبدیلی کررہا تھا۔ نتیجتاً لال قلعہ میں جو کچھ ہوا، اس کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔
26جنوری کی ناکامی کے دوران اس تحمل کے لیے تو دہلی پولیس کی تعریف کی جانی چاہیے کہ اپنے اہلکاروں کے شدید طور پر زخمی ہونے کے باوجود اس نے شرپسند عناصر پر گولی نہیں چلائی اور کسی انسانی جان کا نقصان نہیں ہوا، لیکن اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں ملتا کہ آنسوگیس کے گولوں و لاٹھی چارج کے بعد ان کے پاس ربر بلیٹ جیسے کم نقصان دہ متبادل کیوں نہیں تھے، جن کے باعث بغیر جان لیے بھی ہجوم کو منتشر کیا جاسکتا تھا؟ پولیس کے پاس اسٹن گرینیڈ یا مرچوں کے چھڑکاؤ جیسے متبادل زیادہ ہونے چاہیے جو جان لینے کی جگہ خوف پیدا کریں۔
اس کے بعد 6فروری کے چکاجام کے دوران جس طرح کی ناکہ بندی دہلی سرحد پر کی گئی، وہ کسی پیشہ ور کارروائی سے زیادہ اپنی گزشتہ ناکامی کی کھسیاہٹ نکالنے کی کوشش زیادہ لگتی ہے۔ ایک خراب آپٹک کی طرح بڑی بڑی نوکیلی کیلیں سڑک پر نصب کی گئیں، راستوں پر کنکریٹ کے ٹکڑے رکھے گئے یا خاردار تار بچھائے گئے۔ ہم یہ بھول گئے کہ اب ایک عالمی گاؤں میں تبدیل دنیا میں عوامی تحریکوں سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی ریاستی کارروائی بین الاقوامی خوردبین سے ہوکر گزرتی ہے۔ حقوق انسانی کی ایک عام تسلیم شدہ سطح ہے، جس کی کسوٹی پر پرکھنے پر ان تصویروں سے ہندوستان کی شبیہ داغدار ہوگی اور جس طرح کے بین الاقوامی ردعمل کا ان پر اظہار ہوا، وہ کسی بھی طرح سے حوصلہ افزا نہیں تھے۔ تھوڑے صبر اور تخیل سے کام لیا جاتا تو انہیں طریقوں کو بہتر ڈھنگ سے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ مثلاً کیلیں نصب لکڑی کے پھٹے محفوظ رکھے جاسکتے تھے اور جنہیں ضرورت پڑنے پر کسی بھی راستہ پر تیزی سے لگایا جاسکتا تھا۔ اسی طرح خاردار تار بھی تربیت یافتہ دستے کے ذریعہ بروقت بچھائے جاسکتے ہیں۔ کسان کوئی دشمن ملک کے فوجی نہیں ہیں جو رات کے اندھیرے میں اچانک حملہ کریں گے۔ ہر تحریک پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے اور پولیس کی رکاوٹوں کو ہٹانے سے قبل گھنٹوں کھینچاتانی چلتی ہے۔ ہر مرتبہ اتنا وقت تو ہوتا ہی ہے کہ پولیس اہلکار ضرورت پڑنے پر مذکورہ رکاوٹیں کھڑی کرسکیں۔ یہ سب نہیں کیا گیا اور دہلی کی سرحد کو ایکچوئل کنٹرول لائن جیسا دکھنے دیا گیا تو شاید اس کے پیچھے وہ اتاؤلی جھنجھلاہٹ تھی، جس کے لیے کسی پیشہ ور پولیس فورس میں جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
کسان تحریک کا کیا نتیجہ نکلے گا، اس کا دارومدار تو سیاسی قیادت پر ہے، لیکن تحریک پرامن رہے، اس کی کچھ حد تک ذمہ داری پولیس فورس کی بھی ہے۔ دہلی، اترپردیش اور ہریانہ پولیس کو الگ الگ اور ایک ساتھ بھی بیٹھ کر اس پر سنجیدہ تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ضرورت پڑنے پر انہوں نے ضروری مقدار میں طاقت کا استعمال نہیں کیا اور بغیر ضرورت ان آلات کا مظاہرہ کیا جن سے حقوق انسانی کا احترام کرنے والی جمہوریت کا ہمارا دعویٰ یقینی طور پر کمزور پڑا ہے۔ سیاسی قیادت کو بھی اس طرح کے حالات میں پولیس قیادت کو ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ انہیں فیصلوں میں خاطرخواہ آزادی دینی ہی ہوگی، تبھی ممکن ہوسکے گا کہ وقت پر مناسب طاقت کا استعمال ہو اور بے ضرورت ان کا بے سلیقہ مظاہرہ نہ کیا جائے۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)