’ون نیشن ون الیکشن ‘کی تجویز نئی نہیں ہے ،البتہ اس پر کام اب شروع کیا جارہا ہے۔ اس پر بیان بازی پہلے بھی ہوتی تھی اور اب کمیٹی کی تشکیل کے بعد کچھ زیادہ ہی ہورہی ہے۔ جو پارٹیاں مرکزی سرکار کی حمایت کرتی رہی ہیں ، وہ اس کی حمایت کررہی ہیں،چاہے وہ سرکار میں شامل ہوں یا نہ ہوں اور جو پارٹیاں سرکار کی مخالفت کرتی رہی ہیں ، وہ اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ سیاسی لیڈروں اورپارٹیوں کے بیانات دونوں طرح کے آرہے ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد سے مسلسل 4بار 1952,1957,1962 ,1967 میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوچکے ہیں ، یعنی اس وقت تک’ ایک ملک ایک الیکشن ‘ کانظام عملی طور پر رائج تھا ، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ یہ نظام آگے جاکر ختم ہوجائے گا، ورنہ آئین میں اس نظام کو ختم کرنے اورلوک سبھا واسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ کرانے کی گنجائش نہیں ہوتی ۔سال 1968-69میں کچھ ریاستوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اور 1971میں لوک سبھا انتخابات پہلے کرالئے گئے اوراسمبلیوں کو ان کی میعاد پوری کرنے کیلئے چھوڑدیا گیا ، جس کی وجہ سے لوک سبھا اوراسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ کرانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اب تو حال یہ ہے کہ ہر 3-4مہینے کے بعد ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں الیکشن ہوتا رہتاہے ۔بیچ میں راجیہ سبھا اورایم ایل سی کے انتخابات ہوجاتے ہیں ۔ بلدیاتی اورپنچایت انتخابات الگ ہیں۔ اس طرح سال بھر ملک میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی الیکشن ہوتا رہتا ہے ۔ الیکشن کمیشن اورانتظامی افسران سال بھر انتخابات میں مصروف رہتے ہیں ۔سیاسی پارٹیاں اورلیڈران بھی انتخابی مہم چلاتے رہتے ہیں ۔اگر 1968-69میں الگ سے اسمبلی الیکشن نہ کرانے کا کوئی انتظام کرلیا جاتا تو آج پھر سے ’ون نیشن ون الیکشن ‘ کی بحث شروع کرنے کی نوبت نہیں آتی ۔
جہاں تک ’ون نیشن ون الیکشن ‘کی تجویز کی بات ہے تو سب سے پہلے لاء کمیشن نے 1990 میں اپنی ایک رپورٹ میں اس کی سفارش کی تھی،لیکن اس پر کسی نے توجہ نہیں دی اور وہ سفارش فراموش کردی گئی ، جب وزیراعظم نریندر مودی نے کئی مواقع پر اس کی پرزور وکالت کی ، حتی کہ ایک بار اس پر کل جماعتی میٹنگ بھی طلب کی ، جس میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا ، تاہم یہ معاملہ موضوع بحث ضرور بن گیا ۔اب تو بات کافی آگے بڑھ گئی ہے۔ سرکار نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سربراہی میں اس کا جائزہ لینے کیلئے ایک 8رکنی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کردیا ، جس میں سرکار کی طرف سے امت شاہ اوراپوزیشن کی نمائندگی کیلئے لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کا نام شامل کیا گیا تھا، لیکن ادھیر رنجن چودھری نے کمیٹی میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور انہوں مرکزی وزیرداخلہ کو مکتوب بھیج کراس کی جانکاری بھی دے دی ۔جب اپوزیشن کی طرف سے کمیٹی میں کوئی نمائندگی نہیں رہے گی تو کمیٹی بے معنی ہوکررہ جائے گی۔ اس حال میں کمیٹی کچھ کرتی ہے تو اپوزیشن پارٹیوں کو اور بھی بولنے کا موقع ملے گااوروہ سرکار پر من مانی کا الزام لگاسکتی ہیں۔ اس طرح ’ون نیشن ون الیکشن ‘ پر کام کی ابتدا ہی متنازع ہوگئی۔ ویسے بھی یہ کام کسی چیلنج سے کم نہیں کہ جب حکمراں طبقہ اور اپوزیشن پارٹیوں کی رائے بالکل مختلف ہے تو ان میں اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے گا؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ’ون نیشن ون الیکشن ‘ کی تجویز اچھی اور خوشنما ہے ۔اگر ایساہوجائے تو انتخابی اخراجات میں بہت زیادہ کمی آجائے گی، لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ پھر سے لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کس طرح کرائے جاسکتے ہیں؟ کیا لوک سبھا کے ساتھ اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کیلئے اسمبلیوںاورلوک سبھا کو تحلیل کردیا جائے گا ؟پھر جب لوک سبھا اور اسمبلیوں کی میعاد 5سال مقرر ہے اوراس سے پہلے بھی ان کو تحلیل کیا جاسکتاہے تو ’ون نیشن ون الیکشن ‘کا نظام آگے کیسے برقرار رہ سکے گا؟قومی پارٹیاں اس کیلئے تیار بھی ہوجائیں تو علاقائی پارٹیاں کیسے تیارہوں گی، جس میں ان کو نقصان ہوسکتا ہے ؟یقینادنیا کے کچھ ممالک میں یہ نظام رائج ہے ، لیکن کیا وہاں کے سیاسی حالات ہمارے ملک کے سیاسی حالات سے میل کھاتے ہیں ؟اوربھی کئی باتیں ہیں ، جن کی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ تجویز اچھی توہے مگر کئی معنوں میں مشکل اورچیلنجوں سے بھری ہوئی ہے اورسرکار کیلئے اس تجویز پر کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔
[email protected]
ون نیشن ون الیکشن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS