روایتی ’پانی کی تجوریاں‘ ہی بچا سکتی ہیں پانی کے بحران سے

0

پنکج چترویدی

اس سال موسم سے متعلق ساری پیشین گوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ جب شدید گرمی کا اندیشہ تھا تو ویشاکھ کے مہینے میں ساون جیسی جھڑی لگ گئی ہے۔ شبہ ہو رہا ہے کہ کہیں اب گرمی اور برسات کا حساب کچھ گڑبڑا نہ جائے۔ سمجھ لیں کہ کسی سال بارش کا روٹھ جانا تو کبھی زیادہ ہی برس جانا آب و ہوا میں تبدیلی کے دن بہ دن بڑھ رہے خطرے کا فطری نتیجہ ہے اور ہندوستان اب اس کی زبردست زد میں ہے۔ اس بار اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی ہمیشہ بہنے والی گنگا گھاٹوں سے دور ہو گئی ہے۔ پریاگ راج ہو یا پھر پٹنہ ہر جگہ گنگا میں ٹاپو نظر آ رہے ہیں۔ زیادہ تر چھوٹی ندیاں سوکھ گئی ہیں اور اس کا راست اثر تالاب، کنوؤں، باؤلیوں پر نظر آ رہا ہے۔ اسکائی میٹ کے مطابق ہر سال ملک میں معمول کے مطابق یعنی کوئی 96 فیصد برسات کا اندازہ ہے۔ لیکن پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور اترپردیش میں سیزن کی دوسری ششماہی کے دوران معمول سے کم بارش ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس دوران بے موسم بارش اور ژالہ باری نے ہندوستان کے زرخیر شمالی، وسطی اور مغربی میدانی علاقوں میں گیہوں جیسی فصلوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے ہزاروں کسانوں کو نقصان ہوا ہے۔ ہندوستان کے تقریباً آدھے سے زیادہ کسان اپنے کھیت میں چاول، مکئی، گنا، کپاس اور سویابین جیسی فصلوں کو اگانے کے لیے سالانہ جون-ستمبر بارش پر انحصار کرتے ہیں۔ اسکائی میٹ کو خدشہ ہے کہ ملک کے شمالی اور وسطی حصوں میں بارش کی کمی کا خطرہ برقرار رہے گا۔ اپریل کے آخر میں مرکزی حکومت کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ محفوظ آبی ذخائر کی سطح بہت کم ہے۔ شمالی زون میں، جس میں ہماچل پردیش، پنجاب وغیرہ ریاستیں آتی ہیں، 10 آبی ذخائر کی کل اسٹور کرنے کی صلاحیت کا محض 38 فیصد پانی ہی بچا ہے۔ مشرقی ہندوستان کے 21 آبی ذخائر میں 34 فیصد، مغربی ژون کے 49 آبی ذخائر میں 38 فیصد، وسطی ہندوستان کے 26 آبی ذخائر میں 43 اور جنوب کے 40 آبی ذخائر میں صرف 36 فیصد پانی بچا ہے۔ ابھی ہندی پٹی میں برسات ہونے میں کم سے کم 100 دن ہیں اور جان لیں کہ اگلے پندرہ دنوں میں ہی پانی کا بحران ہر دن گہرا ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے ملک کی قسمت ہے کہ تھوڑا زیادہ بادل برس جائیں تو اس کے سمیٹنے کے وسائل نہیں بچتے اور کم برس جائیں تو ایسا ریزرو اسٹاک نہیں نظر آتا جس سے کام چلایا جاسکے۔ تجربات سے یہ تو واضح ہے کہ بھاری بھرکم بجٹ، راحت، ٹیوب ویل جیسے الفاظ پانی کے بحران کا حل نہیں ہیں۔ کروڑوں-اربوں کی لاگت سے بنے ڈیم سو سال بھی نہیں چلتے، جبکہ ہمارے روایتی علم سے بنے آبی ڈھانچے بری طرح نظراندازکیے جانے، لاپروائی کے باوجود آج بھی پانی سے بھرے ہیں۔ اگر ہندوستان کی دیہی زندگی اور کھیتی کو بچانا ہے تو بارش کی ہر بوند کو سنبھالنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہی ہمارے آبا و اجداد کی روایت بھی تھی۔
بندیل کھنڈ میں کروڑوں کے راحت پیکیج کے بعد بھی پانی کی قلت کی وجہ سے مایوسی، نقل مکانی و بے بسی کا عالم ہے۔ ملک کے بہت بڑے حصے کے لیے کم بارش نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی وہاں کے معاشرے کے لیے کم پانی میں گزارا کرنا، لیکن گزشتہ پانچ دہائی کے دوران جدیدیت کی آندھی میں دفن ہوگئے ہزاروں چندیل-بندیلا قدیم تالابوں اور روایتی پانی کے نظام کی وجہ سے یہ حالات بنے۔ مدھیہ پردیش کے تین لاکھ کی آبادی والے برہانپور شہر میں تقریباً 18 لاکھ لیٹر پانی روزانہ ایک ایسے نظام کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے جس کی تعمیر 1615میں کی گئی تھی۔ یہ نظام پانی کو محفوظ کرنے اور تقسیم کی دنیا کی عجوبی مثال ہے، جسے ’بھنڈارا‘ کہا جاتا ہے۔ آب و ہوا کی جس تبدیلی کے عالمی بحران کے سامنے جدید تکنیک بے بس نظر آتی ہے، ہمارے آبا و اجداد ہزاروں سال پہلے اس سے واقف تھے اور انہوں نے ملک کے حالات کے مطابق بارش کو سمیٹ کر رکھنے کے نظام ڈیولپ اور محفوظ کیے تھے۔ گھروں کی ضرورت یعنی پینے کے پانی اور کھانا بنانے کے لیے میٹھے پانی کا وسیلہ کنواں کبھی گھر آنگن میں ہوا کرتا تھا۔ امیر لوگ عوام کے لیے کنویں بنواتے تھے۔ ہریانہ سے مالوا تک جوہڑ یا کھال زمین کی نمی برقرار رکھنے کے قدرتی ڈھانچے ہیں۔ یہ عام طور پر بارش کے پانی کے بہاؤ کی جگہ پر پانی روکنے کے قدرتی اور مصنوعی ڈیم کے ساتھ چھوٹے تالاب کی مانند ہوتے ہیں۔ تیز ڈھالان پر تیزی سے پانی کے بہہ جانے والے زیرزمین پانی کی دھارا کو کاٹ کر روکنے کا طریقہ ’’پاٹ‘‘ پہاڑی علاقوں میں بہت مقبول رہا ہے۔ ایک نہر یا نالی کے ذریعے کسی پکے ڈیم تک پانی لے جانے کا نظام ’’ناڑہ یا بندھا‘‘ اب دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ کنڈ اور باؤلیاں پانی کو محفوظ کرنے کا محض وسیلہ نہیں، بلکہ ہمارے فن تعمیر کا بہترین نمونہ رہے ہیں۔ انڈور میں ایک ایسی ہی پانی سے بھری باؤلی پر غیرقانونی طریقے سے بنے مندر کے دھنسنے سے 50 سے زیادہ لوگ کیا ہلاک ہوئے، حکومت نے اس باؤلی کو ہی مٹی سے بھر دیا جبکہ آج ضرورت ہے کہ ایسے ہی روایتی نظاموں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے خاص اسکیم بنائی جائے اور اس کی ذمہ داری مقامی معاشرے کی ہی ہو۔یہ ملک-دنیا جب سے ہے تب سے پانی ایک لازمی ضرورت رہی ہے اور کم برسات، صحرا جیسا عدم توازن فطرت میں موجود رہا ہے- یہ تو گزشتہ دو سو سال میں ہی ہوا کہ لوگ بھوک یا پانی کی وجہ سے اپنے پشتینی گھروں- پنڈوں سے نقل مکانی کر گئے۔ اس کے پہلے کا معاشرہ تو پانی کے ہر طرح کے بحران کا حل رکھتا تھا۔ ابھی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گھروںکے آنگن، گاؤں کے پنگھٹ اور قصبات کے عوامی مقامات سے کنویں غائب ہوئے ہیں۔ باؤلیوں کو ہضم کرنے کا کام بھی آزادی کے بعد ہی ہوا۔ ہمارا قدیم معاشرہ گرمی کے چار مہینوں کے لیے پانی جمع کرنے اور اسے کفایت سے خرچ کرنے کو اپنی ثقافت سمجھتا تھا۔ وہ اپنے علاقے کے موسم، موسمیاتی سائیکل، زیرزمین، زمین کی ساخت، پانی کی مانگ اور سپلائی کا حساب بھی جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کب کھیت کو پانی چاہیے اور کتنا مویشیوں کو اور کتنے میں گلاتر ہو جائے گا۔ آج بھی ملک کے قصبات-شہروں میں بننے والی عوامی اسکیموں میں پانی کی کھپت اور حصول کا یہ حساب کوئی نہیں کرپاتا ہے جو ہمارا پرانا معاشرہ جانتا تھا۔
راجستھان میں تالاب، باؤلیاں، کُئی اور جھالار صدیوں سے خشک سالی کا سامنا کرتے رہے۔ ایسے ہی کرناٹک میں کیرے، تمل ناڈو میں ایری، ناگالینڈ میں جوبو تو لیہ-لداخ میں جنگ، مہاراشٹر میں پیٹ، اتراکھنڈ میں گل، ہماچل پردیش میں کُل اور جموں میں کُہال کچھ ایسے پانی کو ذخیرہ کرنے کے روایتی طریقے تھے جو جدیدیت کی آندھی میں کہیں گم ہو گئے اور اب آج جب پاتال کا پانی نکالنے اور ندیوں پر ڈیم بنانے کی کوشش ناکام ہوتی نظر آرہی ہے تو پھر ان کی یاد آرہی ہے۔ گجرات کے کچھ کے رن میں روایتی مالبردار لوگ کھارے پانی کے اوپر تیرتی بارش کی بوندوں کے میٹھے پانی کو ’وِردا‘ کے استعمال سے محفوظ کرنے کا فن جانتے تھے۔ سند رہے کہ اس علاقے میں بارش بھی بہت کم ہوتی ہے۔ ہِم-ریگستان لیہ-لداخ میں صبح برف رہتی ہے اور دن میں دھوپ کی وجہ سے کچھ پانی بنتا ہے جو شام کو بہتا ہے۔ وہاں کے لوگ جانتے تھے کہ شام کو مل رہے پانی کو صبح کیسے استعمال کیاجائے۔
تمل ناڈو میں ایک پانی کی ندی یا دھارہ کو کئی کئی تالابوں کی طرف موڑ کر ہر بوند کو بڑی ندی اور وہاں سے سمندر میں ضائع ہونے سے روکنے کی انوکھی روایت تھی۔ شمالی اراکوٹ اور چینگل پیٹ ضلع میں پلار اینی کیٹ کے ذریعے اس ’’پَدھّتی تالاب‘‘ نظام میں 317 تالاب جڑے ہوئے ہیں۔ پانی کی وجہ سے نقل مکانی کے لیے بدنام بندیل کھنڈ میں بھی پہاڑی کے نیچے تالاب، پہاڑی پر ہریالی والا جنگل اور ایک تالاب کے ’’اونے‘‘ (اضافی پانی کی نکاسی کے منہ) سے نالی نکال کر اسے اس کے نیچے زمین پر بنے دوسرے تالاب سے جوڑنے اور ایسے پانچ پانچ تالابوں کی قطار بنانے کی روایت 900 ویں صدی میں چندیل راجاؤں کے دور سے رہی ہے۔ وہاں تالابوں کے اندرونی جڑاؤ کو توڑا گیا، تالاب کے بندھان پھوڑے گئے، تالابوں پر کالونی یا کھیت کے لیے قبضے ہوئے، پہاڑیاں توڑ دی گئیں، درخت اُجاڑ دیے گئے۔ اس کی وجہ سے جب جل دیوتا روٹھے تو پہلے نل، پھر ٹیوب ویل کے ٹوٹکے کیے گئے۔ سبھی طریقے جب مایوس کن رہے تو آج پھر تالابوں کی یاد آرہی ہے۔
پانی کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا تو ضروری ہے ہی ، آسمان سے گری ہر بوند کو سنبھال کر رکھنے کے لیے پانی کو محفوظ رکھنے کے ہمارے روایتی نظام کو زندہ کرنا بھی لازمی ہے۔ یہ نظام محض پانی نہیں سنبھالتے، زمین کے بڑھتے درجۂ حرارت کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ ہریالی، مویشیوں کے لیے چارہ، خوراک کے لیے مچھلی اور پانی کے دیگر پھلوں کی شکل میں تو ان سے فیض پہنچتا ہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS