روی شنکر
مرکزی حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف بڑی تعداد میں ہریانہ اور پنجاب کے کسان دہلی آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ کسانوں کو دہلی جانے سے روکا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی بھی طرح کسان دہلی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ نہ کرپائیں۔ کیونکہ معاملہ مودی حکومت کے نئے زرعی قانونوں کے خلاف میں ہے۔ اس میں بھی منیمم سپورٹ قیمت کے ختم ہونے کا ڈر ہے۔ اب تک کسان اپنی فصل کو اپنے آس پاس کی منڈیوں میں سرکار کی جانب سے طے کی گئی منیمم سپورٹ قیمت پر فروخت کرتے تھے۔ لیکن نئے کسان قوانین کے سبب حکومت نے زرعی اپج منڈی سمیتی سے باہر زراعت کے کاروبار کو منظوری دے دی ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو ڈر ہے کہ انہیں اب ان کی فصلوں کی مناسب قیمت بھی نہیں مل پائے گی۔ نئے کسان قوانین میں سرکا رنے جس نظام کو جوڑا ہے اس میں کاروباری کسان سے منڈی کے باہر اناج خرید سکتا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں کسان قوانین کی مخالفت سب سے زیادہ دیکھی جارہی ہے۔ ان ریاستوں میں حکومت کو منڈی سے کافی زیادہ تعداد میں ریوینو کی حصولیابی ہوتی ہے۔ وہیں نئے کسان قوانین کے سبب اب کاروباری سیدھے کسانوں سے خرید پائیں گے، جس کی وجہ سے وہ منڈیوں میں دئے جانے والے منڈی ٹیکس سے بچ جائیں گے۔ اس کا سیدھا اثر ریاست کے ریوینو پر پڑسکتا ہے۔ ابھی تک منڈی میں کسان سے اناج کے خرید پر تاجر کو 6سے 7فیصد کا ٹیکس دینا ہوتا تھا۔ وہیں منڈی کے باہر اناج کے خرید پر کسی بھی طرح کا کوئی بھی ٹیکس نہیں دینا ہوگا۔ اس سے آنے والے وقت میں منڈیاں پوری طرح سے ختم ہوجائیں گی اور کسان سیدھے طور پر تاجروں کے حوالے ہوگا۔ اسے ان کی فصل پر طے قیمت سے زیادہ یا کم بھی مل سکتا ہے۔ ایسے میں اب کسان تنظیمیں مرکزی حکومت سے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں ہیں۔
اس سے قبل ہی بل میں سرکاری منڈی کے باہر ہونے والی خرید کو تمام ٹیکسوں اور فیس سے آزاد کرنے اور تنازعات کے نپٹارے کے نظام کی تجاویز بھی ہیں، جن کا کسانوں کی تنظیمیں مخالفت کررہی ہیں۔ حالانکہ مرکزی حکومت اپنے بیانوں میں کہہ رہی ہے کہ وہ ایم ایس پی جاری رکھے گی۔اس کے ساتھ ہی ملک میں کہیں بھی منڈیوں کو بند نہیں ہونے دیا جائے گا، لیکن حکومت نے اس بات کو نئے قانون میں نہیں جوڑا ہے جس سے کسانوں میں زبردست مخالفت کی حالت بنی ہوئی ہے۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ فائدہ منافع کی قیمت کا نظام خصوصی طور پر 4سے 6فیصد مالدار کسانوں کو ہوتا ہے۔ اسے اعداد وشمار سے سمجھنا ضروری ہے۔ اس لئے کچھ اعداد پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ 2013کی نیشنل سیمپل رپورٹ کے مطابق ملک کے ایک تہائی کسانوں کے پاس 0.4ہیکٹیئر سے کم زمین ہے۔ ان کی کل آمدنی کا صرف چھٹا حصہ یعنی 16فیصد ہی کھیتی سے آتا ہے اور دیگر 84فیصد مزدوری سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک تہائی کسانوں کے پاس 0.4ہیکٹیئر سے ایک ہیکٹیئر زمین ہے۔ ان کی کل آمدنی کا 40فیصد زراعت سے آتا ہے اور دیگر 60فیصد مزدوری سے آتا ہے۔ ان دونوں کو ملا دیا جائے تو کل کسان آبادی کا 70فیصد بنتا ہے۔ ان کسانوں کو فائدے کی قیمت ملتی ہی نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسان خصوصی طور سے زرعی پروڈکٹ کے خریدار ہیں نہ کہ بیچنے والے۔ نتیجتاً، فائدے کی قیمت میں ہونے والے کسی بھی اضافے سے انہیں فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ منافع کی قیمت کے بڑھنے کے ساتھ ہمیشہ ہی زرعی پروڈکٹ کی قیمتوں اور ساتھ ہی اپنے پروڈکٹ کے لئے ان پر خود انحصاری صنعتی پروڈکٹ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اعداد کے مطابق ان 70فیصد کسانوں کا اپنے اوپر ہونے والا خرچ ان کی آمدنی سے زیادہ رہتا ہے۔ نتیجتاً اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے رواں پونجی کے لئے یہ قرض پر منحصر رہتے ہیں۔ یہ قرض انہیں معاشی تنظیموں سے نہیں ملتا کیونکہ بینکوں اور دیگر معاشی اداروں کے قرض تک ان کی پہنچ ہی نہیں ہے۔ پھر اکثر مالدار کسان ہی زرعی پروڈکٹ کے تاجر اور آڑھتی بھی ہوتے ہیں اور ان غریب کسانوں کے لئے لٹیرا سود خور بھی۔ چونکہ 70فیصد بیحد غریب کسان ان کے قرض کے تلے دبا ہوتا ہے، اس لئے یہ مالدار کسان انہیں منافع کی قیمت اور بازار قیمت سے بیحد کم قیمت پر اپنے پروڈکٹ کو انہیں بیچنے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔
دوسری فکر جو کہ اس پہلے بل سے پیدا ہوئی ہے وہ آڑھتیوں کی ہے۔ پنچاب میں ہی 28ہزار سے زیادہ آڑھتی ہیں انہیں فائدے کی قیمت کے اوپر 2.5فیصد کا کمیشن ملتا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ میں اس کمیشن سے ان آڑھتیوں نے گزشتہ سال 2ہزار کروڑ روپے کمائے ہیں۔ اکثر مالدار کسان ہی آڑھتی اور وسط تاجر کے کردار میں بھی ہوتے ہیں، سود خور کے کردار میں بھی ہوتے ہیں اور پسماندہ، درمیانے و غریب کسانوں سے فائدے کی قیمت سے کافی کم قیمت پر پروڈکٹ خریدتے ہیں اور اسے فائدے کی قیمت پر بیچ کر ساتھ ہی کمیشن کے ذریعہ منافع کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومتوں کو بھی اے پی ایم سی منڈی میں ہونے والی فروخت پر ٹیکس حاصل ہوتا ہے، جیسے کہ پنجاب میں دھان اور گیہوں پر 6فیصد، باسمتی چاول پر 4فیصد اور کپاس و مکا پر 2فیصد فیس لی جاتی ہے۔ گزشتہ برس پنجاب حکومت کو اس سے 35سو سے36سو کروڑ روپے کا ریوینو حاصل ہوا تھا۔ پنجاب اور ہریانہ کی کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر وہ ریونیو حاصل نہیں ہوگا تو ریاستی حکومت گائوں کے ڈھانچے کو بہتر نہیں بنا پائے گی اور کسانوں کے لئے اپنے پروڈکٹ کی فروخت اور ٹرانسپورٹ اور بھی مشکل ہوجائے گا۔
واضح ہے کہ زراعت کی حالت میں سدھار کے بنا نہ تو ملک کی حالت میں سدھار ممکن ہے اور نہ ہی کسانوں کی حالت سدھر سکتی ہے۔ حالیہ مرکزی حکومت بھلے ہی ماڈل ولیج اور گرام وکاس کی بات تو کررہی ہے لیکن زرعی اقتصادی نظام اور پورا بازار اب کثیر ملکی کمپنیوں کے پاس چلا گیا ہے۔ دیکھتے دیکھتے سارے کسان اپنی زمین پر غلام ہوگئے، آخر کیا وجہ ہے کہ کسان زراعت سے باہر آنا چاہتے ہیں اس پر غور ہونا ہی چاہیے۔
(مضمون نگار ریسرچ اسکالر اور جرنلسٹ ہیں)