چندربھان پرشاد
(مترجم: محمدصغیر حسین)
مہاتما ایّن کالی(1863-1941) اس وقت کی شاہی ریاست ٹریوینکور میں پیدا ہوئے۔ انہوںنے کئی سماجی انقلابات کی قیادت کی۔ 1893 میں ان کی بغاوت، خود وقری کے لیے دلتوں کی جدوجہد میں منارئہ روشنی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی بغاوت کا قابل ذکر پہلو اُن کا لباس تھا۔ وہ نائروں کی طرح سر سے پیر تک ملبوس رہتے تھے۔ انہیں کی طرح سر پر ایک سفید پگڑی باندھتے تھے۔ ایّن کالی کے زمانہ میں بیشتر دلت مرد کوناکم پہنتے تھے۔ کوناکم، شمالی ہند میں پہنی جانے والی لوائن کلاتھ کی لنگوٹی جیسا ہوتا تھا۔
بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں دلت جدوجہد میں ضابطۂ لباس سے انحراف اور حکم عدولی کا پہلو چھایا رہا۔ درحقیقت 1915 کی پیری ناڈ ’بغاوت‘ دلتوں کی سب سے بڑی شورش تھی، جس میں پیری ناڈ گاؤں(جو آج کولّم ضلع میں واقع ہے) کی دلت عورتوں نے اپنے کلومالا زیورات کو نذرآتش کردیا تھا۔ پتھر کے بے ہنگم اور بھدّے ٹکڑوں اور لکڑی کے منکوں سے بنا یہ زیور دلت عورتیں اپنے گلے میں پہنتی تھیں تاکہ اُس وقت کے ٹریوینکور کے سماج میں اُن کی کمتر حیثیت کی نمائش ہوسکے۔
مہیندر سنگھ ٹکیت نے بھارتیہ کسان یونین بنائی اور 1990کی دہائی میں وہ عدم المثال کسان لیڈر کی حیثیت سے منظرعام پر آئے۔ بیشتر چھوٹے موٹے کسان اور دلت اُن کے اپنے منصوبوں میں غیرموزوں تصور کیے گئے۔ چنانچہ ایک دلت، جے پال سنگھ زمتھیریا نے ایک علیحدہ چھتری تلے دلتوں کو منظم کرنا شروع کردیا۔ زمین مالکان اور دلتوں میں کئی بار جھڑپیں ہوئیں جس میں دلتوں کو ہی نقصان اٹھانا پڑا۔
زمین مالکان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر، دلتوں نے ایک میٹنگ بلائی جس میں ٹکیت نے ثالت کی حیثیت سے شرکت کی۔ دلت لیڈر متھیریا نے ٹکیت پر الزام عائد کیا کہ وہ مالکان زمین کی طرفداری کررہے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد ٹکیت نے طنز کرتے ہوئے کہا ’’ایک دھوتی والا ہے، ایک لنگوٹی والا‘ اور لنگوٹی والا دھوتی والے کو دیکھ کر جل رہا ہے۔‘‘ کمر سے لے کر ناخنِ پا تک پہنی جانے والی دھوتی ذات پات پر فخر و نخوت کی آئینہ دار تھی جب کہ لوائن کلاتھ کی لنگوٹی ذات پات کی بے وقری کی بیّن علامت تھی۔
پال ضلع کے گاؤ ںمیں پیدا ہونے والے ایک دلت، ایم ایل پریہار مشہور و معروف معالج مویشیان ہیں۔ اُن کی تحریر کردہ کم ازکم دس کتابیں علاج مویشیان کے اسکولوں میں داخل نصاب ہیں۔ پریہار ذات پات سے وابستہ و پیوستہ پگڑیوں کا ذکر بڑی شدت سے کرتے ہیں۔ دلتوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ لمبی دم والی پگڑیاں نہیں پہن سکتے۔ یہ اُن کے لیے ممنوع تھی۔ پریہار بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ ’’لوگوں کی ذات پات کا اندازہ اُن کے ملبوسات اور زیورات سے لگایا جاسکتا تھا۔‘‘
ذات پات کا مقصد محض طہارت نسل یا ناپاکیٔ نسل نہیں ہے بلکہ یہ شدت سے لوگوں کی طرز زندگی کی خاکہ گری کرتی ہے۔ ذات پات یہ طے کرتی ہے کہ دلت کس طرح کے کپڑے پہنیں، کس طرح کے زیور سے خود کو آراستہ کریں، کیا کھائیں کیا نہ کھائیں۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب دلتوں کے لیے گیہوں یا گھی ممنوع تھے۔ سن رسیدہ دلت یاد کرتے ہیں کہ دلتوں کے لیے مختص لباس کے علاوہ کچھ پہن لینے پر اونچی ذات کے وطن پرستوں کے قہر کا سامنا کس طرح کرنا پڑتا تھا۔ بعد میں، جب اَیّن کالی نے ضابطۂ لباس کی قابل تحسین خلاف ورزی کی تو اس سلسلے میں ایک قسم کی جمہوریت رونما ہوئی۔ ضابطۂ لباس کی جمہوریت کا سہرا کسی انسان کے سر نہیں بندھتا۔ اس کا سہرا خود اُس دور کے حاکم وقت، انگریز کے سر پر بھی نہیں بندھتا۔ یہ انگریزیت تھی جس نے ڈریس کوڈ جمہوریت پیدا کی۔
انگریزیت کوئی زبان نہیں ہے۔ یہ اس لباس سے پیدا ہوئی جو انگریز پہنتے تھے، یہ اُس طرزِحیات سے پیدا ہوئی جو انگریزوں کی تھی۔ پتلون سے، مثال کے طور پر، کسی قسم کے سماجی مراتب کی عکاسی نہیں ہوتی تھی۔ یہ یا تو پوری پتلون ہوتی تھی یا پھر آدھی یعنی نیکر ہوتی تھی۔ لارڈ میکالے اور اُن کا چپراسی، دونوں ہی مذکورہ بالا پتلون یا نیکر پہن سکتے تھے۔ ہیٹ، دستار کا وہ متبادل تھی جسے کوئی بھی بلاامتیاز و تفریق لگاسکتا تھا۔ انگریزیت نے نائروں کے ملبوسات اور کوناکم دونوں کو ختم کردیا۔ انگریزیت نے دھوتی کو کم و بیش فنا کے گھاٹ اُتار دیا۔ ہیٹوں اور کیپوں نے پگڑی کو الجھن میں ڈال دیا۔
انگریزیت کا انگریزی زبان سے کچھ گہرا رشتہ نہیں ہے۔ جب انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تو کون انگریزی سمجھتا تھا؟ ہاں، البتہ ان کی انگریزیت یعنی وہ سوٹ بوٹ جو وہ پہنتے تھے، اُن سے ہر شخص خوب واقف و آشنا تھا۔ جب انگریزوں نے ہندوستان میں پاؤں جمالیے تو اُن کے عادات و اطوار رفتہ رفتہ ایک تہذیب میں ڈھلتے چلے گئے۔ انگریزوں نے جو ٹوائلٹ بنائے وہ ایک مغربی عجوبہ بن گیا۔ اسی طرح اُن کی کٹلری، مشینیں، ادب، سائنس یہاں تک کہ اُن کے مشروبات لوگوں کو رجھانے لگے۔ انگریزیت ایک تہذیبی موضوع بن گی۔ ایسٹ/ ویسٹ بنام پورب/ پچھم۔ انگریزیت نے ہندیت کے وجود کے لیے خطرہ پیدا کردیا۔ وہ ہندیت جس نے بمشکل تمام وندھیاز کو عبور کیا تھا اور ست پورا سے قبل ٹھٹھر سی گئی تھی۔
اسی طرح ہندیت کا مطلب ہندی زبان نہیں ہے۔ ہندیت کے مویّد انگریزیت سے اس بناء پر نفرت کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح کی مغربیت ہے جو ملیچھوں کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ ہندیت کے نزدیک انگریز ملیچھ ہے، دلت ملیچھ ہے۔ چنانچہ انگریزیت، ہندیت کی سرزمین پر ایک برائی ہے۔ گزشتہ سترسالوں سے انگریزیت ہندوستان کے ڈی این اے میں داخل ہوگئی ہے۔ اس نے ایک طبقۂ خواص پیدا کردیا جو انگریزیت کا پرستار ہے اور جس نے اپنا مستقبل نئی تہذیب سے ہم رشتہ کردیا ہے۔ دیسی ملیچھ یعنی دلت نے انگریزیت کے دامن میں پناہ لی اور خود کو انسان سمجھے جانے کا مطالبہ کیا۔ 1947 کے بعد کے ہندوستان میں دلتوں کو خوب تر آزادی نصیب ہوئی جو انہیں ہندوستان کی معلوم تاریخ میں کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ صدیوں، قرنوں سے ہندیت دلتوں کے گردن پر اپنے گھٹنے رکھے ہوئے تھی۔ اب آزاد دلت اسکول جاسکتے ہیں، ذات پات سے مبرا ملبوسات پہن سکتے ہیں، یہاں تک کہ گھی کھاسکتے ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد ہندیت قریب قریب مایوس ہو کر دست بردار ہوگئی تھی لیکن وہ مری نہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی کی انگریزی مخالفت کا غیرمنکشف ہدف انگریزی زبان نہیں بلکہ تہذیب انگریزیت ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے سائے تلے ہندیت نے طبقۂ خواص اور دلتوں، دونوں کو سردست خوفزدہ کردیا ہے۔
تاہم ہندیت، اس انگریزیت کے بڑھتے قدم کو نہیں روک سکتی جس کی جڑیں لندن میں پیوست ہیں۔ لندن جو جدیدیت کی مڈل کنگڈم(Middle Kingdom) ہے۔ ہندیت کی انگریزیت سے لڑائی دراصل ہندوستان کے اس تصور سے ہے جس کا خواب کروڑوں ہندوستانی ایک مدت دراز سے دیکھ رہے ہیں۔ انگریزیت سے جنگ، مغربیت کے خلاف جنگ ہوگی، نیویارک/لندن/بِرس بین کے خلاف جنگ سمجھی جائے گی۔ جو بہترین کام ہندیت انجام دے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی عافیت اور بقا کے لیے کسی عجائب گھر میں جگہ تلاش کرلینی چاہیے۔
(بشکریہ: ٹائمز آف انڈیا)
(صاحب مضمون ایک دلت دانشور، مصنف اور کالم نگار ہیں۔ اُن کی آرا سے روزنامہ راشٹریہ سہارا، اس کے کارکنان اور مترجم کا متفق ہونا بالکل ضروری نہیں ہے)