ایم اے کنول جعفری
نوکری پیشہ ملازمین میں کام کی تھکان اور ٹینشن کے معاملات بڑھنے سے نہ صرف نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے،بلکہ نوکری سے سبکدوش ہونے کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اُن میں مہلک مرض کینسر ہونے کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔’انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ‘(آئی سی ایم آر) نئی دہلی کی ایک تحقیق میں ایک تہائی ملازمین ’میٹا بولک سنڈروم ‘میں مبتلاپائے گئے ہیں۔ طبی اصطلاح میںکسی بیماری میں اجتماعی علامات کی تبدیلی یاایک حالت سے دوسری حالت میں پہنچ کر شکل و صورت اور خاصیت کے تبدیل ہونے کو ’میٹا بولک سنڈروم‘ کہا جاتا ہے۔یہ ایک ایسی حالت ہے،جو اگر45برس سے کم عمر والے کسی ملازم میں پائی جاتی ہے تو65سال کی عمر پوری ہوتے ہوتے اُس میں کینسر کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتاہے۔ آئی سی ایم آر کے تحت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف نیوٹریشن نے 3بڑی انفارمیشن ٹیکنالوجی( آئی ٹی) کمپنیوں میں کام کرنے والے ایسے نوجوانوں کا مطالعہ کیا ہے،جن میں تقریباًسبھی کی عمریں 30برس سے کم تھیں۔جانچ میں44.02فیصد ملازمین زیادہ وزن والے اور 16.85فیصد موٹاپے کے شکار پائے گئے۔ 3.89 فیصدافراد میں ذیابیطس پائی گئی، جبکہ 64.93 فیصد ملازمین میں کولیسٹرول کی مقدار کافی بڑھی ہوئی ملی۔ اس کا سیدھامطلب یہ ہوا کہ اُن ملازمین میں ہر دوسرا ملازم یا تو بہت زیادہ وزن والا ہے یا پھر پوری طرح سے موٹاپے کا شکار ہے۔
’میٹابولک سنڈروم‘ کوئی بیماری نہیں ہے۔یہ ایک حالت ہے، جس میںجسم کے اندر بیماریوں کے اسباب بڑھ جاتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ شگر، ہائی ٹرائگلیسرائیڈ، موٹاپا،پیٹ کی چربی اور بے قابو کولیسٹرول کی مشترکہ شکل کو میٹابولک سنڈروم مانا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر شریانوں میں تختی کی تشکیل کے نتیجے میں ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال کو ایتھرواسکلیروسیس کہا جاتا ہے۔ لپڈس، چکنے پٹھوں کے خلیے،میکوفیز فوم سیل اور دیگر کیمیکل شریان کی دیواروںکے تحت کام کرتے ہیں۔ اس سے شریانیں مسدود اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس کے نتیجے میں دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر فالج ہوجاتاہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ میٹابولک سنڈروم عام طور پر طرز زندگی میں تبدیلیوں اور بہتر خوراک کے ساتھ منظم کیا جاسکتا ہے۔ میٹابولک سنڈروم کے مریضوں میں باڈی ماس انڈیکس(بی ایم آئی) اور کمر کا دائرہ دونوں زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ہائی ٹرائگلیسرائیڈ لیول،ایچ ڈی ایل کولیسٹرول کی کم مقدار یا روزہ رکھنے والے شخص کے خون میں شوگر کی سطح کا زیادہ ہونا ہائی بلڈ پریشر کی علامات ہیں۔ اسین تھوسس نائی گریکینس انسولین کے خلاف مزاحمت کی علامت میں گردن اور بغلوں جیسی سلوٹوں میں جلد کا سیاہ ہونا شامل ہے۔ میٹا بولک سنڈروم جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل دونوں کی وجہ سے ہوتاہے۔ اسے موٹاپے، بیٹھے رہنے والی طرز زندگی اور انسولین کے خلاف مزاحمت سے بھی جوڑکر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر، ٹائپ2 ذیابیطس، دل کی ابتدائی بیماری کی خاندانی تاریخ،جسمانی غیر فعالیت، بڑھاپا، شوگر سے بھرپور غذا، تناؤ، حمل کے دوران ذیابیطس، حیض کا رکنا، بیڑی، سگریٹ، تمباکو اور شراب نوشی، باڈی ماس انڈیکس(بی ایم آئی)25سے زیادہ ہونا، غیرفعال رہن سہن اور زیادہ چکنائی والی خوراک میٹابولک سنڈروم کی علامتیں ہیں، اس لیے اگر کسی ملازم یا فرد کو میٹا بولک سنڈروم کی کوئی علامت ہے یا پھر اس کے ہونے کا خطرہ ہے تو اس بابت ڈاکٹر یا طبیب سے بات کرنی چاہیے۔اسی طرح اگرکسی خاندان میں کسی شخص کو دل کی بیماری،فالج،ابتدائی قلبی موت، موٹاپا یا ذیابیطس کی تاریخ ملتی ہے تو طبی مشورہ لینا بہتر ہے۔میٹابولک سنڈروم سے ہونے والی بیماریوں میں ذیابیطس کے تحت شریانوں میں سختی، اسٹروک،دل کا دورہ جیسی پیچیدگیاں اکثر شدید اور دائمی ہوتی ہیں۔اگر کسی کو ذیابیطس ہوجاتی ہے تو صحت کے دیگر مسائل میں آنکھ کا نقصان(ریٹینو پیتھی)، اعضا کا کٹ جانا،اعصابی نقصان (نیوروپیتھی) اور گردے کی بیماری کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے طرززندگی میں تجویز کردہ تبدیلیاں لانی ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ جسمانی وزن کو کم کرنے اورصحت مند جسمانی وزن برقرار رکھنے سے بلڈ پریشر، انسولین کے خلاف مزاحمت اور ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیلوری والی صحت مند غذا، ٹرانس فیٹ،سیچوریٹیڈ فیٹ، کولیسٹرول، کم سوڈیم،تازہ پھل،سبزیاں، سالم اناج، سفید گوشت اور مچھلی کو غذا میں شامل کرنے کے علاوہ روزانہ کم سے کم 30منٹ کی اعتدال پسند ورزش بھی ضروری ہے۔
شراب اور الکحل والے مشروب میٹابولک سنڈروم کے خطرے کو60فیصد تک بڑھاتے ہیں۔ میٹابولک سنڈروم کے خطرے والے افراد کو ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر جیسے حالات کی طرح تجویز کردہ دوا لینی چاہیے۔اس کی تشخیص آسان اورخاص معیار پر مبنی ہے۔ایک معمول کے طبی معائنے میں خون ٹیسٹ اورجسمانی معائنے کے علاوہ میٹا بولک سنڈروم کے اجزا کی اسکریننگ بھی کی جانی چاہیے۔ باقاعدگی سے جانچ اور احتیاط برتنے سے سنڈروم کے ابتدائی اشارے کا پتہ لگنے کا امکان ہے۔اگر مردوں کی کمر کم سے کم102سینٹی میٹر اور خواتین کی89سینٹی میٹر ہے یا بلڈ پریشر 130/85 ایم ایم ایچ جی یا اس سے زیادہ ہے یا بلڈ شوگر کی سطح150ملی گرام؍ڈی ایل سے زیادہ ہے یا روزے کے دوران خون میں شوگر کی سطح100 ملی گرام؍ڈی ایل سے زیادہ ہے یا اعلیٰ کثافت لیپو پروٹین کی سطح مردوں میں40اور عورتوں میں50 سے کم ہو تو یہ سنڈروم کی علامتیں ہیں۔ دفاتر، فیکٹریوں اور کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین صبح سے شام تک ایک ہی اسٹائل میں کام کاج کرتے ہیں۔دن بھر بیٹھے رہنے، ورزش اورجسمانی کام نہیں ہونے سے جسم تھکان محسوس کرتا ہے۔ روزمرہ کے دیگر کام، اخراجات، خوراک میں غذائیت کی کمی، بیوی کی فرمائشیں، بچوں کی فیس، کتابیں اور یونیفارم کے علاوہ کئی دیگر تفکرات گھر پر بھی سکون سے نہیں رہنے دیتے۔دکھاوٹی خوشی،شوق،دوسروں کی برابری کا نشہ اور فالتو کی ضروریات پورا کرنے کے لیے سود پر قرض انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ان حالات میں تناؤ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور نوجوان کو میٹابولک سنڈروم اپنی گرفت میں لے لیتا ہے،جو بڑھاپے تک بھی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا۔ تحقیق کاروں کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس پروسیس آؤٹ سورسنگ(بی پی او) جیسے شعبوں میں سب سے زیادہ نوجوان ملازمت کرتے ہیں،لیکن کام کرنے کی جگہوں کا کھانا، جنک فوڈ اور عوامی ماحول ان کے موٹاپے اور غیرصحت مند ماحول کا باعث بن رہاہے۔ اس تحقیق کو طبی جریدے ’ایم ڈی پی آئی‘ میں ’ پیشہ ورانہ صحت پرامراض اور غذائیت کے عوارض کے اثرات‘ عنوان سے شائع کیاگیا ہے۔
نیشنل نیوٹریشن انسٹی ٹیوٹ کی سینئر محقق پرمیتابنرجی کے مطابق اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان آبادی ہندوستان میں ہے۔ یہی آبادی اگلے 20سے25برس بعد بزرگ عمر میں بھی آنے والی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں کی موجودہ حالت ان کے بڑھاپے کی عمر میں انہیں کافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں خاص طور پر30سے35برس کے نوکری پیشہ زمرے کے لوگوں کو اپنے رہن سہن،دفتر اور کام کو بہتر طریقے سے منظم کرنے کی کوشش کریں۔ میٹا بولک سنڈروم کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سگریٹ یا تمباکو مصنوعات کے استعمال کو ترک کرکے صحت مند وزن برقرار رکھا جائے۔ صحت مند غذائیں استعمال کریں اور جسمانی طور پر ایکٹو رہیں۔خوراک میں تھوڑا سا نمک، معمولی شکر، ٹھوس چکنائی اور موٹا اناج صحت کے لیے مفید ہیں،لیکن اس بابت صحیح مشورہ غذائی ماہرین سے لینا زیادہ سودمند ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]