کیا ہم مجرموں کو قانون ساز بنارہے ہیں؟

0

ویریندر کمار بینیوتی
(مترجم: محمد صغیر حسین)

سپریم کورٹ، سیاست کی روزافزوں جرائم زدگی پر روک لگانے کے لیے 2003سے ہی مسلسل کوشاں ہے۔ اس کوشش کے پس منظر میں عزت مآب ججوں کا یہ خیال بھی کارفرما رہا ہے کہ عوام کو امیدواروں کا ریکارڈ جاننے کا پورا حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم نامے مورخہ 13مارچ 2003 کے ذریعہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے انتخابات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کے لیے اپنی تعلیم، جائدادیں، بینک کھاتوں میں جمع رقوم، واجبات کے ساتھ ساتھ اپنے مجرمانہ معاملات سے متعلق تفصیلات کو قانونی حلف نامے میں بتانا لازمی کردیا تھا۔ عدالت کی اِن ہدایات کی تعمیل کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی22مارچ 2003کو حکم جاری ہوگیا تھا۔ امیدواروں کے حلف ناموں کو کوئی بھی شخص حاصل کرسکتا ہے۔
اس مسئلے پر سپریم کورٹ نے سال رواں میں اپنے ایک حکم نامے مورخہ 13فروری کے تحت سیاسی پارٹیو ںکے لیے جرائم کے ملزمین کو امیدوار بنانے پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بتانا لازمی کردیا ہے کہ انہوں نے ملزمین کو ٹکٹ دینے کے معاملے میں کیوں ترجیح دی؟ صرف یہ کہنا کافی نہ ہوگا کہ امیدوار کے جیتنے کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ مزیدیہ کہ یہ بھی بتانا ہوگا کہ صاف ستھری شبیہ والے امیدواروں کو ٹکٹ سے محروم کیوں رکھا گیا۔ سیاسی پارٹیوں کو اس طرح کی تفصیلات گاہے گاہے دیتے رہنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت سیاسی پارٹیوں کو اپنے داغدارامیدواروں کے انتخاب کے 72گھنٹوں کے اندر اِس کی اطلاع الیکشن کمیشن کو دینے کا نظم بھی کیا گیا ہے۔ جرائم میں ملوث لوگوں کے قانون سازوں کی حیثیت سے قانون سازاداروں میں رسائی کے امکانات کو کم کرنے کے تسلسل میں سپریم کورٹ نے فروری 2020کے پہلے سے ہی الیکشن کمیشن کویہ ذمہ داری دی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کو مجرمانہ پس منظر رکھنے والے کامیاب امیدواروں کے بارے میں یہ بھی بتائے گا کہ ایسے امیدواروں نے سپریم کورٹ کے سارے قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی ہے یا نہیں۔
امیدوار مجرم ہے یا دیگر امیدواروں کے مقابلے میں اسے ترجیح کیوں دی گئی، یہ معلومات منظرعام ہونے کے باوجود سیاسی پارٹیوں کو کوئی نقصان پہنچا ہو، کم سے کم حال ہی میں منعقدہ بہار اسمبلی انتخابات کے اعدادوشمار کے تجزیے سے تو ایسا نہیں لگتا ہے۔ نئی منتخب بہار اسمبلی میں دوتہائی سے زیادہ تقریباً 68فیصد ایسے ارکانِ اسمبلی ہیں جن کے خلاف جرائم کے معاملات درج ہونے کے باوجود وہ عوام کی پہلی پسند رہے، فتح یاب ہوئے کامران رہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہ تناسب 2015کی اسمبلی میں منتخب کیے گئے امیدواروں سے زیادہ ہے۔ پہلے یہ تناسب ایک تہائی تھا جو اب بڑھ کر دوتہائی ہوگیا ہے۔ مجرمانہ ریکارڈ نہ رکھنے والے امیدواروں میں بیوی سمیت کچھ اُن کے ہی رشتے دار ہوتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی یہ دلیل صحیح ہے کہ مجرم یا مجرم رہے امیدواروں کے کامیاب ہونے کے امکانات قوی تر ہوتے ہیں۔
بڑی تعداد میں ملزموں کو بہار اسمبلی کے لیے منتخب کیا جانا باعث تشویش اس لیے بھی ہے کہ مجموعی رائے دہندگی میں خواتین ووٹرز کا تناسب مرد ووٹروں کے مقابلے میں تقریباً پانچ فیصد زیادہ تھا اوردوسری جانب کامیاب امیدواروں میں 51فیصد کے خلاف قتل، قتل عمد کی کوشش، اغوا، خواتین کے خلاف جرائم کے معاملات درج ہیں۔ ایسے میں یہ دعوے کھوکھلے لگتے ہیں کہ عوام نے ترقی کے نام پر ووٹ دیا یا جنگل راج کے خلاف ووٹ دیا۔
آئیے دہلی کا بھی منظر دیکھ لیں۔ سپریم کورٹ نے جو ہدایات 2018 میں دی تھیں کہ سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ عام کریں، اُن کے باوجود دہلی اسمبلی میں 2020کے انتخابات میں تقریباً61فیصد ایسے ارکان منتخب ہوئے ہیں جن پر جرائم کے معاملات درج ہیں۔ ان میں قتل اور زنابالجبر جیسے جرائم بھی شامل ہیں جب کہ کامیاب ہونے والی دونوں پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور میں جرائم سے پاک سیاست کا وعدہ کیا تھا۔ یہ دونوں پارٹیاں عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی ملزم امیدواروں کو اس لیے ٹکٹ دیتی ہیں کہ ایسے داغدار افراد کے جیتنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں اور کئی بار تو ایسے لوگ عوام کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔
آج سپریم کورٹ کو بھی معلوم ہے کہ اس کی سختی کا زیادہ اثر نہیں پڑرہا ہے۔ لیکن اگر سب کام عدالتیں ہی کریں گی تو عوام کیا کریں گے۔ عدالت کی مسلسل کوششوں کا سیاسی پارٹیوں اور رائے دہندگان پر مطلوبہ اثر نہ ہونا بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر جرائم پیشہ افراد فتح یاب ہوتے ہیں تو یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اُن کے مجرمانہ ریکارڈ سے خوف واقف ہونے کے باوجود اُن کو منتخب کیا گیا ہے۔
کیا ہمیں اس بات پر خود احتسابی نہیں کرنی چاہیے کہ ایسی داغدار شبیہ والے امیدوار رائے دہندگان کی پسند کیوں بن رہے ہیں؟ اس ضمن میں قبل از انتخابات بیداری مہموں کی ہی طرح انتخابات کے بعد عوامی رابطہ مہم چلائی جاسکتی ہے۔ کئی سماجی کارکنان اور تنظیمیں امیدواروں کے حلف ناموں سے حاصل کردہ معلومات سے رائے دہندگان کو بیدار کرنے کی مہم چلاتے ہیں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نئی نسل کے نوجوان بھی اپنی پارٹیوں کے ذریعہ مجرموں کو ٹکٹ دینے پر نہ تو اعتراض کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی احتجاجی لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں بلکہ وہ سیاست میں اپنے قدم جمائے رکھنے کی خاطرخود اسی نہج کو اختیار کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جب ایک جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو یا میڈیا گروپس کو اتنا مضبوط سمجھا جاتا ہے کہ وہ میڈیا ٹرائل کے ذریعہ مقدموں کو متاثر کرسکتے ہیں تو مجرم امیدواروں کے خلاف مقامی سطح پر عوام کی ذہن سازی میں سرگرم کیوں نہیں دکھائی دیتے؟
لگتا ہے کہ عوام کے لیے اخلاقی قدریں بھی معنی نہیں رکھتیں۔ دل بدلو ارکانِ اسمبلی یا وہ ارکان جو مبینہ طور پر پیسے لے کر خیمے بدل لیتے ہیں، وہ بھی انتخاب میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اخلاقی ضابطے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ یہ سب کچھ ہر سطح پر روکنا چاہتا ہے۔ لیکن عوام اپنے اپنے اسمبلی/پارلیمانی/ میونسپل/ گرام پنچایت حلقوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتے کہ وہاں انتخاب میں مجرم امیدوارکیوں کھڑا کیا جارہا ہے اور اسے تعاون کیوں دیا جارہا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مجرمانہ کردار رکھنے والے امیدوار کی کامیابی کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ جنتا کی عدالت نے اسے بری کردیا ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کی صلاح پر لوگوں کو پرکھنے کا ایک نایاب طریقہ اپنایا۔ اُس نے ایک بڑے حوض میں صبح صادق، روشنی سے پہلے ایک ایک لوٹا دودھ ڈالنے کو کہا۔ صبح حوض میں اسے پانی ہی پانی دکھائی دیا۔ سب نے یا اکثریت نے یہی سوچا کہ میرے ایک لوٹے پانی سے کیا فرق پڑے گا۔ باقی سب تو بادشاہ کے حکم کے مطابق دودھ ہی ڈالیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی مجرم کا ساتھ دینے والوں کو مجرم نہیں مانا جاتا؟ ایسے میں جب ہم دیدئہ و دانستہ کسی مجرم کو ووٹ دیتے ہیں، اس کی انتخابی مہم میں جی جان سے شریک ہوتے ہیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے خود کو شب و روز وقف کردیتے ہیں تو کیا ہمیں خود اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں تسلیم کرنا چاہیے؟ آخر ’نوٹا‘ کا متبادل تو موجود ہوتا ہی ہے۔
اگر کبھی ’نوٹا‘ کو پڑنے والے ووٹوں کا تناسب زیادہ ہوگیا تو پارٹیوں کو اپنے امیدوار طے کرنے سے پہلے سوچنا پڑے گا۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تمام پارٹیاں مل کر بھی عوام کے سامنے ایسا امیدوار نہیں لاپائیں جو مجرمانہ کردار سے پاک ہو؟ اور عوام کو مجبوراً اپنا ووٹ ’نوٹا‘ کو دینا پڑا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انتخابات میں صاف ستھری شبیہ والے امیدواروںکو آگے لانے کے لیے صاف ستھرے رائے دہندگان بھی چاہیے۔
(صاحب مضمون ایک مشہور صحافی اور کالم نگار ہیں)
(بشکریہ: جن ستّا)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS