گلوبل ورلڈ میں ہندوستان کا وجود تعلقات سے زیادہ پالیسیوں پر مبنی ہے، وہ پالیسیاں جو ’ویدوں کی رِچاؤں‘ سے تقریباً 7دہائی کے مطالعہ سے حاصل ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پالیسیوں کو وسعت عالمی منظرنامہ پر کردار نبھانے سے ہی ملی ہے اور اب جب کہ دنیا کی جغرافیائی و سیاسی صورتحال میں تبدیلی نظر آرہی ہے، تب اس کردار کو اور زیادہ وسعت دینے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کردار کو وسعت دے کر بدلتی صف بندیوں کو استحکام دے گا کون؟ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کواڈکے ممالک یا سپرپاور کا لبادہ اوڑھنے والا امریکہ؟ پوری دنیا میں زور پکڑتے ان مباحثوں کے درمیان افغانستان کے سلسلہ میں ہندوستان اب فرنٹ فٹ پر کھیل رہا ہے۔ اس ہفتہ جمعہ کو شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی سربراہ میٹنگ میں وزیراعظم نے افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت کررہے چین اور پاکستان جیسے ممالک کو اشاروں اشاروں میں سخت سرزنش کی۔ جمعہ کو وزیراعظم کا یوم پیدائش بھی تھا، اس لیے چین-پاکستان اس سرزنش کا برا نہ مان کر اسے اس موقع کا ریٹرن گفٹ بھی مان سکتے ہیں۔ ویسے وزیراعظم نریندر مودی کے 24ستمبر سے شروع ہورہے امریکہ کے تین دنوں کے دورہ میں ابھی ان دونوں ممالک کے حصہ میں اور بھی پھٹکار آنے والی ہے۔ لیکن پہلے بات شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی سربراہ میٹنگ کی۔ وزیراعظم نے اس میں ایک دم واضح الفاظ میں کہا کہ شدت پسندی میں جس تیزی سے دنیا میں اضافہ ہورہا ہے اور حالیہ دنوں میں افغانستان میں جس طرح بات چیت کے بجائے تشدد کے زور پر اقتدار منتقل ہوا، اس سے دنیا میں امن، تحفظ اور آپسی اعتماد سے متعلق بڑا چیلنج کھڑاا ہوگیا ہے۔ افغانستان میں طالبانی حکومت کو حمایت دے رہے ممالک کو انہوں نے عدم استحکام کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ وزیراعظم کے اس خطاب کے وقت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور چین کے صدر شی جن پنگ دونوں میٹنگ میں موجود تھے۔ کابل میں چین کا سفارتخانہ پہلے کی طرح ہی کام کررہا ہے اور جن پنگ بیجنگ میں طالبان کے لیڈروں سے مل بھی چکے ہیں۔ وہیں، افغانستان میں پاکستان کا دخل اب کوئی راز کی بات نہیں رہ گئی ہے۔ پنج شیر میں جو کچھ ہوا، اس نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ پڑوسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا پاکستان کی پرانی فطرت ہے اور وہ اس سے باز نہیں آسکتا۔
افغانستان میں جو ہورہا ہے، وہ تاجکستان، ایران سمیت کئی ممالک کی تشویش میں اضافہ کررہا ہے۔ خبر ہے کہ القاعدہ وہاں نئے سرے سے سرگرم ہوچکا ہے۔ اس سے دہشت گردی کے سلسلہ میں روس کی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے کہ اس کی طالبان پالیسی میں یو-ٹرن آگیا ہے۔ لیکن افغانستان سے امریکی فوج کے اچانک واپس لوٹ جانے کا سب سے زیادہ خمیازہ تو ہندوستان کو ہی اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اسی لیے وزیراعظم کے امریکی دورہ کے ایجنڈے میں یہ بات خاص طور پر شامل بھی کی گئی ہے۔ امریکہ ہی کیوں، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی جیسے طاقتور ممالک بھی بین الاقوامی دہشت گردی کی حمایت کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں اور یہ پاکستان اور چین کے لیے ایک بڑے سبق جیسا ہوگا۔ 24ستمبر کو کواڈ کی سربراہ میٹنگ کے بعد وزیراعظم مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان 50منٹ کی ون ٹو ون میٹنگ ہوگی۔ دونوں کے مابین یہ پہلی آمنے سامنے کی ملاقات ہوگی۔ اس کے پہلے کی گزشتہ تین ملاقاتیں ورچوئل تھیں۔ کواڈ کی میٹنگ میں جہاں کووڈ ویکسین بنانے، اہم ٹیکنالوجی اور آب و ہوا میں تبدیلی جیسے ایشوز پر بات ہوگی، وہیں دوطرفہ بات چیت کا فوکس افغانستان، پاکستان اور چین پر رہے گا۔ کورونا کے پھیلاؤ کے بعد وزیراعظم پہلی مرتبہ کوئی غیرملکی دورہ کررہے ہیں۔ کووڈ لاک ڈاؤن کے پروٹوکول کو خود پر بھی نافذ کرتے ہوئے انہوں نے اس مدت میں غیرملکی دوروں سے پرہیز کیا ہے۔
ہندوستان کے نظریہ سے وزیراعظم کا یہ دورہ بے حد ضروری بھی ہوگیا تھا، کیوں کہ امریکہ کی پالیسیوں سے ہندوستان راست طور پر متاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔ افغانستان سے فوج واپس بلاکر امریکہ اب اپنی پوری طاقت چین پر لگانا چاہتا ہے۔ دونوں ہی معاملات میں ہندوستان کے مفادات وابستہ ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردوںکو ملی کھلی چھوٹ کا خطرہ ہے تو دوسری طرف چین سے توسیع پسندی کا چیلنج۔
کورونا کے پھیلاؤ کے بعد وزیراعظم پہلی مرتبہ کوئی غیرملکی دورہ کررہے ہیں۔ کووڈ لاک ڈاؤن کے پروٹوکول کو خود پر بھی نافذ کرتے ہوئے انہوں نے اس مدت میں غیرملکی دوروں سے پرہیز کیا ہے۔ہندوستان کے نظریہ سے وزیراعظم کا یہ دورہ بے حد ضروری بھی ہوگیا تھا، کیوں کہ امریکہ کی پالیسیوں سے ہندوستان راست طور پرمتاثر ہوتا نظر آرہا ہے۔ افغانستان سے فوج واپس بلاکر امریکہ اب اپنی پوری طاقت چین پر لگانا چاہتا ہے۔ دونوں ہی معاملات میں ہندوستان کے مفادات وابستہ ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردوںکو ملی کھلی چھوٹ کا خطرہ ہے تو دوسری طرف چین سے توسیع پسندی کا چیلنج۔
ظاہری طور پر اس بات چیت کا ایجنڈا پاکستان بھی رہے گا۔ حال ہی میں امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان سے اپنے رشتوں کے نئے سرے سے جائزے کی بات کہی ہے۔ اس بیان میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس کے لیے امریکہ نے اس بات کو بنیاد بنایا ہے کہ افغان-طالبان مسئلہ پر پاکستان کی دلچسپی والے کئی علاقے ایسے ہیں، جو امریکہ کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ وزیراعظم مودی یقینا جوبائیڈن سے یہ جاننے کے لیے متجسس رہیں گے کہ امریکہ کیا واقعی پاکستان سے اپنے رشتوں کے سلسلہ میں کوئی نئی حکمت عملی بنانے جارہا ہے یا پھر بلنکن کا یہ بیان بھی پاکستان کو وقت وقت پر گھڑکی دیتے رہنے والی پرانی امریکی روایت کی محض رسم ادائیگی ہے۔ امریکی دورہ پر ہندوستان کے لیے ایک اور اہم موضوع رہے گا ’کاؤنٹرنگ امریکاج ایڈورسریز تھرو سینکشنس ایکٹ‘(کاسٹا) سے وابستہ غیریقینی صورت حال کو دور کرنا۔ روس سے کوئی بڑی دفاعی خریداری کرنے والے ملک پر امریکہ اسی قانون کے تحت پابندی لگاتا ہے۔ کچھ دن پہلے امریکہ نے ترکی پر اسی قانون کے تحت کارروائی کی تھی، جب کہ وہ ناٹو میں اس کا ساتھی ہے۔ ہندوستان نے ٹرمپ انتظامیہ کی دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اکتوبر2018میں روس سے ایس-400ایئرڈیفنس میزائل سسٹم کی پانچ یونٹوں کے لیے پانچ ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا تھا اور گزشتہ سال ہی بطور پہلی قسط 800ملین ڈالر روس کو دے بھی دیے گئے۔ حالاں کہ امریکہ کہہ چکا ہے کہ کاسٹا کا مقصد دوست ممالک پر کارروائی نہیں ہے، لیکن ہندوستان قانون کی تلوار کو لٹکائے رکھنے کے بجائے وضاحت چاہے گا کہ اس بیان میں جن دوست ممالک کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں وہ شامل ہیں یا نہیں۔ ویسے بھی ہندوستان کی یہ خرید اپنی سرحدوں کی چوکسی میں اضافہ کرکے چین کو روکنے کے مقصد سے کی گئی ہے۔ کواڈ سے لے کر آکس تک کا یہی مقصد بھی ہے اور امریکہ ان دونوں ہی گروپوں میں شامل ہے۔ کواڈ تو خیر اپنی تشکیل سے ہی چین کی آنکھ کی کرکری بنا ہوا ہے، لیکن آکس نسبتاً نیا گروپ ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے حال ہی میں یہ مشترکہ اسٹیج تیار کیا ہے۔ اس کے ذریعہ امریکہ اور برطانیہ مل کر آسٹریلیا کو ایٹمی توانائی سے چلنے والی پن ڈبیاں بنانے میں مدد کریں گے اور انہیں اپنے سمندری علاقہ میں تعینات کرنے میں مدد کریں گے، جس سے کہ چین پر نکیل کسی جاسکے۔ امریکہ نے 50برس بعد کسی ملک سے ایٹمی پن ڈبی کی تکنیک شیئر کی ہے۔ اس سے پہلے اس نے صرف برطانیہ کو یہ تکنیک بتائی تھی۔ پن ڈبی تکنیک بھلے ہی آسٹریلیا کو مل رہی ہو، لیکن ہندوستان کے لحاظ سے یہ اس لیے راحت کی بات ہونی چاہیے کیوں کہ اس کے ذریعہ جو بائیڈن افغانستان سے توجہ ہٹاکر اسے چین پر مرکوز کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس تناظر میں آکس سے باہر رہ کر بھی یہ ہندوستان کے لیے ایک سکیورٹی کوچ کا کام کرسکتا ہے۔
وزیراعظم مودی کے امریکی دورہ کا ایک اہم پروگرام یو این جی اے کو خطاب کرنا بھی ہوگا۔ دنیا کی نظر اس بات پر رہے گی کہ اس میں وزیراعظم آب و ہوا میں تبدیلی کے ساتھ دہشت گردی کے سلسلہ میں اپنا کیا رُخ رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وزیراعظم جس اسٹیج پر اپنی رائے دنیا سے شیئر کریں گے، اقوام متحدہ کا وہی اسٹیج عالمی دلچسپی کے زیادہ تر مسائل کی ہی طرح افغانستان اور دہشت گردی کے معاملہ میں بھی اپنی ساکھ کے مطابق کوئی بامعنی پہل نہیں کرپایا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)