زکریا سلطان
گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بی جے پی کاپلڑا سب پر بھاری رہااگر چہ وہ دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ ماضی کی اپنی صرف 4 نشستوں سے بڑھ کر اب وہ 48نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، یعنی اس کی نشستوں میں ایک ہزار200فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا اور اس کی محنت رنگ لائی۔ جو لوگ انتخابی مہم کے دوران بلکہ انتخابی نتائج کے اعلان سے ایک دن پہلے تک بی جے پی کا یہ کہہ کر مذاق اڑارہے تھے کہ اس نے غیر ضروری طورپر ساری قوت جھونک کر غلطی کی ہے اور اسے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، ان کی بات غلط ثابت ہوئی اور وہ خود غلط ثابت ہوئے۔ ایگزٹ پول کے نتائج اور سیاسی پنڈتوں کی قیاس آرائیاں بھی کافی حد تک غلط ثابت ہوئیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران ٹی آر ایس کو تلنگانہ میں تیسری مرتبہ بڑا جھٹکا لگا، پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب چیف منسٹر کے سی آر کی بیٹی کویتا کو نظام آباد کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے ہاتھوں کراری شکست ہوئی، دوسرا جھٹکا اُس وقت لگا جب سدی پیٹ کے حلقہ دباکے ضمنی اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کی امیدوار بی جے پی سے ہار گئیں اور اب یہ تیسرا جھٹکا ہے جس کے چرچے سارے ملک میں ہو رہے ہیں۔وزیراعلیٰ کے سی آر کی ٹی آر ایس کا گراف 99نشستوں سے نیچے گرکر 55 نشستوں پر آگیا بہ الفاظ دیگر گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کے سی آر کو غیر متوقع طور پرمنھ کی کھانی پڑی۔ ٹی آر ایس کے قائدین بشمول وزیراعلیٰ کے صاحبزادے کے ٹی آر اور وزیر داخلہ محمود علی بلند بانگ دعوے کررہے تھے کہ انہیں 100 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی ملے گی لیکن ان کے خواب چکنا چور ہوگئے۔مجلس اتحادالمسلمین کو بھی مایوسی ہوئی، وہ بھی اپنی سابق نشستوں میں کوئی اضافہ نہ کرسکی، بلکہ اس کے 7امیدوار شکست سے دوچار ہوگئے۔ دوسرے یہ کہ مجلس کی پوزیشن کارپوریشن میں تعداد کے اعتبار سے دوسرے مقام سے گر کر تیسرے مقام پر ہوگئی۔جب مجلس کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی ریاست تلنگانہ سے دور بلکہ بہت دور دوسری ریاستوں میں جاکر الیکشن لڑسکتی ہے اور وہاں کے ماحول کو گرما سکتی ہے، کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو کمزور کرسکتی ہے تو بی جے پی حیدرآباد آکر کیوں نہیں لڑ سکتی؟ کیوں اپنی قوت میں اضافہ نہیں کرسکتی؟ اسے بھی پورا پورا حق حاصل ہے جس طرح مجلس کو حاصل ہے! اور ہوا بھی یہی کہ بی جے پی نے عوام کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کرکے اپنا حامی بنالیا، اب بی جے پی کے نا م پرخوب واویلا ہوگا اور ہمیں مزید ڈرایادھمکایا اور ورغلایا جائے گا۔ بہرحال دونوں صورتوں میںگفتار کے غازیوں کی چاندی ہی چاندی ہے۔
رہی بات ٹی آرایس کی تو دوسری بار اسمبلی انتخابات جیتنے والی اورپچھلے کارپوریشن انتخابات میں 99 نشستیں جیتنے والی ٹی آرایس اس بار 56 نشستوں پر ہی سمٹ گئی اوراسے نقصان کسی اورپارٹی سے نہیں بی جے پی سے پہنچا ۔ بی جے پی نے ہی اس کی سیٹیں چھین کر حیدرآبا دمیونسپل کارپوریشن میں نہ صرف نمبر 2پارٹی بن گئی بلکہ معلق کارپوریشن کردیا۔کہاں پچھلی بار ٹی آرایس نے اپنے بل بوتے پر اپنا میئر بنالیا تھا اس بار وہ سب سے بڑی پارٹی تو ہے لیکن میئر بنانے کے لئے اسے کسی اوربڑی پارٹی کی حمایت کی ضرورت پڑے گی ۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹی آر ایس کی یہ حالت کیوں ہوئی ؟ جب مجلس اپنی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہی تو ٹی آرایس کو ہی بی جے پی سے نقصان کیوں پہنچا جبکہ وہ پارلیمنٹ میں ہر بل میں مرکزی حکومت کی حمایت کرتی رہی ہے ۔تو اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ اس بار وہ ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہی ہے ۔سماج کے ہر طبقہ سے اسے کم ووٹ ملے ۔ووٹ اسی وقت کم ملتے ہیں جب ان سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے جائیں یا ان کے خلاف کام ہوں ۔کچھ شکایات مسلمانوں کو تھی جیسے پارلیمنٹ میں مسلم مخالف بلوں کی حمایت، سکریٹریٹ کی مساجد کو شہید کرنا اوران کی تعمیر میں تاخیر، 12 فیصد ریزرویشن کے وعدے کو پورا نہ کرنا اورآلیر کے مبینہ انکائونٹر پر خاموشی اختیار کرنا ۔کچھ شکایات عمومی تھیں جیسے غربت، بھکمری اور افلاس میں عوام کو چھوڑ نا، لاک ڈائون کے دوران ان پر سختی کرنا اورمالی مدد نہ کرنا ، ماہانہ 3 ہزار روپے بے روزگاری الائونس کے وعدے کو پورا نہ کرنا۔پنشن کے مستحقین اور غریب و کمزور طبقات کے مسائل حل نہ کرنا۔ہار کے اور بھی بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنے کے لیے کئی صفحات درکارہوں گے، یہاں صرف چند ایک کا ذکر کیا گیا ہے۔ غرضیکہ اقتدار کی متلاشی بی جے پی نے ٹی آر ایس کو ہی نشانہ بنایا، چنانچہ بی جے پی کے قومی قائدین اور مرکزی وزراء نے حیدرآباد کا رخ کرکے ٹی آر ایس کی خوب خبر لی اور بدعنوانی کے سنگین الزامات عائدکرتے ہوئے پارٹی پر زبردست ہلّہ بول دیا۔ اسی دوران بی جے پی کے ریاستی صدر بنڈی سنجے کمارنے بھی خوب سبز باغ دکھایا ۔تلنگانہ کو سنہری ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والے کے سی آر اور ریاستی وزراء کے بارے میں کہا کہ ان میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ انہوں نے ٹی آر ایس پر بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے چیف منسٹر کو ایک مسخرہ کردارقرار دیا۔ یہی نہیں بی جے پی کے ریاستی صدرنے ایک موقع پرچیف منسٹر کے سی آرکی اگلی منزل جیل قرار دیا۔
جی ایچ ایم سی کے حالیہ انتخابی نتائج بتارہے ہیں کہ کانگریس کو کمزور کرنے کا بہت برا نتیجہ نکلا، یہ ایک فاش غلطی تھی جس کے سبب جنوبی ہند میں بی جے پی کو اپنے پیر جمانے کا حوصلہ ملا۔ آئندہ اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی کی بڑی کامیابی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی قائدین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اب تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے سے اسے نہ تو کے سی آر روک سکتے ہیں اور نہ اویسی۔ سیاسی ہوا کے رخ کو بھانپ کرمفاد پرست قائدین بھی خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں، انہیں اچھے اچھے آفر مل رہے ہیں، کانگریس کے کئی قائدین بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈران حالات کو دیکھتے ہوئے پالا بدل رہے ہیں! کے سی آر دراصل دو کشتیوں میں بیک وقت سوار ہونا چاہتے تھے جو نہیں ہوسکا۔ کارپوریشن کے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کے سی آر اور ان کی ٹی آر ایس پارٹی اب زوال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جھوٹے وعدوں اور غیر دانشمندانہ فیصلوں نے کے سی آر کو ناکامی کی سمت دھکیل دیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!!
[email protected]