مسعود احمد برکاتی
سلمان ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔وہ ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس نے اپنی کتاب میں پڑھا تھا کہ کوئی چیز ٹھنڈی کرنی ہو تو اُسے منہ سے پھونک پھونک کر ٹھنڈا نہیں کرنا چاہیے۔پھونکنے سے منہ کے جراثیم اس چیز میں پہنچ جاتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔
جب سے سلمان نے کتاب میں یہ بات پڑھی تھی، اس وقت سے وہ خود بھی احتیاط کرنے لگا اور دوستوں اور بھائی بہنوں کو بھی منہ سے پھونک کر کھانا یا چائے ٹھنڈی کرنے سے روکنے لگا۔
ایک دن وہ ڈبل روٹی لینے بیکری گیا۔بیکری والا جس کاغذ کی تھیلی میں ڈبل روٹی رکھ کر دینا چاہتا تھا،وہ ہاتھ سے نہ کھلی تو اس نے منہ کے قریب تھیلی لا کر زور زور سے پھونکیں ماریں۔ تھیلی کا منہ کھل گیا۔سلمان یہ دیکھ رہا تھا،جب بیکری والے نے ڈبل روٹی تھیلی میں رکھنا چاہی تو سلمان چیخ کر بولا: ’’ٹھہرو،رک جاؤ۔ منہ سے پھونک کر تھیلی نہیں کھولتے، تمہارے منہ کے سارے جراثیم تھیلی میں چلے گئے،وہ گندی ہو گئی،دوسری تھیلی ہاتھ سے کھولو اور مجھے اس میں روٹی رکھ کر دو۔‘‘
سلمان نے اس سختی سے یہ بات کہی کہ بیکری والے کو غصہ آگیا۔وہ کہنے لگا: ’’ہمارا منہ گندا تھوڑی ہے،نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ تھیلی کو ہاتھ سے مسلتا رہوں۔ ‘‘
سلمان نے اپنی بات دُہرائی تو بیکری والا بھی اپنی بات پر اَڑ گیا،اس نے کہا: ’’لینا ہے تو لو،ورنہ جاؤ،میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔ ‘‘
سلمان خالی ہاتھ گھر آگیا۔جب اس کے ابو کو قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے سلمان سے کہا کہ بات تو تمہاری بالکل صحیح ہے،لیکن تمہارے کہنے کا انداز اور تمہارے الفاظ سخت تھے، اس لیے وہ ضد پر آگیا۔ بات کرنے کا انداز ہوتا ہے۔اچھی بات کو اچھے الفاظ اور اچھے لہجے میں ہی کہنا چاہیے،اسی کو اخلاق اور اسی کو تہذیب کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جہالت عام ہے،ابھی تمام لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ان کو بہت سی باتیں نہیں معلوم،اسی لیے وہ بیمار رہتے ہیں اور ان کو اخلاق سے کام لینا نہیں آتا۔ بیکری والا بھی انہی لوگوں میں سے ہے۔ اگر تم اس کو میٹھی زبان میں منہ سے پھونکنے کے نقصانات بتاتے اور نرمی سے کہتے کہ تمہارا منہ گندا نہیں ہے،لیکن جراثیم ہر ایک انسان کے جسم میں ہوتے ہیں،جو دوسروں کے لیے مضر ہوتے ہیں۔اس لیے ذرا سی تکلیف اُٹھا کر کاغذ کی تھیلی کا منہ ہاتھ سے کھول لیا کرو،تو وہ شاید بات مان جاتا۔
بیکری والے نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی صحیح نہ تھا،نہ انسان کی حیثیت سے اور نہ تاجر کی حیثیت سے۔اس انداز سے بات کرنے سے اس کا نقصان بھی ہوا،مگر اس کی جہالت اور اخلاقی کمزوری نے اس کو یہ نقصان برداشت کرنے پر مجبور کیا۔‘‘
اپنے ابو کی یہ باتیں سلمان کی سمجھ میں آگئیں۔وہ شام کو پھر اسی بیکری والے کے پاس گیا اور اس کو اخلاق و محبت سے یہ ساری باتیں سمجھاتا رہا۔ شروع شروع میں بیکری والا اُلجھنے کی کوشش کرنے لگا،لیکن سلمان کی باتوں کی مٹھاس نے اس کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔آخر وہ سلمان کی بات مان گیا۔
سلمان خوشی خوشی گھر واپس آیا۔اس نے آج ایک اخلاقی سبق خود سیکھا تھا اور صحت کا ایک اُصول ایک دوسرے انسان کو سکھایا تھا۔rvr
کاغذ کی تھیلی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS