کووڈ-19وبا بنام فضائی آلودگی

0

لیہرسیٹھی
(مترجم: محمد صغیر حسین)

ایک ماں ہونے کی حیثیت سے میں دہلی کے موسم سرما سے خوف کھاتی ہوں، اس کی وجہ دہلی کی کڑاکے کی ٹھنڈک نہیں بلکہ ہوا کی خوفناک آلودگی ہے۔ ہم ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جس کی ہوا کی کوالٹی دنیا میں سب سے زیادہ خراب ہے۔ جنوری اور ستمبر کے درمیان کوالٹی انڈیکس عام طور پر معتدل(101-200) رہتا ہے اور پھر شدید طور پر کم ہوتے ہوئے بہت خراب (Very poor)/(301-400)، پھر شدید (401-500) اور اکتوبر اور دسمبر کے درمیان خطرناک(500+) پہنچ جاتا ہے۔
یہ بات میرے لیے حیران کن ہے کہ جیسے ہی موسم سرما دہلی میں دستک دیتا ہے ہر چہار جانب شہر میں ہوائی آلودگی پر واویلا شروع ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی گرمی کا موسم لوٹتا ہے یہ شوروغوغا، یہ واویلا اور یہ فریاد و فغاں خود اپنی موت مرجاتے ہیں۔ پھر کسی کو اس وبا پر قابو پانے کی فوری ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اگرچہ بہت سے لوگ اب بھی ماسک کے عادی ہونے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن ہم جیسے لوگ جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں، یہ کوئی نئی اورانوکھی بات نہیں ہے کیوں کہ ہمارے بچے پچھلی کئی سردیوں سے ماسک لگارہے ہیں۔ میرے بیٹے کے مونیسٹری میری اسکول میں ننھے ننھے بچوںکو ماسک لگانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ جب کبھی میں اسکول جاتی ہوں تو ایسا گمان ہوتا ہے کسی سائنس فکشن فلم کے سیٹ میں داخل ہوگئی ہوں۔ مجھے ہرگز یہ اندازہ نہ تھا کہ ماسک لگانا ہر شخص کے لیے ایک نیا معمول بن جائے گا۔
موجودہ اعدادوشمار کے مطابق 29 دسمبر 2020 تک ہندوستان میں کورونا وائرس سے 1,48,190 اموات ہوچکی ہیں۔ عالمی پیمانے پر 1.78 ملین لوگ کووڈ-19کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اب ان اعدادوشمار کا موازنہ آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سے کریں۔ 2019میں، ہندوستان میں ہوائی آلودگی کی 2.5پی ایم سطح کی وجہ سے 9,80,000لوگ لقمۂ اجل ہوگئے۔ 2019ہی میں پی ایم 2.5سطح کی ہوائی آلودگی سے عالمی پیمانے پر 4.14ملین لوگ مرگئے۔ اگر ہم کووڈ-19سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دوگنی بھی تسلیم کرلیں تو بھی یہ تعداد، ہوائی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد کی محض27فیصد ہی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس وبا کو کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں کیا قیمت ادا کرنی ہوگی کہ ارباب حل و عقد اور حکومت خواب غفلت سے بیدار ہوں اور آلودگی سے ہونے والے نقصان صحت کی حقیقت کو سمجھیں؟ کیا ہوائی آلودگی کے تئیں بیداری محض تعلیم یافتہ اور شہریوں تک محدود ہے یا حکومت وقت اس کی اہمیت پر اس وقت توجہ دے گی، جب یہ مسئلہ عوامی ہوجائے اور عوام کا ووٹ بینک مرکز توجہ بن جائے۔
امریکہ مقیم تھنک ٹینک(حلقۂ دانشوراں)، Health Effects Institute نے 21اکتوبر کو ایک رپورٹ (State of Global Air 2020/SoGA 2020) شائع کی ہے جس کے مطابق ہندوستان میں گزشتہ سال ہوائی آلودگی کی وجہ سے 1,16,000نوزائیدگان ہلاک ہوگئے۔ ان کمسن ترین نوزائیدگان کی زیادہ تر اموات کا سبب قبل ازوقت ولادت اور کم وزن ہونا تھا اور یہ عوارض حمل کے دوران ماؤں کو ہوائی آلودگی جھیلنے کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ نوزائیدگان کی موت بیرون خانہ پی ایم 2.5آلودگی کی وجہ سے ہوئی اور باقی بچوں کی گھر میں ٹھوس ایندھن مثلاً کوئلے، لکڑی اور گوبر کے اُپلے کے استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی سے ہوئی۔ اس تحقیقی مطالعے کا دعویٰ ہے کہ یہ نوزائیدگان پر ہوائی آلودگی کے عالمی اثرات کے موضوع پر پہلا جامع تجزیہ ہے۔ ہوائی آلودگی اور نوزائیدگان کی اموات کے مابین ربط پر مسلسل تحقیقاتی شواہد سامنے آرہے ہیں اور متعدد ہندوستانی اوربین الاقوامی مطالعات نے اس کی وضاحت کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ آئیے ایک اصطلاع ’’Population-weighted annual average concentration‘‘ پر غور کرتے ہیں۔ اس اصطلاح سے مراد ملک کی آبادی کو لاحق ہوائی آلودگی کی اوسط سطح ہے۔ 2019میں پی ایم 2.5ہوائی آلودگی کی سطح ہندوستان میں 83.2مائیکروگرام فی مکعب میٹر تھی جو عالمی صحت تنظیم کے مقررکردہ محفوظ معیارات یعنی 10مائیکرو گرام فی مکعب میٹر سے آٹھ گنا زیادہ تھی۔ یہ سطح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
امریکن لنگ ایسوسی ایشن (American Lung Association) کے مطابق،بچوں کو ہوائی آلودگی سے اور بھی زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ اولاً یہ کہ اُن کے پھیپھڑے بڑھ رہے ہوتے ہیں اوردوسرے یہ کہ وہ زیادہ فعال ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سانس کے ذریعہ زیادہ ہوا لیتے ہیں۔ بچوں کو آلودہ ہوا میں سانس لینا بے حد تشویشناک ہے کیوں کہ اُن کا نظام مناعت ابھی مکمل نہیں ہوتا ہے۔
بازوؤں اور ٹانگوں کی طرح، کسی بچے کا پھیپھڑا بھی اُس کی ولادت کے ایک عرصے بعد بڑھتا ہے۔ 80فیصد جوف دندان(alvesli) پیدائش کے بعدبڑھتے ہیں۔ بچے، بڑوں کے مقابلے میں تنفس کے انفیکشن کے زیادہ شکار ہوتے ہیں جو ہوائی آلودگی کی وجہ سے مزید پریشان کن ہوجاتا ہے۔ مزید یہ کہ بچے، حرکت و عمل میں بڑوں سے مختلف ہوتے ہیں اور یہی شئے اُن کا لاحق خطرات میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ بچے جب گھر سے باہر ہوتے ہیں اور بھی زیادہ سرگرم ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ باہر کی آلودہ ہوا زیادہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ زمین سے قریب تر ہوتے ہیں جہاں آلودگی بڑھانے والے عوامل زیادہ ہوتے ہیں۔ State of Global Air 2009 نامی ایک مطالعے کے مطابق، ہوائی آلودگی کی موجودہ اعلیٰ سطحوں میں نشوونما پانے والے جنوبی ایشیائی بچوں کی عمر 2.5سال کم ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت خوفزدہ کرنے والی ہے اور جو مجھ سے تقاضہ کرتی ہے کہ میں اپنے بچے کے ساتھ اس شہر کو اس ملک کو چھوڑدوں۔ میں نے ازخود تحقیق کی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے، اس کے نائج حسب ذیل ہیں:
٭    بچے، آلودگی کے اثرات بد کے زیادہ شکار ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی رفتار تنفس زیادہ ہوتی ہے اور اُن کے پھیپھڑے ہنوز نمو پذیر ہوتے ہیں۔
٭    جن بچوں کو زیادہ آلودہ ہوا میں سانسیں لینی پڑتی ہیں، اُن کے پھیپھڑوں کا عمل بالغوں کی طرح سست ہوجاتا ہے۔
٭    آلودہ ہوا میں ایک عرصۂ دراز تک رہنے کے نتیجے میں، بچوں میں دمّہ، کینسروغیرہ جیسے موذی مرض پیدا ہوسکتے ہیں۔
٭    ہوائی آلودگی، بچوںکی خرابیٔ صحت کی بڑی حد تک ذمہ دار ہوتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہر دس اموات میں سے ایک ہوائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
٭    جو حاملہ عورتیں آلودگی ہوا میں رہتی ہیں، اُن بچوں میں دماغ کی نشوونما میں رکاوٹیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں حسّی اور ادراکی مسئلے پیدا ہوسکتے ہیں۔
عالمی صحت تنظیم(WHO) کے مطابق، دہلی میں، ہوا کی ناقص کوالٹی 50% بچوں یعنی 22لاکھ بچوں کے پھیپھڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یا آپ کا بچہ بھی اس بڑی تعداد میں شامل ہو۔ اس تلخ حقیقت کو میں قند تو ہرگز نہیں کہہ سکتی۔ میں اپنے بچے کے لیے شدید طور پر فکرمند ہوں۔ اگر ہوائی آلودگی سے پیداشدہ انتہائی خرابصورت حال قومی ایمرجنسی نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہیں اور مجھے یہ کہنے میں ذرّہ برابر تأمل نہیں کہ ہمارا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
(مضمون نگار مشہور و معروف صحافیہ اور مشّاق کالم نگار ہیں)
(بشکریہ: دی ایشین ایج)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS