بہار الیکشن کے نتائج اور مسلمان

0

انجینئر خالد علیگ

ہندوستان  کے الیکشن کی تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی الیکشن ہوا ہوگا جو کرکٹ کے 20 اوور کے میچ کی طرح آخری گیند تک ناظرین کے دلوں کی دھڑکنوں میں ہیجان پیدا کرتا رہا ہو۔ابھی تک یہ کہا جاتا تھا کہ کمزور دل والوں کو ٹی ٹوئنٹی کا میچ نہیں دیکھنا چاہیے، مگر10نومبر کودیر رات تک ہوئی بہار الیکشن کے ووٹوں کی گنتی اور آخری لمحہ تک امیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلہ کے بعد شاید کمزور دل والوں کو یہ صلاح بھی دی جانے لگے کہ وہ الیکشن کے نتائج سے دور رہیں تو بہتر ہوگا ۔اتفاق دیکھئے کہ ٹی ٹوئنٹی کا فائنل بھی اسی روز ہونا تھا لیکن الیکشن نتائج نے اتنی مہلت بھی نہ دی کہ ریموٹ اٹھا کر اسکور ہی دیکھ لیا جائے۔ رات کے 9بجے کچھ ایسی خبریں بھی آئیں کہ الیکشن کمیشن نتیش کمار کے اشاروں پر کام کر رہا ہے ۔کچھ جگہوں پر آر جے ڈی کے ناراض کارکنان کے احتجاج کی خبریں بھی موصول ہوئیں اور 3 نومبر کی امریکی کاؤنٹنگ کی یاد تازہ ہو گئی، جہاں ٹرمپ نے ہارنے کے باوجود وہائٹ ہاؤس چھوڑنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں نتیش کمار کویہ زحمت اس لیے گوارا نہیںکرنی پڑے گی کیونکہ وہ گزشتہ 15 برسوں سے کسی نہ کسی طرح سی ایم ہائوس میں جمے رہنے میں کامیاب رہے ہیں ۔کبھی بی جے پی کی حمایت سے تو کبھی اس کی مخالفت کر کے۔
 جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے ان کے نقطہ نظر سے الیکشن کے نتائج کئی اعتبار سے گزشتہ انتخابات سے کافی مختلف رہے۔ پہلی نمایاں تبدیلی تو یہ رہی کہ مسلم اراکین کی تعداد گزشتہ اسمبلی کے مقابلہ کم ہو گئی۔ 2015 میں مسلم ممبران کی تعداد 24 تھی جو اس بار گھٹ کر 19 رہ گئی، لیکن اس کا کوئی فرق مسلمانوں کے مسائل یا ان کے حل سے بالکل نہیں ہے ۔مسلمان ممبران اسمبلی کتنے بھی کیوں نہ ہوں، ان کو گونگا بن کے ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ اب ان کی تعداد 20 ہو یا 25، اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ ہاں مسلمانوں کے لیے جو بات قابل تشویش ہے وہ یہ کہ 2015 کی سرکار نتیش اور بی جے پی کی سرکار تھی لیکن اب یہ سرکار بی جے پی اور نتیش کی سرکار ہوگی۔ بی جے پی نے بڑی چالاکی سے چراغ پاسوان کے ذریعہ نتیش کمار کے پر کتر کے اسے چھوٹا بھائی بنا دیا ہے۔ اب وہ آسمانوں کے بجائے ان دالانوں میں پرواز کریں گے جن کی اونچائی بی جے پی کی مرضی سے طے کی جائے گی۔ ایسی صورت میں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا نتیش کمار مسلم مسائل پر اپنا پرانا موقف قائم رکھ پائیں گے یا اپنے نئے آقا کی دھن پہ ناچنا شروع کردیں گے؟ یہاں امید کی کرن یہ ہے کہ جس طرح نتیش کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اسی طرح بی جے پی کے بھی تمام راستے بند ہیں۔ وہ بھی نتیش کمار کو چیف منسٹر بنانے کے لیے مجبور تھی۔ اس لیے ہو سکتاہے کہ بی جے پی ان کو تگڑی کا ناچ نہ نچا سکے۔ آنے والا وقت ہی بتائے گاکہ مسلمانوں کے تئیں اس حکومت کا رویہ کیسا رہتا ہے۔
مسلمانوں کے نقطہ نظر سے جو تیسرا ڈیولپمنٹ ہوا ہے، وہ ہے اے آئی ایم آئی ایم کی زبردست کامیابی۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے ایک بہت بڑا طبقہ ایسا رہا ہے جو اپنی پارٹی اور اپنی قیادت کی بات کرتا ہے ۔یہ لوگ ڈاکٹر فریدی کے زمانے سے موجود ہیں جو کبھی مسلم لیگ تو کبھی پیس پارٹی کی شکل میں سامنے آتے رہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جو نمائندے کسی سیکولر پارٹی کے رحم وکرم سے اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں ان کی وفاداریاں اپنے ان آقاؤں کے ساتھ رہتی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ اسدالدین اویسی پارلیمنٹ میں اس لیے گرج سکتا ہے کیونکہ وہ وہاں اپنے بل بوتے پہنچتا ہے نہ کہ کانگریس یا سماج وادی پارٹی کے رحم و کرم پر۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ گو نگو ں کی فوج سے ایک بولنے والا بہتر ہے اور اسد الدین اویسی نے کئی مواقع پر اس کو صحیح ثابت کیا ہے۔
بہرحال بہار میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 16فیصدہے اور اے آئی ایم آئی ایم کو تقریباً 5.5% ووٹ ملے ہیں جو ایک 5 سال پرانی پارٹی کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات ہے کہ سیاسی جماعتیں اب تک اے آئی ایم آئی ایم کو ایک فرقہ پرست اچھوت پارٹی سمجھتی تھیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب بی ایس پی سمیت تین پارٹیوں نے اسدالدین اویسی کی پارٹی سے اتحاد کیا۔کچھ لوگ اس اتحاد میں امید کی نئی کرن دیکھ رہے ہیں اور اس کو یوپی کے تناظر میں دیکھنے لگے ہیں، جہاں مایاوتی اپنی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو پار لگانے کے لیے کسی بھی سہارے کو قبول کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف مسلم ووٹ بینک کو اپنی جاگیر سمجھنے والی سیکولر پارٹیاں اپنا ووٹ بینک کھسکتا دیکھ کر تلملانے لگی ہیں اور ہر قیمت پر اویسی کو بی جے پی کی بی ٹیم ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔پہلے سوشل میڈیا پر یہ افواہ پھیلائی گئی کہ اویسی نے عظیم اتحاد کو 19 سیٹوں کا نقصان پہنچا کر این ڈی اے کی حکومت بنوا دی۔ نتیجتاً سوشل میڈیا پہ مغلظات کا سلسلہ شروع ہو گیا،مگر جیسے جیسے الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار سامنے آئے تصویر صاف ہوتی گئی اوریہ بات واضح ہوگئی کہ ان پانچ سیٹوں کے علاوہ جہاں مجلس الیکشن جیتی، ایک بھی سیٹ ایسی نہیں ہے جہاں مجلس کا ووٹ جیت کے مارجن سے زیادہ ہو۔ 
مطلب صاف ہے کہ مجلس کی وجہ سے عظیم اتحاد ایک سیٹ بھی نہیں ہارا۔عظیم اتحاد کی ہار کے لیے اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ کانگریس کی خراب کار کردگی ہے۔مگر یہ سیکولرزم کے ٹھیکہ دار ساری ہار کا ٹھیکرا اے آئی ایم آئی ایم کے سر پھوڑنا چاہتے ہیں۔ یہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ گجرات، یوپی، کرناٹک ،منی پور اور ایم پی میں جہاں مجلس کا وجود بھی نہیں ہے، وہاں ان کی شرمناک کار کردگی کا ذمہ دار کون ہے؟بہرحال نتیجہ جو بھی ہو اتنی بات تو طے ہے کہ اس نتیجہ کا بہت گہرا اثر شمالی ہندوستان کی مسلم سیاست پر مرتب ہوگا۔
[email protected] 
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS