خوش فہمی میں مبتلا چین

0

خاورحسن

طاقت میں اضافے کے ساتھ انا میں اضافہ ہونے لگتا ہے، خوش فہمی بڑھنے لگتی ہے، اپنی طاقت کے سامنے دوسروں کی طاقت ہیچ نظر آتی ہے مگر اس ملک کی طاقت پائیدار نہیں ہوتی جو پڑوسیوں کو اپنا نہ بنا پائے۔ وہ ملک کبھی مستحکم نہیں بن پاتا جس کی بڑھتی ہوئی طاقت پڑوسیوں کے لیے باعث خطر بن جائے۔ وہ ملک بہت سے دشمن بنا لیتا ہے جو دنیا بھر کے ملکوں کو ’قرض جال‘ میں پھنسا لینا چاہتا ہے۔ چین ایسا ہی ایک ملک ہے۔ اس کی توسیع پسندی ہمارے ملک ہندوستان کے لیے ہی باعث تشویش نہیں ہے، دیگر ملکوں کے لیے بھی فکر کی وجہ ہے۔ مسئلہ اگر گفتگو کی میز پر نہ سلجھا، بات اگر آگے بڑھ گئی تو پھر ان ملکوں کے لیے فیصلہ کن گھڑی آجائے گی جن کے بحیرۂ جنوبی چین اور بحیرۂ شرقی چین کے علاقوں پر چین دعوے کرتا ہے، ان علاقوں کو ہڑپ لینا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں ان ملکوں کا ساتھ وطن عزیز ہندوستان کو ہی ملے گا اور اس کا پلڑا چین پر بھاری رہے گا۔
شی جن پنگ کی توسیع پسندی کے لفظی اور عملی اظہار کی وجہ طاقت کی خوش فہمی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ ہر ملک کو رعب میں لے لیں گے۔ وہ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ بھبکی سے ہر ملک کے لوگ نہیں ڈرتے۔ چینی فوجیوں کو پیچھے ہٹنا ہی پڑے گا، ہندوستان اس کے مقابلے کمزور نہیں ہے۔ ہندوستانی فوجیوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وطن کے لیے ان کی رگوں میں جوش مارتا ہوا لہو دوڑتا ہے۔ چینی فوجی آگے بڑھنے کی جرأت نہ کریں، ورنہ طاقت کا گھمنڈ توڑا کیسے جاتا ہے، یہ انہیں بتا دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور بری فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نرونے کا موقف واضح ہے۔17 ستمبر 2020 کو راجیہ سبھا میں بیان دیتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’چین کو سیاسی، سفارتی اور فوجی سطح پر ہندوستان کے موقف سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ ہندوستان سبھی مسائل کو پرامن مذاکرے سے حل کرنے کا حامی ہے لیکن ایل اے سی پر شریک حیثیت کو بدلنے کی کسی بھی یکطرفہ کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘ ہندوستان کے وزیر دفاع نے یہ یقین دلایا ہے کہ ’ملک کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کے ساتھ کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔‘ ان کی یقین دہانی ہندوستانیوں کے لیے حوصلہ افزا ہے تو چینیوں کے حوصلے پست کر دینے والی ہے۔ آگے بڑھنا چینیوں کے لیے مشکل ہے اور پیچھے ہٹنے پر سپر پاور بننے سے پہلے ہی چین کی طاقت کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یہ کشمکش شی جن پنگ کا امتحان لے رہی ہے اور ہر ہندوستانی کو امید یہی ہے کہ اس امتحان میںناکامی شی کا مقدر بنے گی، چین کو اپنی سرحدوں تک سمٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
عالمی برادری جانتی ہے کہ ہندوستان ایک امن پسند ملک ہے، بقائے باہم میں اعتماد رکھنے والا ملک ہے۔ ہندوستان کی طرح اگر چین کو توسیع کے مواقع ملتے تو وہ کئی فوجی اڈے بنا چکا ہوتا۔ ہندوستان نے سری لنکا میں امن بحال کرنے کے لیے فوجی بھیجے مگر اس کی ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں کیا۔ ہندوستان نے پاک فوجیوں کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے بنگلہ دیش کے لوگوں کی مدد کی مگر اس پر قابض نہیں ہوا۔ نیپالیوں اور ہندوستانیوں کے مابین صدیوں سے ’روٹی، بیٹی‘ کا رشتہ ہے۔ ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کے لیے انہیں ویزا، پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی مگرزیر اثر رکھنے کے لیے نیپال میں فوجی اڈا بنانے سے ہندوستان کی کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ بھوٹان کا سب سے بڑا ایکسپورٹ اور امپورٹ پارٹنر ہندوستان ہے مگر اس نے اس کا ناجائز فائدہ کبھی نہیں اٹھایا۔ بنگلہ دیش سے سرحدی تنازع ختم کرنے کے لیے ہندوستان نے جو فراخ دلی دکھائی، وہ ایک مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی حصولیابیوں کے لیے ان ملکوں کے لیڈروں کے سُر اگر بدل بھی جاتے ہیں تو ان کے عوام کے سُر نہیں بدلتے۔
ہندوستان کا موقف واضح ہے کہ نہ کوئی ملک ہمارے علاقے پر قبضہ کرے اور نہ میں اس کے علاقے پر قبضہ کروں۔ ہندوستان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کر سکتا ہے۔ چینیوں کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہندوستانیوں کو مرعوب کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ تنازع کو وہ جتنا طول دیں گے، چین کی ساکھ اتنی ہی خراب ہوگی، چین کا نقصان اتنا ہی زیادہ ہوگا، اس لیے وہ ہند مخالف پروپیگنڈہ حقیقت کی طرح کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا اندازہ چینی اخبار میں چھپنے والی رپورٹوں سے ہوتا ہے۔ چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘نے لکھاہے کہ ’ہندوستان کا سرحد پر جوانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا اور چینی فوجیوں کے ساتھ کسی جھڑپ میں گولی چلانے کی اجازت دینا دونوں ملکوں کے مابین تناؤ کو اور بڑھائے گا اور ہندوستان کے لیے بھی اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔‘  مگر عالمی برادری ’گلوبل ٹائمز‘ کی رپورٹ پر توجہ دینے سے پہلے ان سوالوں کے جواب جاننا چاہے گی کہ تنازع کی شروعات کیسے ہوئی، کس نے کی؟ چینی فوجی ہندوستان کے علاقے میں کیوں گھس آئے؟ چینی فوجیوں نے ہندوستانی جوانوں پر حملے کیوں کیے؟
ہمارے فوجیوں کو اپنی دفاع کا حق دیا گیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ یہ کس قانون کے تحت غلط ہے؟ چین کو یہ بتانا چاہیے، اسے یہ بھی بتانا چاہیے کہ درانداز اور حملہ آور کا جواب کیسے دینا چاہیے؟ ’ناقابل برداشت نتائج‘ کا احساس ہندوستانیوں کو چینی نہ دلائیں، ہندوستان نے ابھی تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ورنہ حالات مختلف ہوتے۔ چین اگر واقعی اپنی بھول کو محسوس کرتا ہے، غلطی سدھارنا چاہتا ہے تو تاخیر نہ کرے، تنازع کو سلجھانے میں اسی خلوص کا مظاہرہ کرے جس کا مظاہرہ ہندوستان کرتا رہا ہے۔ فی الوقت امید بندھانے کے لیے یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین سفارتی اور فوجی سطح پر کوششوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔21 ستمبر 2020 کو چین کے ساتھ سینئر فوجی کمانڈر سطح کی چھٹے دور کی بات چیت ہوئی۔ بات چیت 14گھنٹے تک چلی۔ بے نتیجہ رہی مگر اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ ہندوستان کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’چین پہلے آیا تھا، اسے ہی پہلے پیچھے ہٹنا ہوگا۔‘ مگر چینی میڈیا کے لیے ہمیشہ سے وہی صحیح رہا ہے جو چینی حکومت یا فوج کرتی ہے ، اس لیے چینی میڈیا کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکتی، البتہ میڈیا کی آزادی کے لیے مشہور ملکوں کے اخبارات چین-ہند تنازع پر جو لکھتے ہیں، وہ ضرور عالمی برادری کے لیے توجہ طلب ہوتے ہیں اور عالمی برادری کی رپورٹنگ چین کو غلط ٹھہراتی ہے، شی جن پنگ کی توسیع پسندی کو ظاہر کرتی ہے۔
’گلوبل ٹائمز‘ نے لکھا ہے کہ ’تناؤ کو دیکھتے ہوئے چین کو ہندوستان کی چال کو لے کر الرٹ ہو جانا چاہیے اور کسی بھی متوقع فوجی ٹکراؤ کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ مستقبل میں سرحد پر یہ عام بات ہونے والی ہے۔‘ یعنی چینی میڈیا اس طرح پروپیگنڈہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں چین اگر مذموم حرکت کرے تو اس کے لیے ہندوستان کو ہی مورد الزام ٹھہرائے، خود کو جارح پوزیشن میں رکھنے کے باوجود دفاعی پوزیشن میں دکھائے تاکہ دنیا کی ہمدردی حاصل کرسکے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی اس بات سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ ’چین کے قول و عمل میں تضاد ہے، لہٰذا ان (دونوں ملکوں کے مابین ہوئے امن اور استحکام کے معاہدوں) کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔ مشرقی لداخ میں بھی یہی ہوا ہے لیکن فوج نے چین کی سبھی ناپاک حرکتوں کا منہ توڑ جواب دیا ۔‘ ملک کے مفاد میں ’گلوبل ٹائمز‘کی تحریر کو اس طرح سمجھنے کی ضرورتہے کہ ’تناؤ کو دیکھتے ہوئے بھارت کو چین کی چال کو لے کر الرٹ اور کسی بھی متوقع فوجی ٹکراؤ کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ مستقبل میں سرحد پر یہ عام بات ہونے والی ہے۔‘  امید یہ رکھنی چاہیے کہ ہماری سرحدوں کے نگہہ بان مستعد رہیں گے، ان سے ایسی بھول سرزد نہیں ہوگی کہ چینیوں کو فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ملے۔ چینیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو اگر پیچھے نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں وہ پورے خطے کے لیے وبال بن جائیں گے۔ چینیوں کے بڑھتے قدموں کو روکنا وطن عزیز ہندوستان کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے اور بحیرۂ جنوبی چین کے عالمی آبی راستے کی حفاظت کے لیے بھی۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS