عارف محمد خاں
(مترجم: محمد صغیر حسین)
ابوجعفر محمدابن جریر الطبری(838-923) کوپہلا مسلم مورخ تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک زود نویس صاحب قلم تھے جنہوں نے تفسیر قرآن، دینیات اور فقہ کے علاوہ تاریخ کے موضوع پر ایک جامع کتاب ’تاریخ الرسل والملوک‘ تحریر کی جو تواریخ (Annals/Chronology of events) کے نام سے شہرئہ آفاق اہمیت کی حامل ہوئی۔
تواریخ طبری دراصل ایک عالم گیر تاریخ ہے جس میں پیغمبروں، سرداروں اور بادشاہوں کے عہد کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ اس میں عرب کی تاریخ اور 915عیسوی تک کی تاریخ اسلام بھی مذکور ہے۔ طبری ایک زبردست محدث تھے۔ انہوں نے تاریخ کو قلمبند کرنے میں بھی اصول صحت احادیث کو پیش نگاہ رکھا۔ انہوں نے تاریخی واقعات کی صحت کو پرکھنے کے لیے روایات اور مصادر کی جانچ انتہائی محنت شاقہ سے کی۔ اُن کی تواریخ کی خاص بات یہ ہے کہ اگر کسی واقعہ کے بارے میں دو متضاد باتیں سامنے آئیں تو انہوں نے دونوں کو قلمبند کردیا۔
جو بات پیغمبروں کی تاریخ اور کائنات اور انسان کی پیدائش کی کہانی پر مشتمل ہے وہ بیشتر قرآنی آیات، احادیث نبوی اور اسرائیلیات پر مبنی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس باب میں طبری نے ہندوستان کا اچھا خاصہ ذکر کیا ہے۔ انہوں نے سرزمین ہندوستان کی کرم فرمائیوں اور جود و سخا کا ذکر انتہائی ستائشی انداز میں کیا ہے۔
جنت سے آدم و حوا کے اخراج کا تذکرہ کرتے ہوئے طبری نے نبی کریمؐ کے ابن عم اور مشہور اسلامی عالم ابن عباسؓ کا حوالہ دیا ہے۔ ابن عباس نے بتایا تھا کہ ثمرممنوعہ کو چکھنے کے بعد پہلے انسان کو زمین پر اُتار دیا گیا۔ وہ مقام نزول سرزمین ہند تھا۔ طبری نے ایک اور راوی حدیث، ابوالعالیہ کا حوالہ بھی دیا ہے جنہوں نے ابن عباسؓ کے قول کی تصدیق و توثیق کی ہے۔
طبری نے حضرت علیؓ کا قول بھی تحریر کیا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ کرۂ ارض کی تمام زمینوں میں ہندوستان کے موسم اور آب و ہوا بہترین ہیں۔ اسی لیے اللہ نے آدم کو ہندوستان میں اُتارا اور یہاں کی نباتیہ اور حیوانیہ(Flora and Fauna) کو جنت کی خوشبو سے معطر کیا۔
آدم اور حوا کے نزول کے بالکل صحیح مقام کی شناخت کے تعلق سے طبری کئی راویوں کا حوالہ دیتا ہے۔ ابن عباسؓ کے بقول آدم ’بوز‘ نامی مقام پر اتارے گئے تھے، نبی کریمؐ کے سوانح نگار ابن اسحق کہتے ہیں کہ یہ مقام ’وسَم‘ نامی ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی جو ’دھنج‘ اور ’منڈل‘ نامی دو شہروں سے متصل ’بھیل‘ وادی کے نزدیک واقع تھی۔ جب کہ حوا کو جزیرہ نمائے عرب میں ’جدہ‘ میں اتارا گیا تھا۔
طبری نے ایک اور روایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آدم نے حج ادا کرنے کے لیے مکے میں واقع بیت اللہ کے سفر کا قصد کیا اور ہندوستان سے کوچ کیا۔ وہاں عرفات کے مقام پر حوا سے ملاقات ہوئی۔ دونوں ساتھ ساتھ ہندوستان واپس آئے اور اپنی خاندانی زندگی کی شروعات کے لیے انہوں نے ایک غار کو اپنا مسکن بنایا۔ اپنے بدن کو ڈھانکنے کے لیے انہوں نے جو پہلا لباس زیب تن کیا وہ بھیڑ کے اون سے بنا ہوا تھا۔ آدم اور حوا کو زمین پر اتارتے ہوئے انہیں آٹھ جانوروں کے جوڑے بھی دیے گئے تھے۔ بھیڑ انہیں جانوروں میں سے ایک تھی۔
طبری نے ابن عمرؓ کی ایک روایت بیان کی ہے کہ ’جب آدم زمین پر اتارے گئے تو وہ جنت کی پتیوں سے بنا ہوا ایک تاج پہنے ہوئے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ پتیاں خشک ہوکر زمین پر گرگئیں اور اُن سے جملہ اقسام کی بوٹیاں، پھل اور فصلیں پیدا ہوئیں‘۔ ابن عمر کی روایت کی توثیق دوسرے علماء نے بھی کی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں ایک آیتِ قرآنی کا حوالہ دیا ہے: ’’آخرکار جب انہوں نے اُس درخت کا مزا چکھا تو اُن کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔
(سورۂ الاعراف:22)
ایک دیگر روایت میں ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جنت سے اخراج سے قبل فرشتوں نے آدم کا مذاق اُڑایا۔ اللہ رب العزت نے فرشتوں کو منع کیا کہ وہ آدم کو پریشان نہ کریں اور اس بات کی اجازت دے دی کہ جنت کے جو تحائف اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں وہ لے جائیں۔ چنانچہ آدم یہ جنتی تحائف ہندوستان لے آئے اور یہ پورے ہندوستان میں پھلتے پھولتے ہیں۔ ابن عباسؓ نے ہندوستانی پیداوار کے لیے ’خالص‘ لفظ کا استعمال کیا ہے اور انہیں آدم کے جنتی ورثے سے تعبیر کیا ہے۔
طبری کے تحریر کردہ وقائع سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے کے مسلم علماء ہندوستان کے تئیں جذبۂ ستائش سے سرشار اور اُس کی دلکشی سے مسحور تھے۔ ہندوستان کے بارے میں اُن کے بیانات کہ یہ بہترین موسموں، آب و ہوا، شام جاں کو معطر کرنے والی خوشبوؤں اور جنت کی خالص پیداوار کی سرزمین ہے، سن کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم حب الوطنی سے بھرپور کوئی نغمہ سن رہے ہوں۔ یہ کوئی امر تعجب خیز نہیں ہے کیوں کہ خود نبی مرحمتؐ نے فرمایا ہے: ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سرزمین ہند سے علم و آگہی کی بادصبا آرہی ہو۔‘‘
(مضمون نگار سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)