زراعت سے متعلق قوانین اور کسانوں کی بے چینی

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

گزشتہ دو ماہ میں پورے ملک میں نئے زراعتی قوانین کو لے کر ایک سیاسی و سماجی کشمکش پیدا ہے، مرکزی حکومت اور کسان رہنماؤں کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے، ریپبلک ڈے جشن کے دوران لال قلعہ پر ہونے والے تصادم نے آگ پر گھی کا کام کیا اور پوری دنیا میں کسانوں کا مسئلہ مزید سرخیوں کا حصہ بن گیا۔ آخر زراعتی قوانین کیا ہیں اور ان سے عام کسانوں کی روزمرہ کی یا معاشی زندگی پر کیا اثر پڑنے والا ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان قوانین اور ان کے ممکنہ اثرات پر روشنی ڈالیں، آج کے مضمون میں ہم تین میں سے ایک قانون فارمرس پروڈیوس اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ مینٹیننس) ایکٹ 2020پر روشنی ڈالیں گے۔Farmers’ Produce Trade and Commerce (Promotion and Facilitation) Act, 2020  اس قانون کو صدر جمہوریہ نے 24ستمبر 2020کو دستخط کرکے اپنی منظوری دی جس کے بعد گزٹ میں شائع ہوا۔ اس قانون کے خاص نکات میں سب سے پہلا ہے ’’ زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹی(Agricultural Produce Market Committee (APMC)) کے باہر تجارت کے امکانات کو وسیع کرنا۔‘‘ دوسرا پہلو ایک صوبے کے اندر یا کسی دوسرے صوبے میں کسان اپنی زراعتی اشیا کو فروخت کرسکے، تیسرا اہم پہلو کہ زرعی اشیا کی خریدوفروخت پر صوبائی حکومت کی طرف سے ٹیکس نہیں ہوگا۔ چوتھا اہم ایشو ہے کہ زرعی اشیا کی خرید و فروخت کے دوران ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کے لیے پیش کیا گیا نظام۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مرکزی حکومت کو ان نئے قوانین کو پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ امبانی اور اڈانی کو فائدہ پہنچانا ہی واحد مقصد ہے؟ یا کیا یہ قوانین موجودہ مرکزی حکومت کے ہی ذہن کی اپج ہیں؟ کسی بھی فیصلے تک پہنچنے سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم معاملہ کی نوعیت کو نیز مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے حالیہ یا گزشتہ نظام اور واقعات پر بھی روشنی ڈالیں اور سب سے اہم یہ کہ ہریانہ، پنجاب اور مغربی اترپردیش میں ہی آخر سب سے زیادہ بے چینی کیوں ہے؟
سب سے پہلے زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹی APMC کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل وہ بڑی منڈیاں ہیں جہاں بڑے تاجر بہت بڑی مقدار میں زراعتی اشیا کی خرید کے لیے آتے ہیں اور وہ کسان جو سیکڑوں یا ہزاروں ٹن اناج یا دیگر زراعتی اشیا فروخت کرسکتے ہوں وہ ان منڈیوں میں بیچنے آتے ہیں۔ ان منڈیوں میں کسانوں اور تاجروں کے درمیان مقامی ایجنٹ ہوتے ہیں جو دراصل انہیں کسانوں میں سے بڑے کسان یا ان کی فیملی کے ہوتے ہیں جن کا باقاعدہ رجسٹریشن ہوتا ہے جو کسان اور تاجر کے مابین کسی بھی خریدوفروخت کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، ان ایجنٹ کو ہریانہ و پنجاب میں ا ڑھتیہ کہا جاتا ہے۔ یعنی ا ڑھتیہ ایک ایسا ایجنٹ طبقہ ہے جس کے بغیر تجارت ممکن نہیں اور کسانوں سے کس قیمت پر زرعی اشیا لینی ہیں اور تاجر طبقہ کو کس قیمت پر دینی ہیں، اس پورے عمل میں اس طبقے کی مونوپولی یا ا لیگوپولی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کا صرف 6 فیصد کسان زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹی APMC میں خریدوفروخت کرتا ہے جب کہ 94فیصد قرب و جوار کی منڈیوں میں یا بڑے کسانوں کو اپنی پیداوار فروخت کرتے ہیں جو آگے چل کر ا ڑھتیہ یعنی ایجنٹ کے ذریعے اے پی ایم سی میں تاجروں کو فروخت کی جانی ہیں۔
وقتاً فوقتاً یہ سوال بحث و مباحثہ کا مرکز بنتا ہے کہ آخر کسان سے جو اناج 5 یا 6 روپے کلو کے حساب سے لیا جاتا ہے وہ عام بازار تک پہنچنے میں 40 سے 50 روپے تک کی قیمت کا کیوں ہوجاتا ہے؟ کسان فصل پیدا کرتا ہے، بیج کھاد سے لے کر فصل تیار ہونے تک کی محنت ہوتی ہے تاہم اس کو مارکیٹ میں 50یا 60 روپے کلو فروخت ہونے والے ٹماٹر کے 30 یا 20 روپے کیوں نہیں ملتے؟ APMCکی منڈی تک لانے کا خرچ، صوبائی حکومت کا ٹیکس، مارکیٹ میں خریدوفروخت کرنے کی فیس، دیگر اخراجات اور بہت سی شرائط خصوصاً کسان کے اوپر یہ شرط کہ وہ اپنی منڈی میں ہی بیچے گا اور آڑھتیہ کے ذریعے ہی بیچ سکتا ہے قابل غور ہے، اگرچہ سہولیات بھی فراہم ہوتی ہیں۔
نئے قانون کے ذریعے مرکزی سرکارAPMCیا مروجہ منڈی نظام کو ختم نہیں کررہی ہے بلکہ اس کی لازمی شرائط سے آزاد کررہی ہے۔ اس سلسلے میں آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سرکار نے2003میںAPMCماڈل ایکٹ بنایا اور تمام صوبوں کو بھیجا گیا جس کا مقصد کسانوں کو سہولیات فراہم کرنا درج کیا گیا تھا، نیز کم از کم پھل اور سبزیوں کوAPMC سے باہر رکھنے کی بات کہی گئی تھی۔ جس کے بعد تقریباً 10 سالوں تک مرکز میں کانگریس اور اس کی ہمنوا سیاسی جماعتوں کی یو پی اے سرکار رہی اور یو پی اے سرکار کے جاتے جاتے 2015تک ملک کے 15 صوبوں میںAPMCماڈل ایکٹ کے تحت قوانین بنالیے گئے تھے۔ دہلی میں پھل سبزیوں کوAPMCکی شرائط سے آزاد کردیا گیا تھا اور دہلی کی منڈیوں میں کہیں کا کوئی بھی کسان اپنی مرضی سے پھل سبزی کی خریدوفروخت کرسکتا ہے۔
کرناٹک میں رایتو بازار کے نام سے ایک نظام کا فارمولہ اپنایا گیا، یعنی کرناٹک، بہار اور مہاراشٹر جیسے صوبوں میں پہلے ہی APMC کی شرائط ختم کی جا چکی ہیں، وہاں پرائیویٹ منڈیوں کا لائسنس حکومت اپنے ریگولیشن کے تحت دیتی ہے اور ہر سال لائسنس کی تجدید ہوتی ہے۔ ایک کھلا بازار مہیا کرایا گیا ہے جہاں کسی کی کوئی مونوپولی نہیں ہے یا مونوپولی ہونے کے مواقع کم ہوجاتے ہیں۔ بہار میں APMCکی شرائط 2006میں ہی ختم کردی گئی تھیں۔ مہاراشٹر میں یہ بدلاؤ کانگریس کے وزیراعلی ولاس راو دیش مکھ کے زمانے میں ہوا تھا۔ آج مہاراشٹر میں کل18پرائیویٹ مارکیٹ ہیں نیز1100(گیارہ سو) ڈائریکٹ مارکیٹ لائسنس حکومت بانٹ چکی ہے جن میں ریلائنس فریش بھی شامل ہے۔ مہاراشٹر میں پچھلے سال APMCنے کل28000کروڑ کا بزنس کیا جب کہ پرائیویٹ مارکیٹ اور ڈائریکٹ مارکیٹ لائسنس نے11000 کروڑ کا جس کی روشنی میں یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ اوپن مارکیٹ سے مروجہ نظام یعنی APMCختم ہوجائیں گے۔ البتہ تجارت کے مواقع اور منسلک افراد کے پاس چوائس بڑھ جائیں گی۔
دوسرا اہم پہلو تنازعات کی صورت میں معاملہ کا تصفیہ کیسے ہوگا؟ نئے قانون کی روشنی میں اگر کسان اور تاجر کے مابین کوئی تنازع ہوتا ہے تو مقامی سطح پر ایس ڈی ایم کے ذریعے ایک مصالحتی بورڈ تشکیل دیا جائے گا، جس بورڈ میں ایس ڈی ایم یا اس کا نامزد کوئی آفیسر اور فریقین کے ایک ایک یا دودو نمائندے ہوں گے۔ ایک ماہ کے اندر اگر مصالحت  ہوجاتی ہے تو مصالحتی معاہدے پر دونوں کے دستخط ہوں گے اور دستخط کے بعد کسی طرح کی کوئی اپیل نہیں ہوگی۔ تاہم اگر مصالحت نہیں ہوتی ہے تو ایس ڈی ایم ایک ماہ کے اندر دونوں فریق کی سنوائی کرکے فیصلہ سنائے گا۔ اگر فریقین یا کوئی فریق ایس ڈی ایم کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں تو وہ صرف ایک بار ڈی ایم کے سامنے اپیل کرسکتے ہیں جو اپیل ڈی ایم خود یا اپنے ماتحت کسی اے ڈی ایم کو سنوائی کے لیے بھیج سکتا ہے۔ موجودہ عدالتی نظام کوضلعی عدالت یا ہائی کورٹ کو سنوائی کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کی عدلیہ آج بھی انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور خودمختار تصور کی جاتی ہے کیونکہ انتظامیہ براہ راست صوبائی حکومت کے ماتحت ہوتی ہے اور ڈی ایم یا ایس ڈی ایم صوبائی حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے قانون میں کسانوں کے لیے نئے مواقع فراہم ہوں گے، خرید و فروخت کے لیے مواقع بڑھیں گے، پرائیویٹ اور آزاد مارکیٹ کے آنے کے بعد تجارت میں مواقع اور مقابلے دونوں بڑھیں گے، کسانوں کو اپنی پیداوار اپنی مرضی سے بیچنے کی آزادی ہوگی تاہم تنازعات میں تصفیہ کے لیے عدالتی سپورٹ کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ یا آزاد بازار میں آنے والے تاجروں کا رجسٹریشن اور ان کی ایمانداری کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی قیمت صحیح اور صحیح وقت پر ادا ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS