اپنی افادیت کے لحاظ سے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس بھلے ہی نتیجہ خیز ثابت نہ ہواہو لیکن مسلسل ہنگامے، نعرے بازی اور شور شرابہ سے گزررہے اجلاس کے درمیان دیگر پسماندہ طبقات سے متعلق آئین کے 127 ویں ترمیمی بل 2021 کا پاس کیاجاناتاریخی واقعہ ہے۔ اس کازکیلئے بلاشبہ مقننہ ستائش کی مستحق ہے۔پسماندہ طبقات کی عمومی فلاح و بہبود سے متعلق ریزرویشن قانون میں ترمیم کادیرینہ مطالبہ تھاجو تسلیم کیاگیا اور بالآخر ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوگیا کہ وہ او بی سی کی فہرست بناسکیں اورا نہیں ریزرویشن کے دائرہ میں لاکرا ن کی پسماندگی دور کرنے کا کام کریں۔
زرعی قوانین، پیگاسس جاسوسی معاملہ اور دیگر مطالبات پر بحث کا تقاضا کرنے والی اپوزیشن نے اس بل پر حکومت کو مکمل تعاون دیا۔ ایوان زیریں لوک سبھا سے 10اگست کو منظوری کے بعد راجیہ سبھا نے بھی اس آئینی ترمیمی بل کو منظورکرلیا ۔
یہ ایک طرح سے اپوزیشن کی فتح سمجھا جا رہا ہے کیوں کہ اپوزیشن ایک عرصہ سے مطالبہ کررہاتھا کہ او بی سی کے تعین کا حق ریاستوں کے پاس ہوناچاہیے ۔ ملک کے وفاقی ڈھانچہ کے پیش نظر اس کاز کیلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت تھی جسے حکومت نے منظور کرلیا اور دو تہائی اکثریت سے یہ بل اب قانون کی شکل اختیار کر رہا ہے ۔اس ترمیم کے ساتھ ہی اب ریاستی حکومتیں کسی بھی طبقہ کو او بی سی کی فہرست میں شامل کرنے اورا نہیں ریزرویشن کا فائدہ دینے کے قابل ہوجائیں گی ۔ مراٹھا، جاٹ، پٹیل اور درجنوں دوسرے طبقات بھی ایک عرصہ سے ریزرویشن کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ اس مسئلہ پر کئی بڑے بڑے مظاہرے بھی کیے جاچکے ہیں۔سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی کئی درخواستیں اب بھی زیر غور ہیں۔چند برسوں قبل راجستھان میں جاٹ برادری اور گجرات میں پٹیل برادری نے اپنے ریل روکو مظاہرہ سے تقریباًپورے ہندوستان کو ہی روک دیا تھا۔ ہندو ئوں میں کچھ برادری کے لوگوں نے تو حکومت کو یہ بھی الٹی میٹم دے رکھاتھا کہ اگر انہیں ریزرویشن کے دائرہ میں نہیں لیاگیا تووہ کسی دوسرے مذہب میں شامل ہوجائیں گے ۔
ہندوستان کا سماجی ڈھانچہ ایسا ہے کہ اس میں سبھی کو یکساں مواقع دینے کیلئے ریزرویشن ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اوبی سی زمرے میں شامل طبقات تعلیمی اور سماجی اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہیں اس لیے انہیں آئین میں ریزرویشن دینے کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے ۔ آزادی کے بعد بننے والے آئین کے مسودے میں پہلے پہل درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل(ایس سی /ایس ٹی )کو ریزرویشن دیے جانے کا انتظام کیاگیاتھا اور اس ریزرویشن کی ایک مدت طے کردی گئی تھی لیکن اس مدت کے درمیان ایسا نہیں ہوپایا کہ درج فہرست ذات و قبائل کے افراد دوسرے لوگوں کے شانہ بشانہ آسکیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں ۔لہٰذاایس سی / ایس ٹی ریزرویشن کی مدت میں توسیع کی جاتی رہی تھی۔ ان کے علاوہ بھی ہندوستانی معاشرہ میں کچھ ایسے طبقات ہیں جو تعلیمی اور سماجی لحاظ سے انتہائی پسماندہ ہیں۔ان پسماندہ طبقات نے ریزرویشن کے مطالبہ پر تحریک شروع کی اور ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے آئین میں ترمیم کے ذریعہ او بی سی ریزرویشن قانون بناکر اسے ایک مقررہ مدت کیلئے نافذ کیاگیا۔
ریزرویشن کا یہ نظام وضع کرنے کا مقصد معاشرے کے پسماندہ طبقات کو بلند کرنا، ان کے معیار زندگی میں بنیادی اصلاحات لانا اور ان کیلئے روزگار اور نوکریوں میں ریزرویشن کی دفعات کو نافذ کرنا تھا۔لیکن مقررہ مدت میں یہ نظام بھی اپنے مقاصد پورے نہیں کر سکاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے نفاذ کو تسلسل ملتا رہا۔
نیز سماج میں کچھ ایسے مزید طبقات بھی ہیں جنہیں او بی سی کے فوائد اور تحفظات حاصل نہیں ہوئے اور وہ سماجی اور تعلیمی لحاظ سے پیچھے رہ گئے۔یہ ایسے طبقات اور برادریاں ہیں جن کی بھاری تعداد ہے اور یہ سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں،اس لیے کئی اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ خود بی جے پی کے کئی قدآورلیڈران بھی اس کے حق میں رہے ہیںکہ انہیں بھی او بی سی کے فوائد دیے جائیں اور قانون کے ذریعے انہیں ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات سے متعلق آئین کے 127 ویں ترمیمی بل 2021 کو بغیر کسی رخنہ اندازی کے لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے دو تہائی اکثریت سے پاس کردیا۔ اس قانون سازی سے سیاسی پارٹیوں کو بھلے ہی ووٹوں کا فائد ہ ملے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اقدام معاشرے کی مجموعی ترقی کیلئے ناگزیر تھا ۔غریب اور پسماندہ طبقات کو تعلیم اور روزگارکے مواقع میںیکساں شراکت کیلئے ریزرویشن فراہم کیے بغیر ہم انہیں قومی دھارے میں شامل نہیں کرسکتے ہیں۔ایسی طبقات کی فہرست بنانے کا بنیادی حق ریاستوں کا ہوناچاہیے تھا جسے بالآخر منظور کرلیاگیا ہے۔ ووٹ کی سیاست سے قطع نظر اسے معاشرہ کی مجموعی ترقی کی سمت ایک نمایاں قدم سمجھاجاناچاہیے۔
[email protected]
او بی سی کی فہرست سازی کاحق
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS