امریکی تعاون سے تحفظ میں اضافہ

0

اروند گپتا

ہندوستان اور امریکہ کے مابین منگل کو نئی دہلی میں 2پلس2بات چیت کا تیسرا دور مکمل ہوا۔ پہلی بات چیت 2018میں ہوئی تھی تو دوسری 2019میں۔ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دوراقتدار میں امریکہ-ہندوستان کے تعلقات میں جو تیزترقی نظر آئی ہے، یہ بات چیت ایک طرح سے اس کی اہم کڑی ہے۔ اس لیے دونوں ہی فریق اسے بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔
تیسری بات چیت گزشتہ دو مرتبہ کی بات چیت میں لیے گئے دوراندیشانہ فیصلوں کو آگے بڑھانے اور پختہ کرنے میں اہم تعاون دے گی۔ اس بات چیت کی اہمیت اس لیے بھی ہے، کیوں کہ ابھی چین و ہندوستان کے مابین سرحد پر کشیدگی ہے اور دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ چین کا جو جارحانہ رُخ ہے، اسے بحیرئہ جنوبی چین اور مشرقی بحیرہ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے،جہاں جاپان کے ساتھ بھی چین کی کشیدگی چل رہی ہے۔ امریکہ نے چین کی اس تناظر میں سخت تنقید بھی کی ہے۔
ڈونالڈٹرمپ کے دوراقتدار میں چین اور امریکہ کے آپسی تعلقات میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ دونوں ممالک میں تجارتی جنگ چل رہی ہے۔ تکنیکی اور تجارتی، دونوں ہی محاذ پر دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں کافی اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کا دوررس اثر پوری دنیا پر پڑرہا ہے۔
یہ سب کووڈ-19کے منظرنامہ میں ہورہا ہے۔ امریکہ نے چین کو دنیا میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے راست ذمہ دار مانا ہے۔ اس وبا نے عالمی نظام پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ عالمی معاشی نظام چرمرا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ مارے گئے ہیں۔ اس پورے تناظر میں دیکھیں تو اس تیسری 2پلس 2بات چیت کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی اس بات چیت کے پس منظر میں تین باتیں ہیں، پہلی، چین-ہندوستان کے درمیان لداخ علاقہ میں زبردست کشیدگی، دوسری، چین کا جارحانہ رُخ اور تیسری، کووڈ-19وبا کے عالمی برے اثرات۔
ہندوستان اور امریکہ کے مابین گزشتہ کچھ برسوں میں دفاعی تعاون میں کافی اضافہ ہوچکا ہے، بالخصوص 2005کے بعد سے، جب دونوں ممالک کے مابین سول نیوکلیئر کوآپریشن پر اتفاق ہوا تھا۔ اس کے بعد دونوں ممالک نے 2006میں ایک دفاعی فریم ورک سے متعلق معاہدہ پر دستخط بھی کیے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومئپیو کے حالیہ ہندوستان دورہ اور اس 2پلس2بات چیت میں خاص بات یہ بھی رہی کہ دونوں فریق نے ایک بنیادی تبادلہ اور تعاون معاہدہ یعنی بیکا(بی ای سی اے) ایگریمنٹ پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ اپنی سیریز میں چوتھا ہے۔اس پر دستخط کے بعد امریکہ-ہندوستان کی افواج میں معلومات کے تبادلہ میں اضافہ ہوجائے گا۔ اہم سیٹ لائٹ ڈاٹا اور دفاعی معلومات کو شیئر کرنے کے لیے بھی تعاون میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کی افواج میں ہم آہنگی میں اس قدر مضبوطی ہوگی کہ آپسی جنگی تربیت کے معیار پر اس کا گہرا اور مثبت اثر پڑے گا۔ یہ ایک بڑی حصولیابی ہے۔ اس سے دونوں ممالک کو علاقائی تحفظ کے مسئلوں پر تعاون کرنے میں مدد ملے گی۔
ایک اور اہم بات۔ بات چیت کے دوران وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہندوستان چاہتا ہے کہ ڈیفنس پروڈکشن ایریا میں امریکی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری کریں۔ ان کی کمپنیاں یہاں آئیں اور اپنے ہتھیار و اوزار ہندوستانی کمپنیوں کی مدد سے یہاں بنائیں، تاکہ ہندوستان کو فائدہ ہو۔یہاں جو پروڈکشن ہو، امریکہ کی افواج بھی ان کا استعمال کریں۔ اگر یہ باتیں سچ ہوتی ہیں، تو ایک بڑی کامیابی ہمارے حصہ میں آئے گی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس بات چیت سے پہلے کچھ اہم سفارتی واقعات انڈو-پیسفک کے تناظر میں ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹوکیو میں کویڈ کی میٹنگ ہوئی، جس میں ہندوستان، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے مابین وزیرخارجہ سطح کی بات چیت ہوئی اور اس کے بعد ہندوستان نے آسٹریلیا کی بحریہ کو مالابار جنگی تربیت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ ہندوستان اور امریکہ، دونوں آزاد اور کھلے انڈو-پیسفک کے حق میں ہیں، جہاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک سسٹم قائم ہو اور سمندری و ایئرویز سے آنے جانے میں روک ٹوک نہ ہو۔
ظاہر ہے چین ان بدلتے منظرنامہ کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ اسے تھوڑی گھبراہٹ بھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ کویڈ کے تحت جمع چاروں ملک ناٹو کا ایشیائی ورژن تو نہیں بنارہے؟ حالاں کہ ہندوستان کی جانب سے جو بیان وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے دیے ہیں، ان میں چین کی کھل کر بات نہیں کی گئی ہے۔ ہاں، امریکی فریق نے ضرور چین کی چرچہ کی ہے۔
اس بات چیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ملک میری ٹائم ڈومین، سائبر اور خلائی میدانوںمیں اپنا تعاون بڑانے پر متفق ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب دونوں ممالک کو یہ معلوم رہے گا کہ کون جہاز کہاں ہے؟ سمندر میں کہاں کیا چل رہا ہے؟ وغیرہ۔ ان سب کے بارے میں معلومات باہمی طور پر شیئر ہوں گی۔ دونوں فریق نے دہشت گردی کے خلاف بھی بات کی ہے۔
ہندوستان کا یہ فیصلہ لینا بھی دلچسپ ہے کہ ہمارا ایک بحریہ افسر امریکہ کی سینٹرل کمانڈ میں پوسٹڈ ہوگا، جو بحرین میں ہے، جب کہ امریکہ کا ایک فوجی افسر ہندوستان میں واقع انٹرنیشنل فیوژن سینٹر میں بیٹھے گا، جہاں بحرہند میں تمام جہازوں کی معلومات درج ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیںکہ امریکہ کے ساتھ ہمارا تعاون بڑھ رہا ہے، کیوں کہ چین کی حرکتوں سے علاقہ میں کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ سبھی ملک چاہتے ہیں کہ چین پر لگام لگے۔ ہندوستانی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے بھی اشارہ کیا ہے کہ دنیا بہت ملٹی پولر ہوئی ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایشیایونی پولرہوجائے۔ اس لیے چین کی جارحیت کو روکنا ضروری ہے۔ اسے نہیں روکا گیا تو اس کا راست اثر ہندوستان پر پڑے گا۔
بہرحال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن میں اقتدار کی تبدیلی سے امریکہ کے لیے ہندوستان کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور جو معاہدہ ابھی ہوا ہے، وہ آگے بھی بہت معنی رکھے گا۔ اس سے دونوں ممالک کے مابین بات چیت اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگارسابق ڈپٹی این ایس اے اور وائی آئی ایف کے ڈائریکٹر  ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS