ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ : قطر میں فیفا کے انعقاد سے مغرب کا نفاق طشت ازبام

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

فلسطینی نژاد امریکی دانشور اڈوارڈ سعید کو دنیا اس بات کے لئے جانتی ہے کہ انہوں نے مستشرقین کا نفاق اپنی کتاب’اورینٹلزم‘ لکھ کر واضح کیا تھا۔ اڈوارڈ سعید نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا تھا کہ مغرب نے مشرق اور خاص طور سے اسلام اور مسلم دنیا کو دیکھنے کا اپنا ایک خاص پیمانہ بنالیا ہے جس میں حقارت اور بیجا عداوت کا پہلو غالب رہتا ہے۔ مشرقی تہذیب کی ہر شئی قابل رد اور اس کا ہر عمل لائق تنقید سمجھا جاتا ہے اگر وہ مغربی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہو۔ جہاں کوئی قدم مغرب کے معیار سے ہٹ کر اٹھایا گیا وہاں بس ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ادارے کام کرتے ہیں، دانشوران کتابیں تصنیف کرتے ہیں اور پروپیگنڈہ کے وہ تمام وسائل استعمال کئے جاتے ہیں جو ان کے دسترس میں ہوتے ہیں۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداران، سفارت خانوں میں موجود سفراء اور میڈیا ہاؤسز کے مدیران سب ایک ساتھ چیخ پڑتے ہیں اور ایسا شور و غوغا مچایا جاتا ہے جیسے کہ دنیا سچ مچ ختم ہوجانے والی ہے۔ یہ مغرب کا بہت پرانا طریقہ ہے جس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دنیا پر وہ اپنی فکری بالادستی کو تا دیر قائم رکھ سکیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سچائی بس وہی کہلائے جو ان کی زبان سے نکلے۔ دنیا حق اور جائز بات صرف اسی شئی کو تسلیم کرے جس پر مغرب کی مہر لگی ہو۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود مغرب کا نفاق کبھی چھپ نہیں پایا ہے۔ تاریخ اسے ہمیشہ بے نقاب کرتی آئی ہے اور آج بھی کر رہی ہے۔ مغرب کے اسی ازلی نفاق کا مظاہرہ گزشتہ کئی برسوں سے قطر کے تعلق سے جاری ہے جس کا آغاز 2010 میں اس وقت کیا گیا تھا جب پہلی بار مشرق وسطیٰ کے اس سب سے چھوٹے لیکن دنیا کے امیر ترین ملک قطر نے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا خطاب اپنے نام کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد سے لگاتار قطر کو کسی نہ کسی بہانہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جوں جوں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کی تاریخ قریب آتی گئی مغربی ممالک کی جانب سے قطر کے خلاف حملے میں شدت روز بروز بڑھتی گئی۔ اس بیجا حملہ میں یوروپی ممالک کے ذمہ داران، میڈیا سے وابستہ شخصیات یہاں تک کہ کھیل کود سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں نے بھی اس ہسٹریائی پروپیگنڈہ کا حصہ بننا ضروری سمجھا اور قطر کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ان شخصیات کا تعلق بطور خاص برطانیہ، فرانس، جرمنی اور ڈنمارک سے ہے۔ ان مغربی شخصیات نے کبھی مزدوروں کے حقوق کی پامالی کے نام پر تو کبھی ہم جنس پرستوں کی آزادی اور حقوق کے حوالہ سے صرف قطر پر مسلسل حملے ہی نہیں کئے بلکہ قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کے بائیکاٹ کا مطالبہ تک کر ڈالا۔ جب ان کی یہ ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو کئی یوروپی ہوائی اڈوں نے فٹبال کے ان شیدائیوں کو پریشان کرنا شروع کر دیا جو وہاں سے دوحہ کا رخ کر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں مغربی جنون اور ہسٹریا کی کیفیت کس حد تک پہنچ چکی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس کے ایک اخبار نے اپنے صفحہ پر قطر کے فٹبال کھلاڑیوں کے کارٹون بناکر انہیں دہشت گرد تک کہنے سے گریز نہیں کیا۔ فرانس یہ وہی ملک ہے جہاں سے کبھی صلیبی جنگوں کا جتھہ چلا تھا اور اسلام کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہا تھا۔ اس کی یہ روش آج بھی جاری ہے جہاں کبھی اسلامی شعار پر عمل پیرا ہونے والے مسلمان کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے تو کبھی پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کی تاریخ الجزائر سے لے کر مالی تک کے معصوموں کے خون سے رنگین ہے۔ یہی حال برطانیہ کا ہے جس نے پورے عالم اسلام کو اپنے سامراجی غرور کے تحت ذلیل کیا تھا اور آج تک اس کا بیجا نسلی تفوق اس کے چڑھ کر بولتا ہے۔ اس ملک سے شائع ہونے والا اخبار گارجین نے سب سے پہلے قطر کے خلاف پروپیگنڈوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور بغیر کسی دلیل کے اس بات کی تشہیر کی تھی کہ قطر کو فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا خطاب کرپشن کے ذریعہ سے حاصل ہوا ہے۔ حالانکہ فیفا کی اخلاقی امور کی کمیٹی دو برسوں تک اس معاملہ کی تحقیق کرتی رہی اور اس کے بعد اس نتیجہ تک پہنچی تھی کہ کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ جب گارجین کا یہ پروپیگنڈہ ناکام ہوگیا تو اس نے قطر میں فیفا کے لئے تعمیر کئے جانے والے اسٹیڈیموں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کی پامالی کا مسئلہ اٹھایا اور اس کو طول دیتا رہا یہاں تک کہ یہ دعوی کر بیٹھا کہ اسٹیڈیم بنانے والے مزدوروں میں سے 6500 کی موت اس کام کے نتیجہ میں ہوگئی ہے جس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی۔ فرانس میں قطر کے اندر فیفا ورلڈ کپ انعقاد کے خلاف پروپیگنڈہ کی شدت تو اتنی بڑھ گئی کہ وہاں کے کئی میونسپلٹیوں نے میدانوں میں بڑے پردوں پر فیفا فٹبال میچوں کو لائیو دکھانے کی اجازت تک نہیں دی اور اس کے لئے دلیل یہ پیش کی گئی کہ قطر کے اسٹیڈیم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جن وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے ان سے بڑی مقدار میں کاربن نکلے گا جس سے ماحولیات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور ہم اسی لئے اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسکریننگ کی اجازت دینا مناسب نہیں سمجھتے۔ حالانکہ قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ناصر الخاطر نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ کے اسٹیڈیموں کو سردی میں گرم رکھنے کے لئے جن ایندھنوں کا استعمال ہوتا ہے ان سے کاربن زیادہ مقدار میں بر آمد ہوتا ہے۔ اس کے برعکس قطر میں اسٹیڈیم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سولر انرجی کا استعمال کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے کاربن پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ ماحولیات کے لئے مفید ہے۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ یورپی ممالک کے پاس قطر کو نشانہ بنانے کے لئے کوئی معقول وجہ نہیں ہے اور اسی لئے بے بنیاد ڈھنگ سے ایک عرب مسلم ملک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یورپی ممالک اس بات کو ہضم نہیں کر پارہے ہیں کہ ایک عرب اسلامی ملک فٹبال کے اتنے عظیم مقابلوں کی میزبانی کا شرف حاصل کر رہا ہے۔ اہل مغرب در اصل فٹبال پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں اور خاص طور سے ایک مسلم ملک کی میزبانی پر سخت پیچ و تاب کھا رہے ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے خصوصی کلب میں کوئی ایسا ملک گھس آیا ہے جس کو وہ اس کا حق دار نہیں سمجھتے تھے۔ یہ نظریہ استشراق پر مبنی اسی مغربی تفوق کی خام خیالی کا غماز ہے جس کا پردہ اڈوراڈ سعید نے چاک کیا تھا۔ مغرب کے اس نفاق کو خود فیفا کے چیف گیانی انفینٹنو نے بھی فیفا مقابلوں کے آغاز سے ایک دن قبل منعقد ہونے والے اپنے پریس کانفرنس میں بے نقاب کیا ہے اور اپنے ذاتی تجربوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ یوروپ کس قدر نفاق سے کام لیتا ہے۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی یوروپ کے قطر مخالف پروپیگنڈوں سے اس قدر دِق ہوئے کہ انہیں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ یہ محض یوروپ کا نفاق ہے اور جن بنیادوں پر قطر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کا عقل و منطق سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یورپ کے یہ حملے کس قدر بے بنیاد ہیں ان کا اندازہ جرمنی کے سابق وزیر خارجہ زیگمار گابرییل کے ٹویٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے قطر کے خلاف اپنے ہی ملک کے موقف کی تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ اقوام متحدہ اور آئی ایل او جیسی معتبر بین الاقوامی تنظیمیں قطر کی اصلاحات کی تعریف کر رہی ہیں اس وقت میں جرمنی کے ذریعہ اس کی تنقید کرنا صرف بیجا غرور ہی کہلائے گا۔ البتہ مغربی ممالک کے منفی پروپیگنڈوں کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قطر میں منعقد ہو رہے فیفا فٹبال مقابلوں کے ٹکٹ خریدنے کے لئے 4 کروڑ لوگوں نے درخواست دی تھی جس میں سے 30 لاکھ ٹکٹ بہت جلد فروخت ہوگئے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ فیفا چیف کے بقول تاریخ کا سب سے یادگار ورلڈ کپ قطر میں انجام پائے گا اور دنیا یہ نظارہ بھی دیکھے گی کہ ایک مسلم عرب ملک جدیدیت کے تمام معیاروں پر پورا اترتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو پوری خود اعتمادی کے ساتھ پیش کرنے میں کس طرح کامیاب ہوتا ہے۔ یہ موقع یوروپ کے لئے بطور خاص درس عبرت ثابت ہوگا اور اس کو مجبور کرے گا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اپنے منفی رویہ میں تبدیلی پیدا کرے کیونکہ مغربی سامراج کا دور ایک عرصہ ہوا کہ ختم ہوچکا ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS