عارف محمد خان
(مترجم: محمد صغیر حسین)
دھرم کیا ہے؟ برہدرانائک اُپنشد اس سوال کا جواب ایک چونکا دینے والی بات دا-دا-دا(دم/دان/دیا) سے دیتا ہے۔ ہندوستانی روایت انہیں تین قدروں کو دھرم کے بنیادی اجزا سمجھتی ہے۔
سوامی وویکانند نے دھرم کی تعریف متعین کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الوہیت کا مظہر ہے جو نوع بشر میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ہر نفس(پران) امکانی طور پر ایشور ہے۔ نصب العین یہ ہے کہ فطرت پر، خارجی اور داخلی طور پر، قابو پاکر درون ذات میں پنہاں ایشور کو ظاہر کیا جائے۔ کام کے ذریعہ یا عبادت کے ذریعہ یا نفس پر قابو کے ذریعہ یا فلسفے کے ذریعہ، ایک یا کئی یا پھر تمام طریقوں کو استعمال کرکے اسے انجام دے کر نجات حاصل کی جائے۔ یہی پورا دھرم ہے۔ نظریات یا اصول یا رسوم یا صحائف یا عبادت گاہیں یا طریق کار بس ثانوی تفصیلات ہیں۔
نفس انسانی کا یہ وہ آفاقی تصور ہے جو صدیوں سے ہندوستان کی مذہبی روایت سے وابستہ اور پیوستہ ہے اور جس نے ہر شخص کے اس حق کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ طور طریقوں سے اپنے خالق تک رسائی حاصل کرے۔ کئی سال پہلے سوامی رام کرشن پرم ہنس نے کہا تھا: ’’یت مت تت پتھ‘‘۔(ہر شخص کے لیے اس کا اپنا راستہ ہے)
ایشور کے کئی نام اور اُس تک رسائی کی بہت سی راہیں، درحقیقت وہ چشمے ہیں جو نکلتے تو مختلف مقامات سے ہیں لیکن بالآخر ایک بحر ذخّار میں مدغم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لوگ اپنے منفرد مزاج و میلان کے سبب مختلف راہیں منتخب کرتے ہیں لیکن یہ ساری راہیں انہیں ایک آفاقی حقیقت سے ہم کنار کرتی ہیں۔ ایک ایشور اور متعدد راہوں، اور تمام نفوس میں صرف ایک ایشور کی جلوہ گری کے تصور کو ایکیشورواد یا ادّویتا(توحید یا عدم ثنویت) کہتے ہیں۔ بھکتی تحریک جیسی روایات جو فانی کو کبھی ختم نہ ہونے والی لافانیت میں مدغم کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں، وہ دراصل عدم ثنویت(non-duality) کے عقیدے کی منطقی استخراج ہیں۔
ہندوستانی تکثیریت، ہمہ گیر قبولیت پر زور دیتی ہے۔ متنوع، مذہبی روایات کی برداشت کوئی دورجدید کی ایجاد و اختراع نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ہمارے دینی اور روحانی مزاج میں گہرائی سے پیوست ہے اور ہندوستان کے عظیم روحانی اکابرین کی زندگیوں سے منعکس ہوتی ہے۔
ادّویت فلسفے کے عظیم مبلغ شنکرآچاریہ سے متعلق ایک دلچسپ کہانی دہرائی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ آٹھویں صدی میں ہندو دھرم کی نشأۃِ ثانیہ کا سہرا اُنہیں کے سر بندھتا ہے۔ وارانسی میں، آچاریہ ہر روز صبح سویرے گنگا اشنان کو جایا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک چنڈال (اچھوت) اُن کی راہ میں کھڑا ہوا ہے۔ انہوں نے اس سے راستے سے ہٹ جانے کو کہا۔ چنڈال نے پوچھا کہ جسم ہٹالوں یا روح۔ اس سوال نے شنکرآچاریہ کے ذہن میں ادّویت کی شمع روشن کردی۔ وہ یکدم چنڈال کے قدموں میں اس طرح گرگئے جیسے کہ وہ اُن کا گرو ہو۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے پانچ اشلوکوں پر مشتمل ’منیش پنچکا‘ تحریر کی جسے شہرت دوام ملی۔ انہوں نے کہا: ’جس نے تمام کو برہمن جیسا دیکھنے کا ہنر سیکھ لیا، وہ واقعی میں میرا گرو ہے چاہے وہ برہمن ہو یا چنڈال۔‘
انیسویں صدی کے ایک عظیم ادّویت مبلغ سوامی رام کرشن پرم ہنس کے بارے میں بھی ایک مسحور کن کہانی دہرائی جاتی ہے۔ وہ آئس کریم کے بہت شوقین تھے۔ ایک دن انہوں نے سڑک پر آئس کریم بیچنے والے کی آواز سنی۔ اسے بلایا گیا لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ آئس کریم بیچنے والا ایک مسلمان ہے تو انہوں نے بے اختیاری طور پر اس سے کھانے کی کوئی چیز بھی نہ خریدنے کا فیصلہ کیا۔ جب ٹھیلے والا چلا گیا تو ان کے مضبوط ادّویت شعور و احساس نے انہیں بیدار کیا۔ انہوں نے فوری طور پر اعتراف کیا کہ مسلم آئس کریم والے کے احساسات کو مجروح کرکے وہ اپنے سلوک کی عظیم بلندیوں سے نیچے گرگئے ہیں۔ وہ فوراً دوڑے، اس مسلم آئس کریم والے کو واپس بلایا اور خوشی خوشی اس کے سامنے آئس کریم کھائی۔
مغربی دنیا کے برعکس، ہندوستانی تکثیریت کو کبھی بھی دھرم کے خلاف مقابلہ آرائی نہیں کرنی پڑی۔ اس کے بجائے اسے خود دھرم نے پروان چڑھایا اور اسے سرسبز و شاداب بنایا۔
(صاحب مضمون سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)