تیل اورمہنگائی کی مار

0

ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اب عام بات ہے۔ بین الاقوامی بازار میں جیسے ہی خام تیل کی قیمت بڑھی ، اندرون ملک پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں ۔عام طور سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے ، ان میں کمی شاذونادر ہی کی جاتی ہے،کیونکہ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جب بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتیں زیادہ گرنے لگتی ہیں تو سرکار ایکسائز ڈیوٹی اوردیگر ٹیکسوں میں اضافہ کردیتی ہے جس کی وجہ سے خام تیل کی کم قیمتوں کا فائدہ عام لوگوں کو نہیں پہنچ پاتا ہے ۔یہ معمولی بات نہیں ہے کہ مودی سرکار میں 12بارایکسائز ڈیوٹی بڑھائی جاچکی ہے جبکہ صرف 4بارہی اس میں کمی گئی۔جو ایکسائزڈیوٹی مودی سرکار کو وراثت میں پٹرول پر 9.48روپے اور ڈیزل پر 3.56روپے کی صورت میں ملی تھی، وہ ایک وقت 30روپے سے بھی زیادہ ہوگئی تھی لیکن فی الحال بالترتیب 27.90 روپے اور21.80روپے ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اتنی زیادہ ایکسائز ڈیوٹی ہوگی تو تیل کی قیمتیں کیوں نہیں بڑھیں گی ؟اصل سوال یہ ہے کہ جب بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے نام پر ملک میں ایندھن کی قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں تو تیل کی قیمتیں کم ہونے کے نام پر تیل کی قیمتیں کم ہوجانی چاہئیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب الیکشن کے ایام میں تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائی جاتیں ،چاہے بین الاقوامی بازار میں کتنی ہی قیمت بڑھ جائے تو عام دنوں میں مسلسل کیسے بڑھائی جاتی ہیں؟ اورتیسری بات یہ ہے کہ جب بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتیں بڑھنے پر اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے تو قیمتیں کم ہونے پر عوام پر بوجھ کیوں نہیں کم کیاجاتا؟
3نومبر 2021کو جب سرکار نے پٹرول اورڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی تھی تو اس کے بعد سے تیل کی قیمتیں نہیں بڑھ رہی تھیں۔یہاں تک کہ 5ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہوگئے ۔اب جو تیل کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو رکنے کانام نہیں لے رہا ہے ۔ گزشتہ 6دنوں میں 5بارقیمتوں میں اضافہ کیا جاچکا ہے۔ 24مارچ کو چھوڑ کر 22مارچ سے 27مارچ تک تیل کی قیمتوں میں 3.70روپے کا اضافہ کیا جاچکا ہے ۔کیوںکیا گیا ، اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ تیل کمپنیوں کے ریونیوکو نقصان ہورہا تھا۔صرف پٹرول اورڈیزل ہی کے دام نہیں بڑھائے جارہے ہیں ، اس دوران سی این جی ۔ پی این جی اوررسوئی گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ۔بڑی بات یہ ہے کہ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں روزانہ تقریباًیکساں اضافہ کیا جارہا ہے ۔ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ اشارہ مل رہاہے کہ پٹرول اور ڈیزل کے دام ایک بار میں نہ بڑھاکر دھیرے دھیرے بڑھائے جائیں گے۔تیل کمپنیوں کے ریونیو کے نقصان کی بات صحیح ہوسکتی ہے ، لیکن تیل کے دام بڑھنے سے عوام کو مہنگائی کی صورت میں کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اورکتنی جیبیں ڈھیلی کرنی پڑتی ہیں، اس کی بات نہ تو سرکارکی کرتی ہے اورنہ تیل کمپنیاں ۔ کم از کم سرکار کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔کیونکہ اسے بہر صورت ٹیکسوں کی صورت میں خطیر آمدنی ہوجاتی ہے اوراس پر کوئی آنچ نہیں آتی ہے ۔یقینا تیل کمپنیاں 26جون 2010سے پٹرول اور 19اکتوبر 2014سے ڈیزل کی قیمتیںبین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں، ایکسچینج ریٹ ، ٹیکس ،پٹرول، ڈیزل کے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات اورباقی کئی چیزوں کو دھیان میں رکھ کر روزانہ قیمتیں طے کرتی ہیں،لیکن الیکشن کے ایام میں جب قیمتیں نہیں بڑھتی ہیں تو لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ تیل کمپنیاں کیوں نہیں قیمتیں بڑھاتی ہیں ؟اوراس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے ۔
معاملہ اگر تیل کی قیمتوں میں اضافہ یا کمی تک محدود رہے تو سمجھ میں آئے لیکن یہاں تو تیل کے تارمہنگائی سے جڑے ہوئے ہیں ، تیل کے دام جتنے بڑھتے ہیں ، اتنی ہی مہنگائی بڑھتی ہے اور باورچی خانہ کا بجٹ بگڑتا ہے۔ اس طرح لوگوں کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔مہنگائی میں آگ تیل ہی سے لگتی ہے۔سرکار تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا جواز پیش کرکے نکل جاتی ہے لیکن اس کی مار عوام پر کتنی پڑتی ہے ،ا س کا اعتراف کبھی نہیں کرتی ہے ۔تیل کے دام ، تیل کمپنیاں ، سرکار اور عوام کو ساتھ لے کر طے کیے جائیں تو شاید یکطرفہ صرف عوام پر بوجھ نہ پڑے اورقیمتوں میں اضافہ کی مخالفت بھی نہ ہو۔لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS