پنجاب کانگریس میں بحران میں مزید اضافہ ،امریندر سنگھ نے دیا استعفیٰ

0

نئی دہلی؍چنڈی گڑھ (ایجنسیاں) : پنجاب کانگریس میں وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اور ریاستی کانگریس کے صدر نوجوت سنگھ سدھو کے درمیان جاری تنازع کا انجام وزیر اعلیٰ کے عہدے سے کیپٹن کے استعفیٰ کی صورت میں سامنے آیا۔ کئی ماہ سے جاری تنازع اور اختلافات پر قابو پانے کے لیے اعلیٰ کمان نے متعدد اقدامات کیے، جن میں سدھو کو اکائی کا صدر بنانا اور دیگر سینئر لیڈروں کو اکائی میں اہم ذمہ داری سونپنا شامل ہے۔ اعلیٰ کمان کے اقدامات سے نہ تو تنازع ختم ہوا اور نہ اختلافات دور ہوئے۔ اس کی وجہ سے حکومت اور پارٹی کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔ اس معاملے نے اُس وقت نیا موڑ لے لیا جب کیپٹن نے قانون ساز پارٹی کی میٹنگ سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا۔اگلے وزیراعلیٰ کا فیصلہ سونیا گاندھی کریں گی۔قانون ساز پارٹی نے معاملے کو ان ہی پر چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب کی 2بار کمان سنبھالنے والے کیپٹن امریندر نے گورنر بنواری لال پروہت کو استعفیٰ نامہ سونپنے کے بعد آج شام صحافیوں سے کہا کہ انہوں نے صبح کانگریس صدر سونیا گاندھی کو اس بارے میں مطلع کردیا تھا۔ میرے ساتھ ایسا تیسری بار ہوا ہے جب مجھے اطلاع دیے بغیر قانون ساز پارٹی کی میٹنگ طلب کی گئی ہو۔ یہ میری سراسر توہین ہے کہ وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے اس میٹنگ میں مجھے اطلاع تک نہیں دی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ کمان کا مجھ سے اعتماد اٹھ گیا ہے، اس لئے مزید توہین برداشت نہیں کرسکتا اور مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا۔انہوں نے بھاری دل سے کہا کہ اب اعلیٰ کمان کو جس پر اعتماد ہو اسے وزیراعلیٰ بنائیں۔ اس کے بعد وہ اپنے 52 سال سے ساتھ رہے اپنے ساتھیوں اور حامیوں سے مل کر آگے کی حکمت عملی پر غور کریں گے ۔ وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے ہیں لیکن آگے کے متبادل کھلے ہیں۔ میں سیاست میں ہی رہوں گا لیکن آگے کی حکمت عملی اپنوں سے مل کر طے کروں گا۔ پارٹی جسے بھی وزیراعلیٰ بنائے گی وہ اسے تسلیم کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں میری قیادت میں پارٹی انتخابی میدان میں اتری اور بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی۔ اب پارٹی اعلیٰ کمان کو مجھ پر بھروسہ نہیں رہا کہ یہ انتخاب جیت پائیں گے یا نہیں۔ چاہے جو بھی ہو میری توہین تو نہیں کرنی چاہیے تھی۔
اس سے قبل صبح ہی سے دہلی اور پنجاب میں اس پر پارٹی کے اندر کافی گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دہلی میں خود کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرگرم تھے اور پارٹی لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کررہے تھے تو پنجاب میں پارٹی یونٹ کے انچارج وجنرل سکریٹری ہریش راوت اور راجستھان کے انچارج اجے ماکن کو بھیجا گیا تھا، لیکن بات کہیں سے نہیں بنی۔ راوت کے اس بیان سے قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست میں سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے اور بیشتر ممبران اسمبلی قانون ساز پارٹی کی میٹنگ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ قانون ساز پارٹی کی میٹنگ کا طلب کرنا ہی کیپٹن امریندر کی ناراضگی کا سبب بنا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ میٹنگ ہو۔ جیسے ہی ان کو بھنک لگی کہ میٹنگ ہونے والی ہے، انہوں نے اسے اپنی توہین سمجھ کر عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کیپٹن امریندر نے اگرچہ ابھی صرف عہدے سے استعفیٰ دیا ہے ، پارٹی کی رکنیت سے نہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر انہوں نے انتقامی جذبہ کے تحت مخالفین کے خلاف کام کیا تو پارٹی کے سامنے بہت بڑا بحران کھڑا ہوسکتا ہے اور انہوں نے کہا بھی ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو ملک کے لیے خطرناک ہیں اور وہ انہیں کسی بھی حال میں وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیں گے۔ پنجاب میں بدلتے حالات میں جہاں کانگریس پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے وہیں شرومنی اکالی دل، بی جے پی اور عام آدمی پارٹی باریکی سے حالات پر نظر رکھے ہوئی ہیں اور موقع کا فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ فی الحال پنجاب کانگریس کا معاملہ پہلے سے بھی بگڑا ہوا نظر آتا ہے اور اگر پارٹی نے اسے کنٹرول نہیں کیا تو اسے اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کافی نقصان ہوسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS