خاورحسن
خبر یہ آئی ہے کہ ’اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے یمن سمیت 4 شورش زدہ ممالک میں قحط کے خطرے کا انتباہ دیا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو، یمن، نائیجیریا کی شمال مشرقی ریاستوں اور جنوبی سوڈان میں برسوں سے جاری مسلح تنازعات کے نتیجے میں لوگوں کو خوراک کے عدم تحفظ اور ممکنہ طور پر قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔‘ کیا گوتیرس کے انتباہ پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے گی؟ ایسا لگتا نہیں کہ سنجیدگی سے توجہ دی جائے گی۔ یمن کے حالات ایک دن میں خراب نہیں ہوئے۔ وہ برسوں سے علیحدگی پسندی سے متاثر تھا۔ 9/11 کے بعد دہشت گردی سے بھی یمن کے متاثر ہونے کی بات کہی گئی۔ دسمبر 2010 میں تیونس سے شروع ہوئی عوامی احتجاج کی لہر یمن پہنچی تو حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے۔ اس کے بعد یمن دو علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بن گیا۔ عالمی امن کی باتیں کرنے اور انسانیت کے تحفظ کے لیے جنگ تک کر ڈالنے والے لیڈروں نے یمن میں امن قائم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ وہ اگر یمن میں امن قائم کرنے پر پرخلوص توجہ دیتے تو کیا اس کی صورت حال میں تبدیلی نہیں آتی؟ بالکل آتی۔ حالات اتنے خراب نہیں ہوتے۔ دیگر 3 ملکوں کی طرح یمن میں قحط کے خطرے کا انتباہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس کو نہیں دینا پڑتا۔
بہت سے مسئلوں نے ملک کر یمن کے حالات پہلے ہی خراب کر دیے تھے۔ امداد پہنچانے والوں کو وہاں کام کرتے ہوئے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن کورونا کے پھیلاؤ نے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا، یہ اضافہ عام لوگوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ یمن کی حکومت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ضرورتمند لوگوں کے لیے تنہا کچھ کر سکے۔ آمدنی کے مقابلے اس کا خرچ تقریباً دگنا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت ہے جب بے روزگاری اور مفلسی پہلے ہی بڑے مسئلوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ یمن کے بارے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریسکا کہنا ہے کہ ’دو سال قبل عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک کو تنازع اور اقتصادی زبوں حالی کا سامنا تھا اور اس نے اس کوقحط کے کنارے لا کھڑا کیا تھا، آج پھراس طرح یمن کو خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔‘
یمن میں حالات کتنے خراب ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ ایک سروے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس کی اس بات سے ہوتا ہے کہ ’یمنی حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں تقریباً 32 لاکھ افراد خوراک کے عدم تحفظ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان علاقوں میں خوراک کی قیمتوں میں 2015 میں بحران کے آغاز کے بعد سے اوسطاً 140 گنا اضافہ ہو چکا ہے مگر 2020 میں انسانی امداد کے ضمن میں صرف 24 فیصد رقوم مہیا کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اب امدادی ایجنسیاں اپنے بنیادی پروگراموں کے حجم میں کمی کر رہی ہیں یا انہیں بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔‘ناقابل فہم یہ نہیںکہ ’بنیادی پروگراموں کے حجم میں کمی‘ یا انہیں ’بند کرنے کی مجبوری‘ یمن کے 32 لاکھ لوگوں کو لقمہ اجل بنا ڈالے گی۔ اس وقت عالمی لیڈروں کے پاس یہ بہانہ ہے کہ ان کے گھریلو حالات خراب ہیں، کسی اور ملک پر زیادہ توجہ وہ کس طرح دے سکتے ہیں مگر اکثر طاقتور ملکوں کے لیڈروں کی کسی ملک سے ایک حد سے زیادہ دلچسپی تب ہی ہوتی ہے جب اس سے وابستگی میں انہیں مفاد کا حصول نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یمن کے سبھی ضروتمند لوگوں کو امداد بہم پہنچنے کا امکان کم ہے۔
انتونیو گوتیریس نے یمن کی طرح ہی ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو، نائیجیریا کی شمال مشرقی ریاستوں اور جنوبی سوڈان میں ’قحط اور بڑے پیمانے پر خوراک کے عدم تحفظ کے خطرے‘ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر سیاسی طور پر وہاں استحکام نہیں، یہ ملک مکمل امن کے لیے ترستا رہا ہے۔ ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو میں اگر مستقل امن قائم ہو جاتا، اگر وہ اپنے قدرتی وسائل کا استعمال کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو پھر وہ دوسرے ملکوں کے ضرورتمند لوگوں کی مدد کرنے کی پوزیشن میں آجاتا، اسے اپنے لوگوں کے لیے امداد کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو میں 2 کروڑ، 10 لاکھ لوگوں کو غدائی امدا د کی فوری ضرورت ہے مگر امداد پہنچانے کے لیے ضروری رقم میں سے 22 فیصد رقم ہی یکجا کرنے میں کامیابی مل پائی ہے۔ ایسی صورت میں اس اندیشے کا اظہار فطری ہے کہ وہاں حالات مزید خراب ہو جائیں گے، غدا کی کمی کی وجہ سے بہتوں کو جانیں گنوانی پڑیں گی اور یہ صورت حال اس دنیا کے انسان دوست لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہونی چاہیے، کیونکہ آدمی کہیں بھی غدا کی کمی کی وجہ سے مرے، یہ ان لوگوں کے لیے شرم کی بات ہے جو ان کی مدد کر سکتے تھے لیکن مدد نہیںکی۔
نائیجیریا میں 40 فیصد لوگ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں لیکن اس کی شمال مشرقی ریاستوں میں حالات زیادہ خراب ہیں۔ کچھ اسی طرح کے حالات جنوبی سوڈان میں بھی ہیں۔ سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی یہاں کے لوگوں کے لیے مثبت تبدیلیوں کی شروعات جیسی تھی مگر ان کے حالات نہیں بدل سکے۔ جنوبی سوڈان میں 3 لاکھ، 50 ہزار بچوں کو متوازن غدا نہیں مل پا رہی ہے جبکہ مجموعی طور پر 14 لاکھ لوگ غذائی امداد کے منتظر ہیں۔ یہ امداد اگر انہیں مل گئی تو ان کی زندگی بچ جائے گی اور اگر نہیں ملی تو ان میں سے بہتوں کی جانوں کے اتلاف کی وجہ کورونا وائرس نہیں، بھوک بنے گی جبکہ بھوک کی دوا روٹی کی ایجاد کی ضرورت نہیں۔
یمن، ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو، نائیجیریا اور جنوبی سوڈان میں حالات زیادہ خراب ہیں۔ وہاں امداد کی زیادہ ضرورت ہے لیکن مدد کی ضرورت صرف انہیں ملکوں کو نہیں ہے، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریسکا کہنا ہے کہ ’مسلح تنازعات کے شکار دوسرے ممالک صومالیہ ، برکینا فاسو اور افغانستان میں بھی خوراک کے تحفظ سے متعلق بنیادی اشاریے حوصلہ افزا نہیں ہیںاور وہ روبہ انحطاط ہیں۔‘دنیا میں اشیائے خوردنی کی کمی نہیں، مدد کرنے کے جذبے کی کمی ہے اور اسی لیے دنیا میں بہت سے لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے، اسی دنیا میں بہت سا اناج اور کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں رکھنے کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے اناج برباد ہو جاتا ہے تو ترقی یافتہ ملکوں میں کھانے کی بربادی کوئی نئی بات نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ترقی یافتہ ملکوں میں ہر آدمی پر سالانہ کھانے کی بربادی کا اوسط تقریباً 100 کلو گرام ہے۔ اسلام میں اناج اور کھانے کی بربادی کی ممانعت ہے، چنانچہ اکثر مسلم گھروں میں بڑے بزرگ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ خود ایک دانہ برباد نہ کریں ، ان کے بچے بھی ایک دانہ برباد نہ کریں۔
خیر، کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے کم و بیش دنیا کے سبھی ملکوں کے لوگوں اور لیڈروں کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ حالات کی خرابی کہتے کسے ہیں، ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ انہیں یمن، ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو، نائیجیریا کی شمال مشرقی ریاستوں اور جنوبی سوڈان کے حالات کو سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ وہ ان ملکوں کی مدد کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یہ سوچ کر مدد کی کوشش کریں گے کہ انسانوں کا پیٹ باتوں سے نہیں بھرتا، جینے کے لیے روٹی چاہیے۔ روٹی اگر بھوکوں کے حق میں اچھی باتیں کہنے یا لکھنے سے مل جاتی تو دنیا میں اچھا بولنے اور لکھنے والوں کی کمی نہیںہے۔ کئی لوگ ان کے لیے بہت لکھتے اور بہت بولتے ہیںلیکن سچ یہ ہے کہ کسی کی ایک روٹی کی بھوک، بھوک پر ایک ہزار مضمون لکھ کر مٹائی نہیں جا سکتی، اس لیے یمن، ڈیموکریٹک رپبلک آف دی کانگو، نائیجیریا کی شمال مشرقی ریاستوں اور جنوبی سوڈان کے ضرورتمند لوگوں کی مدد کرنے کے سلسلے میں دنیا کے انسان دوست لیڈر اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں مدد کا ہاتھ اس سے پہلے بڑھانا چاہیے کہ لوگ بھوک سے مرنے لگیں۔
[email protected]