خاورحسن
برسوں پہلے علامہ اقبالؔ نے کہا تھا، ’قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے؍ اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام‘۔ اس شعر کے سہارے اماموں پر تنقید کی جاتی رہی ہے، کیونکہ عام طور پر لوگ اماموں میں فرشتوں کی صفات دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اِس دنیا کے فرد کی طرح نہیں، اُس دنیا کے فرد کی طرح مانتے ہیں۔ وہ خود تنخواہ کے کم ملنے یا تنخواہ کے نہ بڑھنے کا رونا روتے رہتے ہیں مگر اماموں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ماہانہ تنخواہ پر توجہ نہ دیں، امامت کرنے کے ساتھ درس و تدریس کے فرائض انجام دیں اور سماج سدھارک کا بھی کردار ادا کریں۔ چلئے، امام صاحب زندگی کے ہر مرحلے میں صبر کر لیں، گرمی محسوس نہ کریں، جاڑے کا خیال نہ کریں، اپنے جسم کو ہر موسم کے لائق بنا لیں مگر بیوی، بچوں کا کیا کریں؟ انہیں کیسے بدلیں؟ بچے تو بچے ہیں، کھلونے لینے کے لیے مچل پڑیں تو امام صاحب کیا کریں؟ کیا ان سے یہ کہیں کہ ان کا باپ امام ہے، اس لیے انہیں کھلونے کے لیے مچلنا نہیں چاہیے؟ کیا اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کے بچوں کو گرمی اور جاڑے کے کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے؟ اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کے اہل و عیال کی ضرورتوں کا خیال کتنی مسجدوں کی انتظامیہ کو ہے بلکہ کہنا یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ کتنے لوگ ہیں جو یہ خیال کر کے مسجد انتظامیہ کو خاطر خواہ رقم مہیا کراتے ہیں کہ وہ اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کو ماہانہ معقول رقم دے سکے، ان سے یہ کہہ سکے کہ ’اہل و عیال کی ضرورتوں کی فکر نہ کیجئے، اپنی توجہ اپنے کام پر مرکوز کیجئے۔ آپ کی ہر مناسب ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔‘
دیگر شہروں کی بات چھوڑیے، دہلی میں کتنی مسجدیں ہیں جن کے اماموں کی تنخواہ 20 ہزار یا اس سے زیادہ ہے؟ امام اور مؤذن کے لیے کھانا بھیجنے کی روایت آج بھی جاری ہے مگر یہ ضروری تو نہیں کہ دن کے کھانے میںبریانی بھیجی گئی ہے تو انہیں بریانی ہی کھانے کی خواہش ہو، بیگن کی سبزی کھانے کی خواہش نہ ہو اور رات میں سبزی بھیجی گئی ہے تو انہیں سبزی ہی کھانے کی خواہش ہو، پلاؤ کھانے کی خواہش نہ ہو۔ کئی بار اماموں اور مؤذنوں کو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ انہیں امام یا مؤذن کے بجائے کچھ اور سمجھ لیا گیا ہے۔ ایک امام صاحب کو یہ کہنا پڑا تھا، ’جمعرات کو کھانا کچھ زیادہ گھروں سے آجاتا ہے۔ یہ خیال رکھئے کہ میں اس کھانے کا مستحق نہیں ہوں۔‘ مگر ثواب کمانے کے خواہشمند کتنے لوگوں نے امام اور مسکین کا فرق سمجھ لیا ہوگا، یہ بات ان کی فہم سے بالاتر نہیں رہی ہوگی کہ ثواب کمانا ہے تو جمعرات کو کھانا یا کھیر امام صاحب کو نہیں، کسی مستحق کو کھلانا چاہیے، مسجد انتظامیہ کو اتنی رقم مہیا کرانی چاہیے کہ اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے اسے سوچنا نہ پڑے۔
عام لوگوں کو اس بات سے سروکار رکھنا چاہیے کہ مسجد انتظامیہ منمانی نہ کرے، کیونکہ دیکھنے میں کئی بار یہ آتا ہے کہ بڑی مسجدوں میں دو چار برس امامت کر لینے والے امام کے خلاف مسجد انتظامیہ آسانی سے کارروائی نہیں کر پاتی جبکہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹی مسجدوں کی انتظامیہ اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کے خلاف سرگرم رہتی ہے۔ ان مسجدوں کے اماموں کو پندرہ بیس سال امامت کرنے کے باجود مسجد انتظامیہ کی طرف سے روکا ٹوکا جاتا ہے۔ انہیں نہ زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے، نہ کچھ کاروبار کرنے دیا جاتا ہے۔ وہ جمعہ کے بیان میں سماجی اصلاح کی باتیں کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ امام کا ان باتوں سے کیا مطلب اور اگر خود کو قرآن و حدیث سنانے تک محدود رکھتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’انہیں کیا معلوم کہ ’’قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے؟‘‘‘
خود کو روزگار دینے کا اہل سمجھنے والی مسجد انتظامیہ کے لوگوں کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ وہ بھی امام کے پیچھے ہی نماز پڑھتے ہیں۔ انہیں ان سے اس طرح کا سلوک نہیں کرنا چاہیے جیسے وہ مسجد کے امام نہیں، ان کے ملازم ہیں۔ انہیں یہ احساس نہیں دلایا جانا چاہیے کہ ’آپ ’’دو رکعت کے امام‘‘ ہیں۔‘یہ احساس انہیں دلایا جائے گا تو وہ ’قوم‘ کے مسئلوں کو سمجھنے اور ’قوم کی امامت‘ کرنے کی جرأت نہیں کر پائیں گے۔
ہندوستان میں پہلی مسجد کی تعمیر 629 میں کیرالہ کے شہر ترشور میں ہوئی تھی۔ یہ چیرامن جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔ اس کے بعد سے مسجدوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا اور آج بھی جاری ہے مگر مسجد کی تعمیر کے ساتھ مخیر حضرات کواس پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کو آج کے دور کی مناسبت سے تنخواہ دی جا رہی ہے یا نہیں بلکہ کوشش انہیں یہ کرنی چاہیے کہ مسجد کے اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کو وہ سبھی جائز سہولتیں فراہم ہوں جن کی چاہت وہ اپنے اور اپنے اہل عیال کے لیے رکھتے ہیں۔ اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کو یہ خوشگوار احساس دلائیں کہ ان کے پیچھے کھڑے ہوکر وہ نماز پڑھتے ہیں تو ان کے دکھ سکھ میں بھی ان کے پیچھے ہی کھڑے رہیں گے، البتہ اس احترام اور لگاؤ کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ سیاست کریں، اپنے ماننے والوں کو ایک ووٹ بینک میں بدل دیں، ان کی سوچ بدلنے کا سودا سیاسی پارٹیوں سے کریں۔
وطن عزیز ہندوستان میں 3 لاکھ سے زیادہ مسجدیں ایسی ہیں جہاں نماز پڑھی جاتی ہے، یعنی 629 سے سال رواں تک کے 1,391 سال میں ہر برس 215 سے زیادہ مسجدوں کی تعمیر ہوئی ہے، یعنی ہر دو دن سے کم مدت میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ ان مسجدوں کے لیے اگر ایک امام اور ایک نائب امام، ایک مؤذن اور ایک نائب مؤذن کا ہی اوسط رکھا جائے، اگر مدرسین کی بات نہ کی جائے تب بھی 3 لاکھ سے زیادہ مسجدوں میں 12 لاکھ سے زیادہ امام اور مؤذن مذہبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں خاطر خواہ ماہانہ رقم ہر جمعہ میں ہونے والے چندے سے اس وقت تک نہیں دی جا سکتی جب تک لوگ یہ نہیں سوچیں گے کہ چندے کے ڈبے میں ایک دو روپے کے سکے ڈالنے سے کام نہیں چلے گا۔ پانچ وقت کی نماز کے وقت پنکھے یا کولر کے چلنے یا لائٹوں کے جلنے کا خرچ کتنا آتا ہے، وضو کے لیے پانی کے انتظام پر خرچ کتنا آتا ہے، اس کا اندازہ وہ گھر کی بجلی اور پانی کے بل سے کر سکتے ہیں۔ ایک خطیر رقم بجلی اور پانی کے بل، مسجد کی صاف صفائی، تعمیر نو یا مرمت یا تزئین کاری پر ہی خرچ ہو جائے گی تو پھر مسجد انتظامیہ کس طرح اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کی تنخواہ بڑھا پائے گی، اس لیے انہیں مدد کا ہاتھ دراز کرنا چاہیے۔
’قوم کی امامت‘ کرنے والے ’امام‘ ’دو وقت کی روٹی‘ کے عوض تیار نہیں ہوں گے، ’قوم کی امامت‘ کے لیے انہیں اگر تیار کرنا ہے تو اہل و عیال کے لیے ’دو وقت کی روٹی‘ کی فکر سے انہیں آزاد کرنا ہوگا، لوگوں کو مزید فراخ دلی دکھانی ہوگی، اپنے ہاتھوں کو کھولنا ہوگا، یہ احساس دلانا ہوگا کہ انتظامیہ مسجد کی دیکھ بھال کے لیے ہے، اچھے اماموں، مؤذنوں، مدرسین کے انتخاب کے لیے ہے، امام اپنی پوزیشن کا استعمال اگر سیاسی حصولیابیوں کے لیے کرنا چاہتے ہیں تو اس سے انہیں روکنے کے لیے ہے، یہ احساس انہیں دلانے کے لیے ہرگز نہیں ہے کہ ان کی ’امامت‘ کے جاری رہنے کا انحصار ان کی مرضی پر ہے، ان کا امام بنے رہنا ان کی منشا کا محتاج ہے۔
اماموں، مؤذنوں اور مدرسین کو معقول تنخواہ دینے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ کئی لوگ ہزاروں روپے کے بکرے خرید لیتے ہیں مگر ان کی قربانی کے لیے ضرورت انہیں امام صاحب کی پڑتی ہے۔ بچے کی پیدائش پر وہ پھولے نہیں سماتے مگر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہنے کے لیے ضرورت انہیں امام صاحب کی پڑتی ہے۔ بچے کا عقیقہ دھوم دھام سے کرتے ہیں مگر نام رکھنے کے لیے ضرورت انہیں امام صاحب کی پڑتی ہے۔ بچہ بولنے لگتا ہے تو اسے الف، ب شروع کرانے کے لیے ضرورت انہیں امام صاحب کی پڑتی ہے۔بچہ بڑا ہوتا ہے، اس کی شادی پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر نکاح پڑھانے کے لیے ضرورت انہیں امام صاحب کی پڑتی ہے۔ گھر میں کسی فرد کا انتقال ہو جاتا ہے، اس کی تجہیز و تکفین اور مغفرت کی دعا کے لیے ضرورت انہیں امام صاحب کی پڑتی ہے۔ کیا امام صاحب کے خیال رکھنے کا فرض ان پر نہیں؟
مسجدوں کے امام اگر اہل و عیال کے لیے ’دو وقت کی روٹی‘ کی فکر سے آزاد نہیں ہوںگے، نو عمر بچوں کی جائز خواہشات کے تحفظ کی فکر سے آزاد نہیں ہوں گے تو پھر الجھن بھرے دماغ سے ’قوم‘ کے مسئلوں کو سمجھیں گے کیسے، ’قوم کی امامت‘ کیسے کریں گے؟ تنقید اماموں، مؤذنوں اور مدرسین پر کرنے سے پہلے محاسبہ اپنا کرنے کی ضرورت ہے، اقبالؔ کے شعر کا مفہوم بہتر انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے، ’لفظوں کے ہتھیار‘ کے طور پر اس کا استعمال اماموں کے خلاف کرنا مناسب نہیں، ’دو رکعت کے امام‘ بن جانے کا نصیب سب کا نہیں ہوتا!
[email protected]