برکھادت
(مترجم: محمد صغیرحسین)
ہاتھرس، اترپردیش(یوپی) میں جو لرزہ خیز اور خوفناک واقعہ رونما ہوا، اس پر ہر چہار طرف اس قدر شور و غوغا ہے کہ اس صاف اور بین حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے کہ ایک ہفتہ پہلے انیس سالہ دلت متاثرہ کا خاندان ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال اور ایک پولیس اسٹیشن سے دوسرے پولیس اسٹیشن بے یارومددگار مارا مارا پھررہا تھا۔ بے بس، بے کس، سراپا تحقیر، ہر چوکھٹ سے مایوس و نامراد، نادیدہ و ناشنیدہ۔
میں متاثرہ کے کنبے سے پہلی بار دہلی میں اس وقت ملی جب وہ صفدرجنگ اسپتال میں علاج کے لیے آئے تھے۔ اس کے باپ اور بھائی مجبور اور مایوس نظر آرہے تھے۔ لڑکی نے اپنے ایک سال چھوٹے بھائی سندیپ سے کہا: ’’مجھے گھر لے چلو‘‘۔ یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ صبح ہونے تک وہ موت کے منھ میں جاچکی تھی۔
سندیپ، ایک پیتھالوجی لیب میں کام کرتا ہے۔ کورونا وائرس وبا میں اس نے صف اوّل میں کھڑے ہوکر اپنی خدمات انجام دیں۔ اس نے مجھ سے بہت سی باتیں کہیں۔ کچھ غصے اور کچھ غم و افسردگی میں۔ لیکن اس کے جن الفاظ کی بازگشت مجھے اب بھی سنائی دے رہی ہے، وہ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا تھا کہ پچھلے پندرہ دنوں میں اُن پر کیا بیتی؟ اُس نے نرم اور مایوس لہجے میں جواب دیا تھا: ’’صرف اس کی موت کے بعد ہی کسی نے ہمیں لائق توجہ سمجھا۔ ابھی تک سیاستدانوں اور میڈیا کے لیے ہم نگاہوں سے اوجھل تھے۔‘‘
اس حقیقت کے باوجود کہ یوپی پولیس نے فوراً ہی جوابی دعویٰ پیش کردیا، میں وہی سچائی دہرانا چاہوں گی جو متاثرہ کے نزاعی بیان سے عیاں ہے کہ ہاتھرس ریپ نے ہندوستان کے ہر ادارے کی ناکامی کو آشکار کردیا ہے۔ خواہ وہ پولیس ہو، انتظامیہ ہو یا سیاستداں ہوں۔ ہم سب ناکام ہوئے ہیں۔
جب میں سندیپ سے بات کررہی تھی تو سیاستدانوں کا ایک غول، پانچ سات منٹوں کی سستی شہرت کے لیے کیمرے میں مقید ہوجانے کے لیے بے قرار تھا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اجتماعی زنا بالجبر کی شکار لڑکی کے باپ جو ایک دہاڑی مزدور ہے اور ماں جو گھروں میں کام کرتی ہے، کو اس تمام عرصے میں ذرّہ برابر بھی توجہ کے قابل نہیں سمجھا۔
ہاتھرس، جو اب تک عوامی توجہ کے حاشئے پر تھا اب ایک پرشور، احساسات سے عاری منظر میں بدل جانے کے خطرے کی زد پر ہے۔ یوپی پولیس کا انتہائی غلط اور قابل اعتراض رویہ سب سے زیادہ بے غیرت اور ڈھیٹ تھا۔ پولیس نے خفیہ طور پر نوجوان لڑکی کا اگنی داہ زبردستی کردیا۔ اس لڑکی کے والدین کو شامل نہیں کیا۔ پولیس کی سنگدلانہ غیرپیشہ ورانہ روش کی یہ واضح مثال ہے۔ وکلاء اور سینئر آئی پی ایس افسران کا کہنا ہے کہ کسی سینئر پولیس افسر کا یہ بیان دینا کہ ’’ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا‘‘، اور اس ضمن میں فارنسک رپورٹ کو سرعام پیش کرنا، ریپ کی تفتیش کے تمام اصولوں کے خلاف ہے۔
ایک لمحے کے لیے اس نوجوان لڑکی کے بارے میں سوچئے جواسپتال میں بستر پر پٹیوں سے جکڑی ہوئی ہے، جس کا گلا خود اس کے ہی ڈوپٹے سے گھونٹا گیا، جس کے اعضاء مفلوج ہوگئے، جس کی زبان کاٹ دی گئی اور جو بڑی ہمت اور شجاعت سے موت سے لڑرہی ہے۔ اس نے اپنے نزاعی بیان میں گینگ ریپ کا الزام عائد کیا ہے۔ اس نے چار آدمیوں کے نام بتائے جن کے بارے میں اس نے کہا کہ انہیں لوگوں نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ اس کے بھائی نے بتایا کہ انہو ںنے اسے ’’خون کے گڑھے میں ایسی حالت میں پایا کہ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا۔‘‘
اگر،بے شک، اس واقعہ میں کہیں کچھ خلاء ہے تو ایک مکمل تفتیش، خاموشی اور وقار کے ساتھ کی جاسکتی تھی جو حقائق کو ثابت کرسکتی تھی۔ اب، اس کیس کے بارے میں ریاستی پولیس کچھ بھی کہے، اسے تسلیم کرنا کسی کے لیے بھی انتہائی دشوار ہوگا۔ دریں اثناء ریپ ایک قابل پیش گوئی سیاسی مہرا بن چکا ہے۔
ریاستوں کی ایک دوسرے پر انگشت نمائی کی ہوڑ میں کسی کو عورتوں، دلتوں یہاں تک کہ عدل و انصاف کے بارے میں ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔ سرکار کے اپنے اعداد و شمار خود اس ظن و تخمین کی بے وقعتی اور اوچھے پن کو نمایاں کرتے ہیں۔ این سی آر بی (National Crime Records Bureau) نے چند روز قبل جو اعدادوشمار بتائے ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہر روز زنابالجبر کے 87معاملات درج ہوتے ہیں اور یہ کہ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں 7.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ یہ اُن عورتوں کی تعداد ہے جنہوں نے واقعی لب کشائی کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جنسی تشدد ذات پات اور طبقات سے ماوراء ہے۔ ان حضرات کے لیے یہ بتادینا کافی ہے کہ ہر روز 10دلت عورتیں زنابالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ تعداد مندرج کیسوں کی 11فیصد ہے۔
عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں یوپی سرفہرست ہے۔ اسی طرح زنابالجبر کے واقعات میں راجستھان سرفہرست ہے۔ یوپی میں ہونے والے زنابالجبر کے معاملات میں 18فیصد دلت عورتیں متاثر ہوتی ہیں جبکہ راجستھان میں نو فیصد دلت عورتیں متاثر ہوتی ہیں۔ دلت عورتوں سے زنابالجبر کے معاملات میں ایک تہائی یوپی اور راجستھان میں ہوتے ہیں۔ عورتوں کے ہندوستان کو ایک محفوظ مقام کی سمت میں کوئی قدم نہ اٹھانے، کچھ نہ کرنے کا ایک آسان اور پرشور عذر یہ ہے کہ سیاسی جارحیت کا مظاہرہ کیجیے اور کسی کو نے بخشئے۔
جنسی تشدد کے ضمن میں اداروں کا رول تشویشناک رہا ہے۔ اس مسئلہ میں یوپی پولیس نے بے شرمی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ہر قدم پر انہوں نے متاثرہ کنبے کو اہم فیصلے لینے کے لیے مشیروں سے محروم کردیا ہے۔
میں ایسے سیاستدانوں کی کوئی بڑی مداح نہیں ہوں جو المیے کو مواقع میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتے ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ متاثرہ کا کنبہ جس کسی بھی سیاستداں سے ملنا چاہے، یہ اُن کا اپنا نجی فیصلہ ہے۔ حزب مخالف کے سیاستداں مثلاً راہل اور پرینکا گاندھی کو ہاتھرس جانے سے روکنا، اُن پر بندش عائد کرنا اور ایکسپریس وے پر اُن سے دھکا مکی کرنا صریح طور پر غلط ہے۔ اگر متاثرہ کا کنبہ گاندھیوں سے بالفرض محال ملاقات نہیں کرنا چاہتا تو پولیس کو نہیں، انہیں گاندھیوں کو اُلٹے پاؤں واپس بھیجنا چاہیے۔
ابھی تک تو ہم عدل و انصاف کے تصور کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ جلد ہی یہ شہ سرخیاں دھندھلا جائیں گی اور ہم سب اسے چھوڑ کر آگے بڑھتے جائیں گے۔ تب تک کوئی اور ہولناک واقعہ رونما ہوگا۔ جو ضرور رونما ہوگا۔
(بشکریہ: دی ہندوستان ٹائمز)
(مضمون نگار ایک شہرئہ آفاق، انعام یافتہ ادیبہ اور صحافیہ ہیں۔ یہ مضمون ان کے ذاتی خیالات کا آئینہ دار ہے)