بارہ کروڑ بچے بھوکے ہیں

0

پرتبھا پانڈے
(مترجم: محمد صغیرحسین)

کورونا کی وجہ سے اسکول کیا بند ہوئے، ہندوستان کے غیرمراعات یافتہ طبقے کے طلبا مڈڈے میل سے محروم ہوگئے اور اب سوئے تغذیہ (malnourishment) کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کا مڈڈے میل(MDM) جو اسکول میں بچوں کو بلامعاوضہ لنچ دیے جانے کا پروگرام ہے، دنیا کے بڑے غریبی مخالف اقدامات میں سے ایک ہے۔ اپنی متعدد خامیوں کے باوجود، یہ پروگرام ملک کے 12کروڑ غریب ترین اسکولی طلبا کو دن کا کھانا فراہم کرتا ہے۔ 1995میں اپنے آغاز سے ہی اس کے سبب اسکولوں میں بچوں کے داخلے میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان میں، تقریباً دس کروڑ بچوں کو اسکول کے ہر دن بلامعاوضہ لنچ دیا جاتا ہے۔ یہ کھانے پروٹین کی کمی کو صدفیصد، کیلوری کی کمی کو 30%اور لوہے کی کمی کو 10%کم کرتے ہیں۔ اسکولوں میں ملنے والے مڈڈے میل کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ یہ کھانے پینے پر ہونے والے کنبے کے اخراجات کم کرکے غریبی اور ناداری سے تھوڑی راحت دلاتے ہیں۔
دیگر بحرانوں کے دوران مڈڈے میل بچوں کے لیے جاری رہا لیکن وبا کے پھیلنے کی وجہ اسکول ایک عرصۂ دراز کے لیے بند کردیے گئے جس کے نتیجے میں ساڑھے گیارہ کروڑ اسکولی بچوں کو دی جانے والی یہ سروس ٹھپ پڑگئی۔ مڈڈے میل نہ ملنے کی وجہ سے طلبا کی غذائی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہوپارہی ہیں۔ اس تعداد میں تقریباً 6کروڑ طلبا پانچ سے لے کر 13سال کی عمر کے ہیں جو پرائمری اور اپر پرائمری میں زیرتعلیم ہیں۔
نیوسائنٹسٹ(New Scientist) نامی مجلے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عالمی وبا کے سبب اسکول بند ہوجانے کے نتیجے میں مڈڈے میل بند ہوگئے۔ بچوں کی فاقہ کشی میں اضافہ ہوا اور ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد سوئے تغذیہ کے دہانے پر پہنچ گئی۔ دوردراز علاقوں میں واقع اسکولوں میں ملنے والی یہ خوراک بچوں کی صحت بخش خوراک کا واحد ذریعہ ہے۔ مڈڈے میل کی عدم دستیابی خواہ وہ عارضی کیوں نہ ہو، اسکول جانے والے بچوں کی صحت کے لیے سخت مضر ہوتی ہے اور اُن میں شدید سوئے تغذیہ پیدا کرتی ہے۔
ملک میں بچوں کی صحت کی صورت حال پہلے سے ہی دِگرگوں ہے۔ پانچ سال سے چھوٹی عمر کا ہر پانچواں بچہ اپنی لمبائی کی مناسبت سے انتہائی کم وزن ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس2018نے مذکورہ بالا اعدادوشمار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال شدید سوئے تغذیہ کی عکاسی کرتی ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اسکول بوجوہ ایک عرصۂ دراز تک بند کردیے جاتے ہیں تو 30% کنبے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کورونا وائرس نے پہلے سے بھوک کی مار جھیلتے طبقوں کو حاشیے پر کھڑا کردیا ہے۔ مارچ سے تالہ بندی اور سوشل ڈسٹینسنگ نے غیرہنر مند دہاڑی محنت کشوں اور حفظان صحت کے کارکنوں کو روزگار سے محروم کردیا ہے۔
اب جب کہ معیشت رفتہ رفتہ بحال ہورہی ہے، اس سیکٹر میں نفع بخش روزگار کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب ہے ایک غیریقینی مستقبل، کوئی یومیہ آمدنی نہیں اور گھروں میں کچھ بھی کھانے کو نہیں۔ ایسی صورت حال میں، بچوں کو اسکول میں ملنے والے لنچ سے بھی محروم کردینا بچوں کی صحت کے لیے قیامت خیز ثابت ہوگا۔ بھرپور تغذیے کے لیے ضروری مختلف اقسام کے کھانے انہیں نہیں مل پاتے۔ اسکولوں کی تالہ بندی کے بعد بچے اور اُن کے کنبے تھوڑے بہت کھانے پر گزارہ کررہے ہیں اور انہیں جو کچھ بھی کھانے کو میسر ہوتا ہے وہ تغذیے کے اعتبار سے ناقص بلکہ ناقص ترین ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو ’Lockdown hunger‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ چھٹیوں کے دوران، مڈڈے میل کے ناغوں نے بچوں کی علمی کارکردگی کو پانچ فیصد کم کردیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق، چھوٹے کھیتوں کے بازار سے جدا ہوجانے، گاؤوں میں خوراک نہ پہنچ پانے اور طبی امداد اور مڈڈے میل کے رک جانے کی وجہ سے ایک ماہ کے اندر دس ہزار سے زیادہ جانیں تلف ہوسکتی ہیں۔
وبا سے بچوں کو بچانا ضروری ہے۔ سماج کے انتہائی محروم افراد کی مناسب نگہداشت جاری رکھنی چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں، تعلیمی مواقع سے استفادہ کرتے رہیں۔ بچے جب بھوکے ہوں، سوئے تغذیہ کے شکار ہوں یا بیمار ہوں تو پھر وہ بہت زیادہ سیکھ نہیں سکتے اور یہ چیز اُن کے مستقبل کو متاثر کرتی ہے۔ حکومتوں، تنظیموں اور برادریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اجتماعی کوششوں کو تیزترکردیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہمارے بچوں کو غذا فراہم کرنے میں قرارواقعی تندہی سے کام لیا جائے گا۔ ہمیں ایک ایسے کامل حل کی ضرورت ہے جو نہ صرف صحت بخش خوراک کے ذریعہ بچوں کی صحت اور ان کے متوازن تغذیے کا ضامن ہو بلکہ جو اسکولی نظام میں عمدہ تربیت یافتہ سماجی کارکنوں، مشیروں اور کمیونٹی کو بھی شریک کریں۔
مچان (Mother And Child Health And Nutrition [MACHAN]) پروگرام کے ذریعہ غریب ترین بچوں کو خوراک اور سماجی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ یہ پروگرام تالہ بندی کے دوران اور اس کے بعد کے مہینوں میں بھی، 15 ریاستوں کے 24اـضلاع کے 200سے زیادہ آنگن واڑی مرکزوں میں جاری ہے۔ اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کی شناخت بھی سائنسی طریقۂ کار اپناتے ہوئے بچوں کی مالی حالت اور اسکول بھیجنے میں درپیش جنسی تفریق کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ ان برادریوں کو جو مخصوص طور پر غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، مقدم رکھا گیا ہے۔ مستفیدوں کو خشک راشن، طبی تعاون اور سرکار سے براہ راست جڑنے کے لیے لنکیج دیے گئے۔ شکر ہے کہ چند حکومتوں نے اسکول لنچ کے بند ہوجانے کے بعدخوراک کی فراہمی کے بارے میں سوچا اور کنبوں کو اسکول لنچ کے بدلے میں کیش ٹرانسفر کرنے کا پروگرام بنایا۔
کئی ریاستوں میں، خشک راشن بچوں کے گھروں تک پہنچانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ رضاکار، اس سلسلے میں، عوامی نظام تقسیم کے ذریعہ، اس کارخیر میں تعاون دے رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں، اسکول کھانے کے مراکز کی حیثیت سے کام کررہے ہیں جہاں سے گھر لے جانے کے لیے راشن تقسیم کیا جارہا ہے۔ آئرن، فولک ایسڈ اور کیلشیم کی گولیوں سمیت کنبوں کی تغذیائی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے ہمیں خاندان کے معاشی استحکام کو بھی یقینی بنانا چاہیے کیوں کہ بچے کی غذائی سلامتی کے لیے یہ ناگزیر ہے۔
آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ اس امر میں بھی معاون ہوگا کہ جب بچہ اپنی عمر کو پہنچے تو اسے اسکول بھیجا جائے اور مالی تنگی کے سبب اُسے مزدوری پر نہ لگایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے کسانوں، مہاجر مزدوروں، یومیہ آمدنی کرنے والے والے کنبوں کو باہنربناکر اور انہیں روزگار کے مواقع دے کر طویل مدتی بازآبادکاری کی کوششوں کو تیز تر کیا گیا ہے۔ بیجوں اور کھاد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں مناسب تربیت بھی دی جارہی ہے تاکہ انہیں آمدن کا متبادل ذریعہ حاصل ہوسکے۔ محنت کش مہاجر عورتوں کو بااختیار بنانے پر بھی توجہ درکار ہے۔ انہیں مرغ پروری(Poultry farming) کے کاموں میںشامل کیا جارہا ہے۔ یہ ان کے لیے مالی طور پر خودکفیل بننے کی راہ ہموار کرے گا۔ جب تک مڈڈے میل ازسرنو شروع نہیں ہوتے، ہمیں حاشیے پر کھڑے کنبوں کو معاشی اور تغذیائی تحفظ دینے کے لیے اجتماعی طور پر نت نئے حل تلاش کرنے ہوں گے۔ اور تب ہی ہندوستان سوئے تغذیہ کے بارگراں کو کم کرنے میں کامیاب ٹھہرے گا۔
(بشکریہ: دی پائنیر)
(مضمون نگار چائلڈ فنڈ انڈیا میں ماہرصحت ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS