کووڈ-19اور لاک ڈاؤن کے تفریقی اثرات

0

اشونی دیش پانڈے/راجیش رام چندرن
(مترجم:محمد صغیرحسین)

ہندوستان میں مصیبت اور تکلیف کی موجودہ صورت حال نے سماجی تفریق پر مبنی ناموافق صورت حال کے پہلے سے ہی موجود مرض میں اور بھی شدت پیدا کردی ہے۔
اپنی کتاب The Great Levelerمیں، آسٹریائی معاشی مورخ، والٹر شیڈیل(Walter Scheidel) نے دلیل پیش کی ہے کہ نوع انسانی کی پوری تاریخ میں چارقسم کے تباہ کن واقعات ہوتے ہیں جو بڑے پیمانے پر معاشی مساوات پیدا کرنے میں ممدومعاون ہوتے ہیں: عالمی وبا، جنگ، انقلاب اور سقوط ریاست۔ سردست، دنیا اُن چاروں میں سے ایک، زبردست کووڈ-19عالمی وبا کا سامنا کررہی ہے۔ شیڈیل کے تجزیے کے مطابق عدم مساوات میں کمی کا سبب اموات میں اضافہ ہے جس کے نتیجے میں مزدور کی مزدوری بڑھ جاتی ہے۔ جاری وبا کے سلسلے میں شیڈیل کی دلیلوں کی صحت کا اندازہ تب ہی لگایا جاسکتا ہے جب یہ ختم ہوجائے۔ عالمی وبا کو اُس نے ڈھیلے انداز میں مساوات گر دو اسباب کی بناء پر کہا ہے۔ اولاً یہ کہ یہ مرض کسی کو بھی لاحق ہوسکتا ہے اور دوم یہ کہ تالابندیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر روزگار ختم ہوئے ہیں اور معاشی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کا سامنا ہر شخص کو کرنا پڑا ہے خواہ اس کی آمدنی اور پیشہ کچھ بھی ہو۔
حاشیہ پر کھڑے لوگ خطرے کی زد میں
عالمی وبا کو مساوات گر کہنا کس قدر صحیح ہے، اس پر غور کرنا ہوگا۔ دنیا کے مختلف حصوں سے حاصل ابتدائی اعدادوشمار اوربالواسطہ ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مرض کسی کو بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ ہاں، البتہ زیادہ غریب اور معاشی طور پر بدحال آبادیوں کے اس مرض میں گرفتار ہونے اور پھر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ سماجی طور پر محروم گروہوں کو کووڈ-19سے مرنے کا زیادہ خطرہ ہوگا۔
یہ خطرات موت تک ہی محدود نہیں رہتے، کیوں کہ جاری وبا کے معاشی اثرات، کم مزدوری پانے والوں، کم تعلیم یافتہ محنت کشوں، اور لیبرفورس جس میں نسلی اور علاقائی اقلیتیں عام تناسب سے زیادہ ہوں، پر زیادہ پڑتے ہیں۔ انگلینڈاور امریکہ کی ابتدائی شہادتیں ظاہر کرتی ہیں کہ نسلی اور علاقائی اقلیتوں کو بے روزگاری کا خطرہ دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے۔
ہندوستان کے اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں؟ ہندوستان میں کووڈ-19کے واقعات اور اس وبا سے ہونے والی اموات کا غیرمجموعی ڈاٹا دستیاب نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ چند ذاتیں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ معرض خطر ہیں۔
ہندوستانی تالہ بندی
ہر جگہ، وبا پر قابو پانے کی جو تدبیر اپنائی گئی ہے وہ کم و بیش یہی رہی ہے کہ معاشی اور سماجی سرگرمیاں بند کردی جائیں اور سوشل ڈسٹینسنگ کی پابندی کی جائے، البتہ اس کے نفاذ میں کہیں زیادہ تو کہیں کم سختی دکھائی دی ہے۔ مارچ 2020کے آخری ہفتے میں نافذ ہونے والی ہندوستانی تالہ بندی کا شمار سخت ترین تالہ بندیوں میں ہوتا ہے۔ شدید تالہ بندی کے پہلے مہینے، اپریل 2020 میں بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
کیا اچانک بے روزگاری ذات پات سے مبرا تھی؟ ہم روزگار اور بے روزگاری کی شرحوں میں تبدیلی کا جائزہ لیں گے۔ اس سلسلے میں ہم Centre for Monitoring Indian Economy  (CMIE) کےconsumer pyramid household survey(CPHS) ڈاٹا بیس کا استعمال کریں گے۔ یہ ایک طول بلدی (longitudinal)ڈاٹاسیٹ ہے جس کے تحت 1,74,405 کنبوں کا جائزہ لیا گیا( موٹے طور پر 10,900کنبے ہر ہفتے یا پھر 43,600ہر ماہ)۔ ہر کنبے تک سال میں تین بار رسائی کی گئی۔ CPHSکے چھ مرحلوں(Waves) سے حاصل شدہ یونٹ لیول ڈاٹا کا ہم نے استعمال کیا: مرحلہ14(مئی سے اگست2018)، مرحلہ 15(ستمبر سے دسمبر2018)، مرحلہ16(جنوری سے اپریل2019)، مرحلہ17 (مئی سے اگست 2019)، مرحلہ18(ستمبرسے دسمبر2019) اور مرحلہ19(جنوری سے اپریل 2020)۔
ہم کو معلوم ہوا کہ دسمبر 2019اور اپریل2020کے درمیان باروزگار اونچی ذاتوں کا تناسب 39% سے گھٹ کر 32%رہ گیا یعنی 7فیصد پوائنٹس کی کمی۔ ایس سی(SC) کے معاملے میں یہ گراوٹ44% سے 24%تھی یعنی 20فیصد پوائنٹس کی کمی، بالفاظ دیگر اونچی ذاتوں کی بہ نسبت تقریباً تین گنا زیادہ روزگار سے محرومی۔ متوسط ذاتوں میں یہی گراوٹ 42%سے 34%: دیگر پسماندہ ذاتوں میں  40% سے 26%، اور ایس ٹی(ST) میں 48%سے 33% دیکھی گئی۔ چنانچہ ایس سی اور ایس ٹی میں روزگار میں جو گراوٹ آئی ہے وہ اونچی ذاتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
تعلیم ایک اہم جز کی حیثیت سے
عالمی واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ-19کی وجہ سے روزگار ختم ہوجانے سے وہ افراد زیادہ متاثر ہیں جو کم تعلیم یافتہ ہیں یا جن کے روزگار غیرمحفوظ اور عارضی ہیں۔ معلوم ہوا کہ محفوظ تر روزگار والے یعنی یومیہ مزدوری نہ کرنے والے اور وہ جنہوں نے 12 سالوں سے زیادہ تعلیم پائی ہے، اپریل 2020 میں اُن کے بے روزگار ہوجانے کے امکانات کم تھے۔ چنانچہ تالہ بندی کے فوراً بعد آنے والی بے روزگاری کی پہلی لہر میں تعلیم ایک ڈھال ثابت ہوئی ہے۔
ہمارے سابقہ جائزے انکشاف کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر ذات پات کی تفریق یا تو جامد رہی ہے یا یوں سمجھئے کہ اس کی توسیع میں گزشتہ تین دہائیاں لگ گئی ہیں۔
جاری وبا اس تعلیمی فرق میں اضافہ کرسکتی ہے۔ انڈیا ہیومن ڈیولپمنٹ سروے برائے 2011-12 (IHDS-II) کے اعدادوشمار کے مطابق ایس سی(SC) کے 51% کنبوں کی بالغ عورتیں صفر تعلیم یافتہ ہیں، اور 27%کنبوں میں ایک بالغ مرد رکن خاندان ناخواندہ ہے۔ یہ تناسب اونچی ذاتوں کے کنبوں سے یکسر مختلف ہے جہاں یہ تناسب بالترتیب 11% اور 24% ہے۔ ایسے میں جب کہ اب سارے اسکول بند ہیں، ایس سی  بچوں کو گھر میں پڑھانے، آن لائن تعلیم میں مدد کرنے والا مشکل سے ہی کوئی ہوگا، جب کہ اس کے مقابلے میں اونچی ذات کے بچوں کے ساتھ یہ دشواری نسبتاً کم ہوگی۔ یہ صورت حال، والدین کی تعلیمی استعداد میں فرق اور دوسرے اہم اختلافات کی وجہ سے رونما ہوئی ہے۔
ٹیکنالوجی کا مسئلہ
ایسے کئی پہلو ہیں جو مختلف ذاتوں کے درمیان جاری اس عدم مساوات کو ظاہر کرتے ہیں جو دلتوں اور آدی واسی کنبوں کو آن لائن تعلیم سے فیضیاب ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔ مثال کے طور پر اونچی ذات کے 20%کنبوں اور دلتوں کے صرف10%کنبوں کی رسائی انٹرنیٹ تک ہے۔ اسی طرح صرف49% دلتوں کے بچت کھاتے بینکوں میں ہیں جب کہ اونچی ذات والوں کے بینک کھاتے 62% ہیں۔ چنانچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی تک رسائی میں پسماندگی اور ایسی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے لازمی سرمایہ سے محرومی، دلتوں، آدی واسیوں، محروم اور نادار طبقوں کو آن لائن تعلیم کے فیضان سے محروم کردے گی۔ اگر وبا، اسکولوں کو ایک مدت مدید تک بند رکھنے کے لیے مجبور کرتی ہے تو یہ طبقات میدان تعلیم میں اور پچھڑ جائیں گے۔
وبا کے نتیجے میں ہونے والی تالہ بندی کے اثرات بتاتے ہیں کہ معاشی مصیبت اور تکلیف کی موجودہ صورت حال نے سماجی تشخص پر مبنی ناموافق حالات کے پہلے سے موجود مرض میں اوربھی شدت پیدا کردی ہے۔ مستقبل کے نقصانات سے بچنے کے لیے تعلیم اور صحت کے میدانوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ناگزیر ہوگئی ہے تاکہ مختلف سماجی گروہوں کے درمیان واقع خلیج کم ہو۔
(بشکریہ: دی ہندو)
(اشونی دیش پانڈے اشوک یونیورسٹی میں استاد ہیں اور راجیش رام چندرن یونیورسٹی آف ہیڈل برگ میں درس و تدریس میں مصروف ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS