جنوبی ریاستوں کے ایٹمی خطرات

0

پنکج چترویدی

روس اور یوکرین جنگ میں یہ بات بار بار دنیا کے لیے تشویش کا موضوع بنی ہے کہ اگر یوکرین کے کسی ایٹمی پاور ہاؤس پر حملہ ہو گیا تو پورے یوروپ کو اس کے دوررس اثرات جھیلنے ہوں گے۔ یہ موقع ہندوستان کو بھی یہ غور کرنے کا ہے کہ مستقبل میں کبھی ہمارے ملک کو جنگ میں اترنا ہوا تو جنوبی ریاستیں بالخصوص کرناٹک تو سب سے زیادہ خطرے میں ہوگی۔ کچھ سال پہلے کرناٹک پولیس نے دہشت گردوں کے ایسے گروہ کو پکڑا تھا جو ریاست کے کیگا میں واقع نیوکلیئر پلانٹ میں دھماکے کرنا چاہتے تھے۔ ویسے تو یہ بات عام لوگوں کو سمجھ میں آنے لگی ہے کہ جوہری توانائی سے بجلی حاصل کرنا ایک مہنگا سودا ہے لیکن کرناٹک ریاست میں ایک ساتھ اتنے زیادہ ایٹمی منصوبوں کے لیے اس سازش کا انکشاف خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ خطرہ اب عام لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ اگر ایٹمی پاور ہاؤس سے ہو رہا رِساؤ سمندر میں مل گیا تو کئی کئی ہزار کلومیٹر دور تک کے ممالک میں ریڈیئیشن کا ہونا طے ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا ملک اس خطرے کے تئیں آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور اکیلے کرناٹک میں 16 ایٹمی ری ایکٹر لگا دیے گئے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ریاست کے بجلی گھروں میں پہلے خطرات کا خدشہ پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ کچھ سال قبل کیگا کے ایٹمی ری ایکٹر کے تقریباً 50 ملازمین بیمار ہوئے تھے اور تب پتہ چلا تھا کہ ری ایکٹر کے ملازمین کے پانی میں ریڈیو-ایکٹیو زہر ملایا گیا تھا۔
ہندوستان دنیا کا چھٹے نمبر کا سب سے بڑا بجلی استعمال کرنے والا ملک ہے اور چین، امریکہ کے بعد تیسرے نمبر پر سب سے بڑا پروڈیوسر بھی۔ ویسے ہمارے ملک میں بجلی کی کل پیداوار کا محض چار فیصد ہی یعنی 6780 میگاواٹ ہی ایٹم سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ بجلی گھر بھی اکیلے جنگ ہی میں نہیں بلکہ قدرتی آفات یا کوتاہی کی وجہ سے ملک کی پوری آبادی کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہمارے ملک کے جوہری توانائی کے محکمے کے موجودہ کل 55 منصوبوں میں سے 16 کرناٹک میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پڑوسی ریاست تمل ناڈو، مینکوڈنکلم اور کلپکّم سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر ہیں۔ بدقسمتی سے کسی ایک میں کوئی حادثہ ہوگیا یا پھر باہری حملہ ہو گیا تو پورے جنوبی ہندوستان کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ایٹمی توانائی کے مراکز کا قیام بھلے ہی پرامن کاموں کے لیے کیا گیا ہو لیکن وہ ہمارے سیکورٹی سسٹم کے لیے تو خطرہ ہوتے ہی ہیں۔ اس سے زیادہ خوفناک یہ ہے کہ ان علاقوں میں ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے نہ تو محفوظ بنکر ہیں اور نہ ہی ایٹمی دھماکے سے زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی اسپتال۔ اور پھر سونامی نے خطروں کا نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔
کیگا میں 880 میگاواٹ کے ایٹمی ری ایکٹروں کی تعداد 6 ہوگئی ہے۔ ریاست کے شمالی کنڑ علاقے میں یورینیم کی کانکنی ہوتی ہے۔ اس کی پیلے رنگ کی ٹکیا بناکر ریفائنڈ کرنے کے لیے حیدرآباد بھیجا جاتا ہے۔ وہاں سے حاصل دھات کا استعمال کیگا میں بجلی بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ حالانکہ سرکاری طور پر کبھی نہیں قبول کیا جاتا ہے کہ حیدرآباد سے آئے ریفائنڈ یورینیم کو رتن ہلّی میں واقع ’انتہائی خفیہ‘ ریئر ارتھ مٹیریل پلانٹ میں بھی بھیجا جاتا تھا۔ بنگلور میں ایٹامک ریسرچ لیباریٹری ہے اور گوری بڈنور میں زلزلہ ریسرچ سینٹر۔
خفیہ اور پراسرار ریئر ارتھ مٹیریل پلانٹ(آر ای ایم پی)، رتن ہلّی کو ہی لیں۔ یہ بات انتظامیہ ہمیشہ چھپاتا رہا ہے کہ کاویری ندی پر بندھے کے آر ایس ڈیم کی جھیل کے آبی ذخیرے کے علاقے میں واقع اس کارخانے میں بنتا کیا ہے لیکن دبے الفاظ میں چرچہ یہی ہے کہ یہاں نیوکلیئر بم کا بنیادی مصالحہ بنتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسٹرٹیجک اہمیت کی وجہ سے اس پلانٹ کا انکشاف کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اس رازداری کی آڑ میں لاکھوں لوگوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ یہاں کی ریڈیو ایکٹیو آلودہ ہوا، پانی اور مٹی لوگوں کے جسم کو کھوکھلا بنا رہے ہیں۔ پلانٹ میں پیدا ہونے والی زبردست تپش کو کم کرنے کے لیے کے آر ایس ڈیم سے ہی پانی لیا جاتا ہے اور پھر اسے یہیں بہا بھی دیا جاتا ہے جبکہ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پلانٹ کی نکاسی میں یورینیم-235، 238 اور 239 کے لیتھل آئی سوٹوپس کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ اس ڈیم سے مانڈیا اور میسور میں لاکھوں ایکڑ کھیتوں کی آبیاری کی جاتی ہے، بنگلور شہر کو پینے کے پانی کی سپلائی بھی ہوتی ہے۔
کرناٹک میں یورینیم کی دستیابی کے علاوہ اور کیا وجوہات ہیں کہ اسے جوہری جیسے حساس معاملے کے لیے محفوظ سمجھا گیا؟ سرکاری جواب ہے کہ یہ ریاست ہندوستان کے روایتی دشمن ممالک چین اور پاکستان سے مناسب دوری پر ہے لیکن کبھی یہ نہیں غور کیا گیا کہ عالمی منظرنامے میں پڑوسی ممالک کے بہ نسبت امریکہ ہندوستان کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے امریکہ سمندری ساحلوں سے لاکھوں کلومیٹر دوری پر بے حد محفوظ ہے لیکن اس کی دیاگو-گارسیا میں واقع فوجی چھاؤنی کی کنیاکماری سے دوری محض1500 کلومیٹر ہے۔ اس چھاؤنی میں کم سے کم 35 ایٹمی میزائلیں ہندوستان کے اہم شہروں کو نشانہ بناکر تعینات ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کئی ایک کا نشانہ کرناٹک کے نیوکلیئر پلانٹ ہوں گے ہی۔ غور طلب ہے کہ کوئی بھی پڑوسی ملک ایٹمی ہتھیار کا استعمال کر کے خود بھی اس کے قہر سے بچ نہیں سکتا ہے۔ اس طرح کے خطرے دوردراز دشمنوں سے ہی زیادہ ہیں۔
ہندوستان میں ایٹمی توانائی کے ابتدائی منصوبہ ساز اور نیوکلیئرپاور کمیشن کے صدر رہے ڈاکٹر راجا رامنّا بنیادی طور پر کرناٹک کے ہی تھے۔ اس ریاست میں ایٹمی توانائی کے اتنے زیادہ منصوبوں کا ایک سبب یہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے زیادہ خطرات ساحلی ریاستوں میں ہیں اور ایسے میں یہاں زیادہ ایٹمی پاور ہاؤس نئے طریقے کی آفت بن سکتے ہیں۔یہی غور کرنے کا صحیح وقت ہے کہ ہندوستان اپنے ایٹمی پاور ہاؤسز کو ایک ہی علاقے میں مرکوز کرنے پر پھر سے غور کرے، بہتر تو یہی ہوگا کہ ہم ایٹمی بجلی پر انحصار ہی ختم کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS