یکطرفہ فکر کی جدت مشرق وسطی میں امن کی ضامن نہیں

0

محمد حنیف خان

مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے لئے خواہ کتنا بھی جذباتی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کا ایک مستحکم وجود ہوچکا ہے،جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔بارہ برس کے بعد وہاں حکومت میں تبدیلی آئی ہے۔ بنجامن نتن یاہوکو اقتدار سے ہٹنا پڑا ہے اور ان کی جگہ نفتالی بینٹ اس عہدے پر متمکن ہوئے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ حکمراں کی تبدیلی کے بعد خاص طور پر مسلمانوں میں نہ صرف چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں ہیں بلکہ خوشی کا ماحول دیکھا جا رہا ہے جس کی سب سے اہم وجہ نتن یاہو کا فلسطینیوں پر ظلم ہے۔نتن یاہونے اپنے دور اقتدار میں فلسطینیوں کو بری طرح سے کچلا مسلا اور ان کو بے گھر کیا۔اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عملی جامہ پہنایا ۔اس لئے وزارت عظمی سے ہٹنے پر لوگ خوش ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسرائیل میں کسی بھی عہدے پر کوئی بھی شخص متمکن ہوجائے اس کی پالیسیوں پر کسی طرح کی ضرب نہیں آتی ہے بلکہ روز بروز اس میں سختی ہی نظر آتی ہے۔اسرائیل واحد ایک ایسی ریاست ہے جو جمہوریت کے قالب میں خالص مذہبی ہے۔صہیونیت جس کی بنیاد ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ظالم ریاست ہے جو بے دردی سے عورتوں بچوں اور بزرگوں کا قتل کرتی ہے اور اس پر کبھی اس کو پشیمانی نہیں ہوتی ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ صہیونیت ہے کیونکہ اس فکر میں یہودیوں کو اہمیت حاصل ہے،اس کے لئے دنیا کا ہر مذہب ہیچ ہے اور یہودیوں کے سوا سبھی انسان کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ نفتالی تن تنہا جیت کر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں نہیں آئے ہیں بلکہ نتن یاہو کو چھوڑ کر اکثر و بیشتر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے وہ اس کرسی تک پہنچے ہیں جس میں سخت گیر یہودیوں کے ساتھ ہی دائیں اور بائیں بازوکی بھی پارٹیاں ہیں ان میں ایک مسلم عرب پارٹی ’رام ‘(Raam)بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسرائیل کی حکومت میں کوئی عرب پارٹی شامل ہوئی ہو جس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں جا سکتا تھا۔

اسرائیل کا نیاوزیر اعظم نفتالی بینٹ نہ صرف سخت گیر یہودی ہے بلکہ مذہبی معاملات میں نتن یا ہو سے کہیں زیادہ متشدد ہے۔ نفتالی بینٹ پہلے نتن یاہو کا دست راست تھا مگر عالمی برادری کے سامنے کچھ معاملات میں جھکنے اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں اس کی نظر میں سستی اور تاخیر کی بنا پر وہ اس سے الگ ہو گیا تھا۔بارک اوباما کے دور میں ان کے دباؤ کی وجہ سے یہودی بستیوں کی آبادکاری میں تاخیر کے قدم کی نفتالی نے نہ صرف سخت مخالفت کی تھی بلکہ ناراض ہو کر نتن یاہو سے دوری اختیار کر لی تھی ۔نفتالی بینٹ فلسطین کی آزادی کا مخالف اور مغربی کنارے پر قبضے والی اراضی کو فسلطینیوں کو واپس کرنے کا حامی نہیں ہے۔ مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی آباد کاری کا خواہاں یہ شخص فلسطینیوں کو زندگی کا حق دینے کا بھی روادار نہیں ہے۔اکثر و بیشتر ممالک اس طرح کی پالیسیوں کو ہی امن کی راہ میں رکاوٹ مانتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ایسا شخص اگر اسرائیل میں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوا ہے تو مشرق وسطی میں امن کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔نفتالی بینٹ نے اپنے عہدے کا حلف لینے کے بعد جو سب سے پہلا خطاب کیا، اس میں اعلان کیا کہ وہ ایران کو ایٹمی طاقت کسی قیمت پر نہیں بننے دیں گے۔اس کی ذہنیت اور پالیسیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ نفتالی تن تنہا جیت کر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں نہیں آئے ہیں بلکہ نتن یاہو کو چھوڑ کر اکثر و بیشتر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے وہ اس کرسی تک پہنچے ہیں جس میں سخت گیر یہودیوں کے ساتھ ہی دائیں اور بائیں بازوکی بھی پارٹیاں ہیں ان میں ایک مسلم عرب پارٹی ’رام ‘(Raam)بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسرائیل کی حکومت میں کوئی عرب پارٹی شامل ہوئی ہو جس کے بارے میں کبھی سوچا نہیں جا سکتا تھا۔یہ دونوں طرف سے ایک تجربہ ہے۔اس سے قبل اسرائیل خود عربوں کو اپنی حکومت میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا جس کے لئے جمہوریت کے باوجود طرح طرح کی چالیں چلی گئی تھیں تاکہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں عربوں کی موجودگی نہ رہے اور خود عرب بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ اسرائیلی حکومت کا حصہ بنیں کیونکہ وہ یہودیوں کو قابض و غاصب تصور کرتے تھے ۔کوئی عرب بطور اسرائیلی اپنی شناخت نہیں کرانا چاہتا تھا مگر اب دونوں طرف سے تجربہ کیا گیا ہے۔اس تجربے کو مشرق وسطی میں امن اور روشنی کے روزن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔روزنامہ ’ہارٹز‘ سے وابستہ ایک صحافی انشیل ففر نے حزب مخالف کے لیڈر یائر لاپیڈ کے ذریعہ صدر روئن رولن کو حکومت کی تشکیل کے سلسلہ میں مطلع کرنے سے چند گھنٹے قبل ایک ٹوئیٹ کیا تھا جس میں کہا تھا’’آج رات حکومت تشکیل ہونے کے دنوں میں چاہے کچھ بھی ہو یہ ایک تاریخی تصویر ہے، ایک عرب اسرائیلی پارٹی کے لیڈر اور یہودی راشٹر وادی پارٹی کے لیڈر ایک ساتھ حکومت میں شامل ہو نے کے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔‘‘ان کے اس ٹوئیٹ میں کم از کم اس تبدیلی پر خوشی اور اس کے تاریخی ہونے کا اظہار ضرور موجود ہے۔ یقینا یہ تاریخی ہے مگر فلسطین اور پورے مشرق وسطی میں اس اتحاد سے امن کا دروازہ کھلے گا اس کی نفی موجودہ وزیر اعظم نفتالی بینٹ کا ماضی کر رہا ہے۔
اسرائیل میں بھی اس معاہدے کو لے کرجوش وخروش دیکھا جا رہا ہے۔میڈیا میں بھی موضوع بحث ہے ۔در اصل اسرائیلی عرب لیڈر ڈاکٹر منصور عباس ایک ایسے عربی کی نمائندگی کر رہے ہیں جو بیسیوں کے بجائے اکیسیوں صدی کا ہے،جس نے اپنے دل و دماغ سے نہ صرف اسرائیل دشمنی کو نکال کر پھینک دیا ہے بلکہ وہ اپنی شناخت بطور اسرائیلی کرانے میں کسی طرح کی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ہے۔اس کے برعکس فلسطینی عرب آج بھی اسرائیل کو ایک بیہمانہ ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ اسرائیل ان کے ساتھ یہی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ منصور عباس اور ان جیسے افراد کا ماننا ہے کہ اسرائیل کی حکومت میں داخل ہو کر عربوں کے لئے مراعات حاصل کی جائیں۔ یہاں پر بھی دو ذہنیتوں اور فکر کا ٹکراؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک وہ جو ظاہر و باطن کسی طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ہے ، اسرائیل کو ایک غاصب ریاست مانتے ہوئے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی ہر سطح پر مخالفت کرتی ہے دوسری ذہنیت وہ ہے جس کی نمائندگی منصور عباس کر رہے ہیں وہ اسرائیل کے وجود کو ہر سطح پر تسلیم کر رہے ہیں اور عربوں کے ساتھ ریاست کی ناانصافی کو ریاست کا حصہ بن کر ختم کرنا چاہتے ہیں۔
ذہنیتوں میں اس تبدیلی کو دونوں طور سے دیکھا جا سکتا ہے ایک ماضی اور تاریخی تناظر میں ۔دوسرے حال اور بدلتی دنیا کے پس منظر میں۔تاریخی تناظر میں اگر اس کو دیکھیں تو اسرائیل کو غاصب ریاست تسلیم کرنے والے لوگ اپنی جگہ پر درست ہیں،ان کو اپنی زمین سے نہ صرف پیار ہے بلکہ اس کی مشعل کو اپنے دلوں میں جلائے رکھنا چاہتے ہیں،وہ القدس کو اپنے عزوشرف کا ذریعہ تصور کرتے ہیں ،ان کا ماننا ہے کہ آج نہیں تو کل کوئی صلاح الدین پیدا ہوگا جو القدس کو یہودیوں کے شکنجے سے آزاد کرائے گا۔جنگ کے دنوں میں ایسی تصویریں خاص طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے ان کے جذبے اور ان کا اندرون جھلکتا ہو ا نظر آتا ہے۔مگر وہ لوگ جو اسرائیل کا وجود تسلیم کرتے ہیں وہ نئی ذہنیت کے حامل ہیں ،ان کا ماننا ہے کہ صرف دل میں نفرت پالنے سے حقیقت بدلنے والی نہیں ہے ،وہ دشمن کے ساتھ مل کر زندگی جینے کا حق لینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہادر قومیں چند روزہ سکون کی زندگی پر اپنے ماضی اور اپنے پورے وجود کو گروی نہیں رکھنا چاہتی ہیں بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آزاد ہوں ،ان کی سر زمین غاصبوں سے آزاد ہو اور القدس میں آزادی کے ساتھ ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں گونجیں۔اگر دنیا کے مسلمانوں کی فکر اور ان کی ذہنیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو اول الذکر کی اکثریت ہوگی۔اقتدار میں خواہ پہلی بار ایک عرب پارٹی شامل ہوگئی ہو لیکن اس سے اسرائیلی سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہونے والا نہیں ہے،نہ ہی فلسطین سے متعلق اس کی پالیسیوں میں تبدیلی ہونے والی ہے ۔نفتالی بینٹ اگر چہ اتحاد کے ساتھ اقتدار میں آئے اس کے باوجود وہ صرف خود کو اقتدار میں رکھنے کے لئے اسرائیل کی بنیادی پالیسیوں اور ’گریٹر اسرائیل ‘کے منصوبے سے انحراف نہیں کر سکتے ہیں ۔جس کی وجہ سے مشرق وسطی میں امن کا امکان بھی معدوم ہی رہے گا۔اس لئے القدس سے محبت کی شمع دلوں میں جلائے رکھنے والے اور آزادی کے متوالے افراد نئی فکر کے حاملین سے زیادہ بہتر تصور کئے جائیں گے۔کیونکہ ان کی فکر میں صلابت ،گہرائی اور استحکام ہے اور وہی فکر قوموں کو زندہ رکھ سکتی ہے جس کی بنیادیں گہری ہوں۔نئی فکر ،نئی سوچ کی صرف اس لئے تعریف نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ نئی ہے اورزمانے کا ساتھ دینے والی ہے بلکہ اس میں جدت کے ساتھ ہی اپنے اطراف کو متاثر کرنے کی طاقت کا بھی ہونا ضروری ہے جو ڈاکٹر منصور عباس اور ان جیسے افراد کی فکر کا وصف نہیں ہے کیونکہ ان کی فکر میں تبدیلی کے ساتھ ہی اسرائیل کی فکر میں بھی تبدیلی ہونی چاہئے تھی مگر اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS