گواہاٹی ہائیکور ٹ کے تبصرے

0

بلڈوزر کی کارروائی کادائرہ وسیع ہوتاجارہا ہے، کئی ریاستوں میں دیکھا گیا کہ عدالتوں میں مقدمات چلانے کے بجائے سیدھے ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر چلادیا جاتا ہے ۔اس سے 2مقاصد حاصل ہوتے ہیں ، ایک تو ملزمین کے خلاف فوری کارروائی ہوجاتی ہے، دوسرے بلڈوزر کی کارروائی سے پورے علاقے میں خوف ودہشت پھیل جاتی ہے۔یہ کارروائی عموما حکومت کے اشارے پر انتظامیہ کرتی ہے۔ اسی لئے حکومت اس کا جواز پیش کرتی رہتی ہے۔ بلڈوزر کاررروائی کے خلاف کئی معاملے عدالتوں میںپہنچے ، کچھ میں کارروائی پر فوری طور پر روک لگائی گئی تو کچھ معاملے زیرالتواہیں ۔ایسا ہی ایک معاملہ گواہاٹی ہائیکورٹ میں پہنچا،جو پولیس اسٹیشن میں آگ زنی کے الزام میں 5ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلانے سے متعلق تھا۔ غورطلب امر ہے کہ کسی نے عرضی داخل کرکے اسے نہیں اٹھایا بلکہ ازخود نوٹس لے کر گواہاٹی ہائیکورٹ نے اس پر حکومت سے آسام سے جواب طلب کیا۔ کورٹ نے جوسوالات کئے ، وہ بھی اہم ہیں اورجونکات اٹھائے، وہ بھی کافی اہم ہیں۔کورٹ نے حکومت سے پوچھا کہ بلڈوزر کی ایسی کارروائی کس قانون کے تحت کی گئی؟ جب ریاستی حکومت کے وکیل نے سپرنٹنڈینٹ آف پولیس کی طرف کارروائی رپورٹ عدالت میں پیش کی تو اس پر عدالت کا سوال تھا کہ آپ ہمیں کوئی ایسا فوجداری قانون دکھائیں ، جس کے تحت پولیس کسی جرم کی تفتیش کے دوران کسی اجازت کے بغیر بلڈوزر سے کسی کاگھرمنہدم کردے۔چیف جسٹس آرایم چھایانے تو یہاںتک کہہ دیا کہ آپ ایس پی ہوسکتے ہیں ،لیکن قانون کے دائرے میں رہنا ہوگا ۔کسی کے گھر میں گھس نہیں سکتے۔ اگر اس طرح کی انہدامی کارروائی کی اجازت دی جائے تو ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔حیرت ہے کہ کورٹ نے جب یہ سوال کیا کہ کیا اس کارروائی کیلئے پیشگی اجازت لی گئی تھی تواس پر وکیل کا جواب تھا کہ سرچ وارنٹ کی اجازت لی گئی تھی ۔تو اس پر چیف جسٹس نے انتہائی حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ کم از کم اپنے محدود کریئرمیں ایسا معاملہ نہیں سنا۔ میں نے کسی پولیس افسر کو سرچ وارنٹ کے نام پر بلڈوزرچلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پولیس صرف تفتیش کے نام پر کسی کا گھر نہیں گراسکتی ۔نہ تویہ نظم ونسق کو کنٹرول کرنے کا طریقہ ہے اورنہ ہی جمہوری ملک میں ایسی کارروائیوں کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ ہم جمہوری سیٹ اپ میں ہیں ۔آپ کسی کے خلاف اس کی طرف سے سرزد جرم کیلئے مقدمہ چلاسکتے ہیں ۔پولیس کو کسی کے گھر پر بلڈوزر چلانے کا اختیارکس نے دیا؟ چیف جسٹس نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ گینگ وار ہے یا پولیس کی کارروائی؟ اگر یہ گینگ وار ہے تو ایک آدمی دوسرے کا گھر تباہ کرتا ہے لیکن ہم نے ایسی پولیس کارروائی نہیں دیکھی۔ اس معاملے کی سماعت آگے بھی 13 دسمبر کو ہوگی۔جب کچھ اورباتیں سامنے آئیں گی اوربلڈوزر کارروائی کی قانونی حیثیت پوری طرح واضح ہوگی ۔
سبھی جانتے ہیں کہ اب تک کئی ریاستوں میں بلڈوزر کارروائی کی جاچکی ہے۔ یہ کارروائی قانون کی روشنی میں کہاں تک جائز ہے ؟ اب تک کسی معاملہ میں کوئی بھی عدالتی فیصلہ نہیں آسکا۔ پہلی بارگواہاٹی ہائیکورٹ کے ایسے تبصرے آئے ہیں، جن سے اس کارروائی کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگتاہوا نظر آرہا ہے ۔ بہرحال ابھی تک جہاں بھی بلڈوزر چلائے گئے کبھی یہ کہا گیاکہ مکان غیرقانونی طریقے سے بنایا گیا ، توکبھی یہ کہا گیا کہ اس نے فلاں جرم کیا ، اس لئے بلڈوزر کی کارروائی کی گئی، لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت مکان بنایا جارہا تھا، اس وقت یہ سوال اٹھاکر مکان بنوانے سے کیوں نہیں روکا گیا ؟برسوں کے بعد ایک خاص معاملہ کے تناظرمیں بلڈوزر کی کارروائی کیوں کی گئی ؟پھر کسی نے جرم بھی کیا تو اس کے خلاف کارروائی کیلئے قانونی طریقہ پر مقدمہ چلانا ہے ۔جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا قانون میں مقرر ہے ۔نہ کہ اپنی طرف سے فوری سزا مقرر کرکے اس کونافذ کردینا۔
بھلے ہی جو لوگ بلڈوزرکارروائی کرتے ہیں ، وہ اس کا کچھ بھی جواز پیش کریں ، لیکن بیشتر لوگ اس پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں ۔اب تو گواہاٹی ہائیکورٹ نے بھی اس پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا ۔اس کا مطلب یہی ہوا کہ قانون میں مخصوص تناظر میں اس مخصوص کارروائی کی گنجائش نہیں ہے ۔جس سے بچنا چاہئے ۔گواہاٹی ہائیکورٹ نے جس طرح اس کا نوٹس لیا ہے اورسوالات اٹھائے ہیں ۔یہی امیدکی جاتی ہے کہ بلڈوزر کارروائی اوراس کی دہشت سے لوگوں کو نجات ملے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS