ہندوستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 2 کروڑ کے پار ہوگئی ہے۔ امریکہ کے بعد ہندوستان دوسرا ایسا ملک بن گیا ہے جہاں کورونا متاثرین کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ہوئی ہے۔ وطن عزیز ہندوستان میں کورونا متاثرین کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ اپریل میں ہوا۔ یہ اضافہ کتنی تیزی سے ہوا، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ 4 اپریل کو متاثرین کی تعداد 12587920تھی تو 18اپریل کو متاثرین کی تعداد 15057767 ہو گئی یعنی 4 اپریل سے 18اپریل تک 14 دن میں تقریباً 25 لاکھ افراد متاثر ہوئے جبکہ اس کے بعد کے 15 دن میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوگئے۔ ان حالات میں لوگوں کی پریشانی کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں۔ مثلاً: حالت سنگین ہوجانے پر کورونا متاثرین کو کہاں بھرتی کریں، آکسیجن کی کمی ہو جائے تو اسے پورا کیسے کریں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب یہ خبر نہ آتی ہو کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کسی کی جان چلی گئی۔ تازہ خبر ریاست کرناٹک کے چام راج نگر سے آئی ہے کہ وہاں کے ضلع اسپتال میں مبینہ طور پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے پچھلے 24 گھنٹے میں 24 لوگوں کی جان چلی گئی۔ مہلوکین میں سے 23 افراد کووِڈ-19سے متاثر تھے۔ مہلوکین کے اہل خانہ نے آکسیجن کی کمی کے ایشو پر مظاہرہ کیا ہے۔ پچھلے ہی ہفتے جے پور کے گولڈن اسپتال کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ وہاں آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے 20 مریضوں کا دم گھٹ گیا۔ دوسری جگہوں کے بارے میں کیا کہا جائے جب ملک کے دارالحکومت دہلی میں ہی آکسیجن کی کمی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس شہر کے ایک سے زیادہ مشہور اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ ان اسپتالوں میں بترا اسپتال بھی شامل ہے۔ پچھلے دنوں وہاں آکسیجن نہ ملنے سے 12 لوگوں کو جان گنوانی پڑی تھی۔ اب بترا اسپتال نے مریضوں کو بھرتی کرنے سے منع کر دیا ہے لیکن موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے بترا اسپتال یا کسی بھی اس اسپتال پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے جن کے پاس وافر مقدار میں آکسیجن نہیں ہے یا انہیں لگتا ہے کہ مریضوں کو بھرتی تو کرلیں گے مگر ان کا علاج ٹھیک سے نہیں ہو پائے گا۔ آخر کوئی اسپتال اپنی بدنامی کیوں کرانا چاہے گا؟
حیرت اس بات پر ہے کہ حالات سے نمٹنے کے لیے ایک سال کا موقع ملا تھا۔ اس ایک سال میں ملک کے لیڈروں نے بڑی بڑی باتیں کیں لیکن کام کتنے بڑے بڑے کیے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں اس ملک میں یہ کلچر جڑ جما چکا ہے کہ کام کم کرو، پرچار زیادہ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ دو شوچالیوں کے بننے کی ابتدا بھی ہوتی ہے تو یہ پوسٹر لگانے میں تاخیر نہیں کی جاتی کہ یہ بنوا کون رہا ہے۔ لوگ کونسلر، ایم ایل اے، ایم پی سے یہ نہیں پوچھتے کہ ذمہ داری آپ کی ہے تو بنوائے گا کون؟ یہ کام کیا الگ سے کررہے ہیں یا اپنی پاکٹ منی سے کر رہے ہیں کہ لوگوں کو جتا رہے ہیں؟ خواہ مخواہ تشہیر پر خرچ کیوں کر رہے ہیں؟ اس تشہیری کلچرل کی وجہ سے لیڈران جتنا کام نہیں کرتے، اس سے زیادہ تشہیر کرتے ہیں جس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔کورونا وبا سے نمٹنے کے بعد یہ سوال لیڈروں سے کیا جانا چاہیے کہ آپ نے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا؟ اگر زیادہ بہتر نہیں کر سکے تو خواہ مخواہ کی تشہیر کیوں کی؟ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آکسیجن کتنی ہے، پھر پچھلے ایک سال میں آپ نے کیا تیاری کی؟ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں روزانہ 7,000میٹرک ٹن میڈیکل آکسیجن کی پیداوار ہوتی ہے۔ اپنے وطن میں آکسیجن پیدا کرنے کے معاملے میں اِنوکس ایئر پروڈکٹس، لنڈے انڈیا، گوئل ایم جی گیسزپرائیویٹ لمیٹڈ، نیشنل آکسیجن لمیٹڈ اہم کمپنیاں ہیں۔ روزانہ 2000 ٹن آکسیجن پیدا کر کے اِنوکس ایئر پروڈکٹس سرفہرست ہے مگر اس کا کیا اتنا آکسیجن پیدا کر دینا کافی ہے یا متذکرہ کمپنیاں جو آکسیجن پیدا کرتی ہیں، وہ ہندوستان کی موجودہ صورت حال میں کافی ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے صرف مہاراشٹر کی حالت پر غور کرلینا کافی ہے۔ 27 اپریل کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر روزانہ 50 ٹن آکسیجن چھتیس گڑھ سے، 50 ٹن آکسیجن گجرات سے، اس کے علاوہ 100ٹن آکسیجن ریلائنس کے جام نگر پلانٹ سے خرید رہا تھا تب کہیں اس کی ضرورت کسی حد تک پوری ہو پا رہی تھی جبکہ مہاراشٹر کے پاس خود روزانہ 1,250ٹن آکسیجن پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، اس لیے لیڈروں کی بیان بازی سے کام نہیں چلے گا، انہیں کام کرنا ہوگا اگر واقعی عام لوگوں کی زندگی کی انہیں پروا ہے، ورنہ غریب آدمی کی زندگی کو بھی اگر وہ اس کی حیثیت کے ترازو میں تولتے ہیں تو پھر بات الگ ہے۔
[email protected]
تعداد 2 کروڑ کے پار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS