عارف محمد خاں
(مترجم: محمد صغیرحسین)
مجوزہ مدرسہ بورڈ معرض خطر ہے۔ علماء کی مخالفت کو محسوس کرتے ہوئے وزیر برائے ترقیات وسائل انسانی نے 3؍اکتوبر 2009کو اعلان کیا کہ حکومت دینی تعلیم میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی اور یہ یقین دلایا کہ اگر مسلم فرقہ اِس بورڈ کو نہیں چاہتا تو حکومت مجوزہ بل کو مسترد کردے گی۔ تاہم یہ سرکاری یقین دہانی، اردو پریس میں شائع ہونے والی تنقیدوں کی لہر کو روکنے میں ناکام رہی حکومت کے اس اقدام کو اسلامی تعلیم کو سبوتاژ کرکے مسلمانوں کو اُن کے دینی تشخص سے محروم کرنے کی ایک جامع سازش کا حصہ قرار دیا گیا۔ مخالفت میں، حسب توقع، ہندوستان کے دو اہم مدارس، دیوبند اور ندوہ، پیش پیش رہے۔ واضح ہو مذکورہ بالا مدارس کو متعدد ممتاز مسلمانوں کا تعاون حاصل ہے۔
مجوزہ بل کے مشمولات کے مطابق، اس کا مقصد مدرسہ تعلیم کے غیر دینی پہلوئوں کو معیار کے مطابق بنانا اور دینی نصاب میں کسی قسم کی مداخلت کے بغیر غیر دینی مضامین کی تعلیم و تدریس کو فروغ دینا ہے۔ اس بل کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ بورڈ سے مدرسوں کے اندراج یا الحاق کو لازم قرار نہیں دیتا بلکہ یہ الحاق کے بعد بھی مدرسے کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر وہ بورڈ کے دائرے سے باہر نکلنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔
اس اسکیم کے تحت، دیوبند اور ندوے جیسے مدرسے اپنے موجودہ نظم ونسق کے ساتھ اپنی درس گاہیں چلاسکتے ہیں، لیکن برائے نام بجٹ پر چلنے والے مدرسے مدرسہ بورڈ کے قیام سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ دینی تعلیم کے نصاب کو اپنے صوابدید کے مطابق طے کرنے کی آزادی کے ساتھ مدارس اپنے طلبا کو دینی اور غیر دینی دونوں ہی قسم کی تعلیم سے آراستہ کرسکتے ہیں۔ مدرسوں سے اسکولی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبا اپنی ترجیحات اور اہلیت و استعداد کے مطابق اعلیٰ تعلیم میں شعبۂ تعلیم کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
دیوبند کے چند ممتاز علماء نے امور مدرسہ میں رہنما ہدایات کے طور پر بانی ٔ مدرسہ دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کے تحریر کردہ ’’اصول ہشتگانہ‘‘ کا حوالہ دیا۔ ان میں سے ایک اصول میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’کسی مدرسہ کے لئے یہ بڑی خوبی اور سعادت ہے کہ وہ مکمل طور پر سرکاری امداد یا تعاون کی احتیاج سے آزاد ہو۔‘
دوسری جانب اگر ہم جمعیۃ علماء کے سالانہ اجلاس کی روداد کا بنظر غائر جائزہ لیں تو یہ اندازہ ہوگا کہ آخر علماء سرکاری امداد لینے سے کیوں گریزاں تھے۔ جمعیۃ علماء اسلامی دانشوروں کی وہ تنظیم ہے جو بیشتر علماء دیوبند پر مشتمل ہے۔ 1955میں سرزمین کلکتہ پر ہونے والے اجلاس میں جمعیۃ نے کہا:
’’برطانوی دور حکومت میں، علماء اپنے اداروں کو چلانے کے لئے کسی قسم کی سرکاری امداد لینے کے مخالف تھے۔ لیکن اب ہندوستان میں خود اس کی قومی حکومت ہے۔ چنانچہ علماء کو حکومت سے تعاون کرنا چاہیے اور اس کے پروگراموں میں حصہ لینا چاہیے۔ اس اصول کو تسلیم کرنے کی صورت میں مدارس کو اپنے نصاب کی اصلاح اور جدید مضامین کو شامل کرنا ضروری ہوگا۔ یہ قدم فارغین مدرسہ کو ایسی استعداد سے مزین کردے گا جو قومی امور میں شریک وسہیم ہونے کے لئے لازمی ہے۔‘‘
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے اپنے صدارتی خطاب میں تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک کی توسیع کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے متنبہ کیا:
’’دینی تعلیم کو عصری تعلیم سے جدا رکھنا صحیح نہیں ہے۔ ملی مفادات کا تقاضہ ہے کہ ہم دینی تعلیم میں پرائمری اسکولوں کا نصاب شامل کریں تاکہ ایسے فارغین پیدا ہوں جو دور جدید کے امور میں شرکت کرنے کے پوری طرح اہل ہوں۔ ہماری کوششیں حکومت کے تعلیمی پروگراموں میں ممد و معاون ہوں گی اور حکومت پر یہ فریضہ عائد ہوگا کہ وہ ہمارے اداروں کو مساوی حیثیت اور یکساں سہولتیں دے کر اپنا دستِ تعاون دراز کرے۔‘‘
یہ نصیحت وفہمائش کرتے ہوئے مولانا نے اپنی تقریر ختم کی کہ ’تعلیم اس قدر وسیع ہونی چاہیے کہ وہ اس امر کی ضامن ہوجائے کہ ایک مسلمان صرف مسجد کی آرائش وزیبائش نہیں ہوتا بلکہ وہ یکساں طور پر سیکولر میدان عمل میں بھی ایک پرخلوص نیک نفس اور صاحب کردار ہوتا ہے۔‘
مدرسہ بورڈ کچھ اہم نہیں لیکن کیا مدارس کے اربابِ حل و عقد ان کے صلاح و مشوروں پر کان دھریں گے اور ایک ایسا جامع نظام وضع کریں گے جو تمام علم وآگہی کو یکساں نگاہِ قدر و منزلت سے دیکھتا ہو اور اسلامی اور غیر اسلامی زمروں میں دانش وبینش کی تقسیم نہ کرتا ہو؟۔
(صاحب مضمون ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)