نیا ہو نیا سال

0

 وقت کی فطرت میں نرمی اور سختی دونوں ہے۔ کبھی نرمی بڑھ جاتی ہے، کبھی سختی۔ دونوں ہی کی زیادتی زندگی کا مزہ بگاڑ دیتی ہے، ان میں توازن کی بڑی اہمیت ہے۔ 2020 نے وقت کی سختی کا کچھ زیادہ ہی احساس دلایا مگر سارا الزام وقت کو دینا ٹھیک نہیں۔ چین کے شہر ووہان میں نئی وبا کورونا کی نئی قسم کووِڈ-19 کے انکشاف پر عالمی برادری نے بروقت سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ تائیوان نے شروع میں ہی یہ بات کہی تھی کہ یہ وائرس آدمی سے آدمی میں پھیلتا ہے مگر ڈبلیو ایچ او نے اس کی بات نہیں مانی، چنانچہ وائرس کو پوری دنیا میں پھیلنے کا موقع مل گیا اور ڈبلیو ایچ او شبہات کے دائرے میں آگیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس کی فنڈنگ بند کر دی لیکن ڈبلیو ایچ او کی موجودگی اگر زیادہ کارآمد نہیں ہے تو اس کا ختم ہو جانا دنیا کے ان ملکوں کے لیے نہایت برا ہے جو لوگوں کے لیے دو وقت کے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے، پھر ہیلتھ کیئر کا اپنا سسٹم کیسے بنا سکتے ہیں جبکہ کورونا نے یہ احساس دلایا کہ ہیلتھ کیئر سسٹم کے معاملے میں ٹاپ 10 ممالک کے پاس بھی عالمی وبا سے نمٹنے کا پختہ انتظام نہیں۔ کورونا نے یہ بھی احساس دلایا کہ وقت کیسا بھی ہو، توسیع پسند لیڈروں کی فکر بس یہی رہتی ہے کہ اس سے فائدہ کیسے اٹھائیں۔ اس سلسلے میں گلوان تنازع ایک مثال ہے۔ چین کو ہندوستان کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی اور ساتھ میں دنیا بھر کے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے تھی لیکن ایسے وقت میں اس کے فوجیوں نے دراندازی کی اور ایک نئے تنازع کو جنم دیا۔
2020 میں امریکہ نے طالبان سے سمجھوتہ کر لیا۔ اس کی کوشش کئی مہینوں سے ہو رہی تھی مگر کیا یہ واقعی امریکہ کی کامیابی ہے اور اگر کامیابی ہے تو افغان جنگ میں جان گنوانے والے 43000 شہریوں سمیت 157000 لوگوں کی باتیں نہ بھی کی جائیں تو 2400 سے زیادہ امریکی فوجیوں اور 1100 سے زیادہ ناٹو فوجیوں کے اس جنگ میں جان گنوانے کا کیا فائدہ ہوا؟ جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کوختم کرے گا اور اسی لیے افغان جنگ شروع کی گئی تھی مگر دنیا سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، القاعدہ کے ساتھی طالبان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں تو پھر اس جنگ کے ختم کرنے کا کیا مطلب ہے؟ افغان جنگ کی وجہ سے امریکہ ہر طرح سے گھاٹے میں رہا ہے۔ اس جنگ میں اس کے الجھے رہنے کی وجہ سے روس، چین اور دیگر ممالک کافی طاقتور ہو گئے، آج امریکہ پر جاپان کا 1.278 ٹریلین ڈالر اور چین کا 1.068 ٹریلین ڈالر قرض ہے۔ جارجیا اور یوکرین میں روس کو طاقت دکھانے کا موقع امریکہ کے افغان جنگ میں الجھے رہنے کی وجہ سے ہی ملا۔ شام میں امن بحال نہ کرپانے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ پر اس کی گرفت کسی حد تک کمزور ہوئی اور روس کو طاقت کے اظہار کا موقع ملا ہے مگر امریکہ گھریلو محاذ پر بھی جس طرح مسئلوں میں گھرا ہوا ہے، اس سے لگتا ہے کہ امریکہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔ 2 کروڑ سے زیادہ کورونا متاثرین نے اس کے ہیلتھ کیئر سسٹم پر سوالیہ نشان لگا یا ہے تو جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد نسل پرستی کے خلاف لوگوں کے احتجاج نے یہ احساس دلایا ہے کہ امریکہ میں ابھی بھی بہت سے لوگ نسل پرستی کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ 1863 میں ابراہم لنکن نے امریکہ سے غلامی ختم کی تھی، 100 برس بعد 28 اگست 1963 کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے نسل پرستی کے خلاف مہم چھیڑتے ہوئے کہا تھا، ’I have a draem (میرا ایک خواب ہے)‘۔ 4 سال بعد ہی انہیں مار ڈالا گیا مگر زندگی کے ختم ہونے سے کوئی مہم ختم نہیں ہوتی۔ اوباما نے ’تبدیلی‘ کی مہم چھیڑی تو سمجھا گیا کہ یہ مہم مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مہم سے الگ نہیں، اوباما نے 20 جنوری 2009 کو امریکہ کے صدر کا حلف لیا تو سمجھا گیا کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب پورا ہو گیا مگر 25 مئی 2020 کو جارج فلوئیڈ کے قتل نے یہ ثابت کر دیا کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا۔ قانون بنا دینے سے امریکہ کو نسل پرستی سے آزادی نہیں ملے گی، اس کے لیے سماجی سطح پر بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ یوروپ اور دیگر ملکوں میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو بھی اپنی سطح پر بیداری پیدا کرنی چاہیے، اپنے آبا و اجداد کے کاموں کو سامنے لانا چاہیے، مشکل حالات میں اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے یہی سوچ کافی ہے کہ ہم رحمت للعالمین کی امت ہیں، ہمیں لوگوں کے لیے کارآمد بننا چاہیے اور یہ حصول علم اور اچھے اخلاق سے ہی ممکن ہے۔
یہ بات ذہن نشیں رکھنی ضروری ہے کہ حالات بنتے بنتے ہی بنتے ہیں، البتہ بگڑنے میں وقت نہیں لگتا۔ یوروپی ملکوں کے اتحاد کی کوشش برسوں سے جاری تھی مگر حالات برعکس تھے۔ ان ملکوں میں اسی طرح کے رشتے تھے جیسے عرب ملکوں،ترکی اور ایران کے ایک دوسرے سے رشتے ہیں مگر 21 سال کے اندر دو عالمی جنگوں نے یوروپی ملکوں کو امن کی اہمیت کا احساس دلا دیا، ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی جانوں کے اتلاف نے انہیں زندگی کی اہمیت سے واقف کرا دیا۔ امریکہ نے ’مارشل پلان ‘ کے سہارے مدد کی اور ’ناٹو‘ کی تشکیل کر دی ، اس کے جواب میں سوویت یونین نے ’وارسا پیکٹ‘ بنائی۔ ’ناٹو‘ اور ’وارسا پیکٹ ‘ کی تشکیل سے یوروپی ملکوں کو یہ اندازہ ہوا کہ وہ بٹ گئے ہیں لیکن وہ اور کئی خانوں میں بٹیں، اس سے پہلے ہی انہوں نے یوروپی یونین کی تشکیل کر دی۔ سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد ’وارسا پیکٹ‘ ختم ہو گیا، یوروپی ملکوں کا اتحاد بظاہر زیادہ مضبوط ہونے لگا لیکن یکم جنوری 1999 کو یورو متعارف کرائے جانے کے باوجود برطانیہ نے پاؤنڈ ختم نہیں کیا اور یوروپی یونین میں ترکی کی آمد کی مخالفت کی جو وجوہات رہیں، ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ حالات بدلتے ہی یوروپی ملکوں کے اتحاد کی حقیقت بھی سامنے آجائے گی۔ 31 دسمبر 2020 کو برطانیہ باضاطہ طور پر یوروپی یونین سے الگ ہو گیا۔ اب یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے کہ کیا برطانیہ کی علیحدگی یوروپی یونین کے بکھراؤ کی شروعات ہے؟ آنے والے چند برسوں میں اس سوال کی اہمیت نہیں رہ جائے گی، کیونکہ اس وقت کئی یوروپی ممالک ایسے ہیں کہ بے روزگاری ان کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہیچنانچہ کورونا کے بعد کے یوروپی ملکوں کے حالات ناقابل فہم نہیں ہونے چاہئیں۔
گزشتہ برس آخر آزاد تجارت کے دنیا کے سب سے بڑے معاہدے نے ایک ہیئت لے لی۔  15 نومبر 2020 کو ہونے والے اس فری ٹریڈ ایگریمنٹ ’ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ‘ یعنی آر سی ای پی سے آسٹریلیا، برونئی، کمبوڈیا، چین، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، لاؤس، ملیشیا، میانمار، نیوزی لینڈ، فلپائن ، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام وابستہ ہیں۔ ان میں دنیا کی 30 فیصد یعنی 2.2 ارب آبادی رہتی ہے اور عالمی اقتصادیات میں ان کا حصہ 30 فیصد ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں جاپان اور جنوبی کوریا وہ ممالک ہیں جن کے شرقی بحیرۂ چین کے علاقوں پر چین دعوے کرتا ہے تو برونئی، انڈونیشیا،ملیشیا ، فلپائن اور ویتنام وہ ممالک ہیں جن کے جنوبی بحیرۂ چین کے علاقوں پر چین کی دعویداری ہے۔ چین کی پالیسیوں سے تنگ آسٹریلیا ’کواڈ‘ کا حصہ ہے۔ ایسی صورت میں آر سی ای پی کی کامیابی پر سوال اٹھنا فطری ہے مگر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ متذکرہ ملکوں نے آر سی ای پی میں شامل ہوکر چین سے اپنے تعلقات کے لیے گنجائش برقرار رکھی ہے اور انہیں آنکھ بند کر کے چین کے خلاف مان لینا مناسب نہیں ہوگا۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ آر سی ای پی میں امریکہ اور ہندوستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر یہ دونوں ممالک شامل نہیں ہوئے۔
خیر، کورونا کی نئی قسم کے انکشاف اور ویکسین پر اٹھتے سوالوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ 2021 میں لوگوں کو کو رونا سے نجات مل جائے گی، عالمی اقتصادیات پٹری پر آجائے گی۔ وطن عزیز ہندوستان عرب لیگ کے ملکوں کے بعد سب سے زیادہ ایکسپورٹ یوروپ کے ملکوں اور پھر امریکہ کو کرتا ہے۔ یوروپی ممالک اور امریکہ کورونا سے بے حال ہیں تو اس کا راست اثر ان کی اقتصادیات پر پڑے گا اور بالواسطہ اثرات سے اپنا ملک بھی بچ نہیں پائے گا مگر وزیراعظم نریندر مودی نے یہ سمجھنے میں تاخیر نہیں کی کہ لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے اور ملک کی اقتصادیات کو پٹری پر رکھنے کے لیے ’لوکل فار ووکل‘ پر توجہ دینی ہوگی، اس سے ’آتم نربھر بھارت‘ مہم میں مدد ملے گی۔ نیا سال واقعی نیا ہو اور پرانی تلخ یادیں گزرے ہوئے وقت کا حصہ بن جائیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے سال کا استقبال نئی سوچ، مثبت سوچ کے ساتھ کیا جائے، اس یقین کے ساتھ کیا جائے کہ اللہ مصیبتیں دے کر اپنے بندوں کو آزماتا ہے مگر ان پر ظلم نہیں کرتا۔ ظلم تو انسان کرتے ہیں، ضرورتمند لوگوں تک غذا کی فراہمی کو دنیا کا بڑا ایشو نہ سمجھ کر، بدامنی کو بڑھاوا دے کر، پرتشدد واقعات انجام دے کر، ہتھیار بیچنے کے لیے جنگ کا جواز پیدا کر کے مگر انسانوں، بالخصوص انسانیت کی باتیں کرنے والے طاقتورلیڈروں کو انسان بننا پڑے گا، عملی طور پر تبھی صحیح معنوں میں نئے وقت کا احساس ہوگا، بدلے ہوئے وقت کا احساس ہوگا، اچھے وقت کا احساس ہوگا!
(کالم نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا وعالمی سہارا نیوز چینل کے گروپ ایڈیٹر  ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS