لوجہاد‘‘ قانون سازی،سماجی معاملے کا سیاسی تناظر”

0

محمد حنیف خان

 کسی بھی معاملے کو دیکھنے کا نظریہ اس کے پورے بیانیے کو بدل دیتا ہے۔جس کے فوائد وقتی اور نقصانات بڑے دیر پا ہوتے ہیں۔لیکن سیاست داں تو وقت کے نباض ہوتے ہیں اس لیے ان کی نظر وقتی ہی ہوتی ہے، اسی لیے ایک ایسے معاملے کو مذہبی اور سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے جو خالص سماجی نوعیت کا ہے۔ہندو اور مسلم لڑکے اور لڑکیوں کے مابین تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے مگر اس کو جب ایک خاص چشمے اور نظریہ سے دیکھا گیا تو مشترک سماج دولخت ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔’’لوجہاد‘‘ بھی اسی نوعیت کا معاملہ ہے۔ اب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور ہریانہ کے وزیر داخلہ نے ہندو لڑکیوں کو مبینہ ’’لو جہاد‘‘ سے نجات دلانے کے لیے قانون سازی کا اعلان کیا ہے ۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان ’’لوجہاد ‘‘ کرنے والے سدھر جائیں ورنہ ان کی ’’رام نام ستیہ‘‘ کی یاترا نکلے گی۔‘‘’’ٹھونک دو‘‘ پالیسی کی طرح ہی ہے۔ان کا یہ بیان ’’ماب لنچنگ ‘‘کو بڑھاوا دینے والا ہے جس سے سماج میں مزید نفرت اور تشدد کو فروغ ملے گا۔
’’لوجہاد‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جس نے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک نئی پہچان دلائی ہے۔اس اصطلاح سے انہوں نے کئی طرح کے فائدے اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی وہ اس اصطلاح کے دوش پر سوار ہو کر سیاسی فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔انہوں نے ہی کہا تھا کہ اگر کوئی مسلم لڑکا ایک ہندو لڑکی کے ساتھ نکاح کرتا ہے تو سو مسلم لڑکیوں کو اٹھا لایئے۔ اتر پردیش میں انہوں نے ہی اس اصطلاح کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔اس سے متعصب ذہنیت والوں کے دو فائدے ہوئے، اول اس اصطلاح نے اسلام کوبدنام کیا اورمسلم نوجوانوں کواسکول و کالج اور کاروباری مقامات پر اچھوت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔دوم اس کے ذریعہ ہندو عزت و وقار کے نام پر ان کو پولرائز کر نے کی کوشش کی گئی۔حالانکہ صرف اترپردیش ہی نہیں پورے ملک میں ایک بھی معاملہ ایسا سامنے نہیں آیا ہے جس میں ’’لوجہاد‘‘کی تصدیق کی گئی ہو۔مرکز کی اتنی جانچ ایجنسیاں ہیں، آج تک کسی نے بھی ایک کیس بھی اس نوعیت کا نہیں رپورٹ کیا ہے۔کیرالہ کے ہادیہ معاملے کو ملکی سطح پر بڑی شہرت ملی ،اس کیس کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا تھا مگر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا وہ تاریخی رہا ۔اس کے حکم کے مطابق ان دونوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ابھی تک ایک معاملہ بھی سامنے نہیں آیا تو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کس ’’لوجہاد‘‘ کے خلاف قانون بنانے کا اعلان کر رہے ہیں؟اس طرح کے معاملات کو وہ سماجی تناظر میں نہ دیکھ کر ان کو مذہبی تناظر میں کیوں دیکھ رہے ہیں؟وہ بین مذاہب تعلقات/ محبت/ شادی کے معاملات کو ’’لوجہاد’’ کا نام دے کر آخر اسلام کو کیوں بدنام کر رہے ہیں؟جہاد کا اسلام سے بہت گہرا تعلق ہے،یہ ایک قرآنی لفظ بھی ہے جس کے تقدس کو ’’عامیانہ لو‘‘کے ساتھ جوڑ کر پامال کیا جا رہا ہے۔
اس سے کوئی انکار نہیں کہ ہندوستان میں مسلم لڑکے اور ہندو لڑکیوں میں تعلقات ہوتے ہیں اور شادیاں بھی ہوتی ہیں اسی طرح سے ہندو لڑکے اور مسلم لڑکیوں میں پیار محبت پر مبنی شادیاں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ایسے میں جانبداری کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے ۔ایک کو ’لوجہاد‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے کو ’’گھر واپسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اس طرح کی جانبداری سے ایک خاص ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
اترپردیش میں ’’لو جہاد ‘‘ کا معاملہ خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے نام پر اٹھایا جاتا ہے۔وزیراعلیٰ نے بھی جو قانون سازی کا اعلان کیا ہے، اس کا مقصد بھی انہوں نے خواتین کی عزت سے کھلواڑ پر قدغن لگانا بتایا ہے لیکن کیا حقیقت میں وہ ایسا چاہتے ہیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔کیونکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعداد وشمار ان کے قول و فعل کے تضاد کو ظاہر کرتے ہیں۔سال در سال خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعداد و شمار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اتر پردیش میں ’’لوجہاد‘‘ محض ایک شگوفہ ہے ورنہ خواتین کے خلاف جرائم میں اس قدر تیزی نہ آتی۔اتر پردیش میں 2019میں خواتین کے خلاف جو جرائم رپورٹ ہوئے ان کی تعداد405861تھی۔جو 2018کے مقابلے 73%زیادہ ہے، جب 378236 معاملات درج کیے گئے تھے۔ملک میں جتنے معاملات خواتین کے خلاف درج ہوئے ان میں سے صرف اترپردیش میں 14.7فیصد ہے ،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوپی میں خواتین کے خلاف کس قدر جرائم ہوتے ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 173245 معاملات لڑکیوںکے اغوا کے تھے جو 17.9فیصد ہے۔45436معاملات زنا بالجبر کے درج کیے گئے جو 7.9فیصد ہے۔81.5فیصد معاملات میں چارج شیٹ ہوئی۔702640معاملات تیزاب سے حملے کے رپورٹ ہوئے۔ 380526افراد کے غائب ہونے کی رپورٹ درج کی گئیں جن میں248397خواتین سے متعلق ہیں، گزشتہ برس کے مقابلے 9.5% زیادہ ہے۔ 30.9% معاملات شوہروں یا خواتین کے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ انجام دیے گئے۔2018میں خواتین کے خلاف فی لاکھ58.8معاملات تھے جو 2019میں بڑھ کر 62.4 ہوگئے۔
 حال ہی میں ہاتھرس میں جو ہوا اور جس طرح سے سرکاری مشینری نے ایک استحصال زدہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ سلوک کیا، وہ اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ اتر پردیش کی مشینری کو خواتین کی عزت ا ور ان کے وقار کی کوئی فکر نہیں ہے۔اتر پردیش کی انتظامیہ کے رویے پر ہی پورے ملک میں اس کی بدنامی ہوئی ۔یہ سب ہونے کے باوجود جب وزیراعلیٰ خواتین کی عصمت و عفت کے تحفظ کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی ہے کہ ان کا مقصد سیاسی روٹی سینکنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ورنہ جس معاملے کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے، اس کو بنیا دبنا کر سیاست کا کیا مطلب ہے؟
ہندوستان ایک مشترک معاشرے کا نام ہے جہاں ہندو مسلم لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پرورش پاتے ہیں، ایک اسکول و کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ایسے میں ان دونوں میں تعلقات نہ تو کوئی حیرت کی بات ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کسی سلیپنگ ماڈیول کا ہاتھ ہے، بلکہ یہ فطری ہے کہ جب دو مخالف جنس ایک ساتھ ہوںتو ان دونوں میں نزدیکیاں بڑھ جائیں۔اب اس کو اگر مذہبی تناظر دے کر نفرت کا رنگ اس پر چڑھانے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے فطرت ہی مسخ ہوگی، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔بین مذاہب تعلقات/محبت/شادی کو ’’لوجہاد‘‘ کا نام دے کر صرف سماج کو کمیونلائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں ہے،کیونکہ ایک خالص سماجی معاملے کو سیاسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے،جس کے فوائد اور نقصانات دونوں ازہر من الشمس ہیں۔
کاش لوجہاد کی جگہ زنا،بے روزگاری، بھکمری، بدعنوانی، کالابازاری، علاج و معالجہ اور تعلیم کے نام پر لوٹ کھسوٹ مچانے والوں کے خلاف بنے قوانین کے نفاذ اور ان میں در آئی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ان میں ترمیم کی بات کی جاتی اور عوام کو اس سے نجات دلائی جاتی،اگر ایسا ہوجاتا تو یہ ملک نہ صرف ترقی یافتہ ہوتا بلکہ یہاں کے عوام کی زندگی بھی پرسکون ہوجاتی۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS