مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
اسلام اجتماعیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے،لہذا مسجدیں ملت اسلامیہ کیلئے اجتماعی مراکز کی حیثیت اپنے اندر رکھتی ہیں،آنحضورؐ نے بھی اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے، چنانچہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں آپ نے سب سے پہلے مسجد کا قیام عمل میں لایا تا کہ مسلمان اپنے مرکز سے چمٹے رہیں۔ مدنی دور کے ابتدائی ایام میں نماز با جماعت کے لئے لوگوں کو بلانے کا کوئی معقول انتظام نہیںتھا، اہل ایمان وقت کا اندازہ کر کے مسجد میں آتے اور نماز ادا کرتے لیکن حضرت محمدؐ کو یہ چیز پسند نہیں تھی، آپ نے ارادہ فرمایا کہ کچھ لوگوں کو اس کام پر لگادیا جائے کہ ہر نماز کے موقع پر وہ مسلمانوں کے گھروں تک جائیںاور نماز کیلئے اطلاع کردیں لیکن اس میں آپؐ نے زحمت کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر عمل نہیں کروایا۔ چنانچہ آپ نے اپنے اصحاب کو بلا کر مشورہ فرمایا تو مختلف مشورے آپ کی خدمت میں پیش فرمائے گئے،کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں علامت کے طور پر علم استادہ کردیا جائے تا کہ لوگ اسے دیکھ کر نماز کیلئے حاضر ہوتے رہیں۔ آقائے نامدارؐ کو یہ تجویز نا پسند ہوئی۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں عبادت کیلئے بلائے جانے کا جو طریقہ رائج تھا اسے بھی آنحضور کی خدمت اقدس میں پیش کیاگیا لیکن رسالت مآب ؐ کو یہ بھی پسند نہیں آیا۔ آخر کار حضرت عمرؓ کی رائے آپ کو پسند آئی اور حضرت بلالؓ کو حکم فرمایا کہ اذاں دیں کیونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی۔ روایات میں اور کتب سیرت میں اذان کی ابتداء کب سے ہوئی اس سلسلہ میں ۱؍ ہجری یا ۲ ؍ہجری کا ذکرہمیں ملتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ۱؍ ہجری کے اختتام یا ۲ ؍ہجری کے آغاز میں اذان کا موجودہ طریقہ ایجاد ہوا ہو یا پھر شروع شروع میں حضرت بلالؓ گلیوں میں پکارتے تھے کہ ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ یہ یکم ہجری میں ہوتا تھا ہوگا۔ پھر بعد میں نبیؐ کے حکم پر ہی ۲ ہجری سے مروجہ اذان دی جانے لگی۔
اذان کیسے شروع ہوئی اس سلسلہ میں علامہ مفتی شریف الحق امجدی تحریر فرماتے ہیںکہ:
اس خصوص میں سب سے صحیح وہ روایت ہے جسے ابوداؤد اور ترمذی و ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ؐ نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا۔ تا کہ لوگوں کو نماز کیلئے اکٹھا کرنے کیلئے بجایا جائے۔ تو میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے پاس گھوم رہا ہے۔ انہوں نے اس سے کہا اے اللہ کے بندے اسے بیچوگے؟اس نے پوچھا تم اسے کیا کرو گے، انہوں نے کہا ہم اس سے لوگوں کو نمازکیلئے بلائیں گے،اس نے کہا۔ کیا میں اس سے عمدہ بات نہ بتادوں، انہوںنے کہا ضرور بتائو۔ تو اس نے کہا یوں کہو (اور اس نے پوری اذان بتائی)۔حضرت زید کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے جو خواب میں دیکھا تھا عرض کردیا۔ ارشاد فرمایا : یہ خواب حق ہے،بلال کے ساتھ کھڑے ہوجائو اور جو خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائو۔ وہ اذان دیں اس لئے کہ ان کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے اب میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوگیا، میں انہیں بتاتا وہ اذاں دیتے۔ اسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر سنا تو اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نکلے یا رسول اللہ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے بھی وہی دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔ اب رسول اللہؐ نے فرمایا : ’’فللہ الحمد ‘‘( نزھۃ القاری جلد سوم کتاب لاذان)
یہاں تک ہم نے اذان کی شروعات اور اس کے کلمات اور اسی طرح اقامت کا طریقہ وغیرہ مختلف روایات سے معلوم کرلئے ہیں اب آگے اذان کا فلسفہ اور اس کے جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں اس کے مفہوم کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں کیونکہ ہم اس کے معنی و مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کی جو اہمیت اور جو عظمت و فضیلت ہے وہ ہمارے دلوں میں جیسا کچھ بیٹھنا چاہئے نہیں بیٹھی جس کا ثبوت ہماری مساجد پیش کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں آباد ہیں اس کے عین مطابق مسجد میں آنے والوں کی تعداد میں زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ آقائے نامدارؐ نے مسجد کی حاضری کو ایمان کی نشانی بتلایا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے رسول اللہ ٔ نے فرمایا جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد سے لگائو رکھتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے ایمان کی شہادت دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزقیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔(ترمذی،ابن ماجہ)
ہمارے ایک عظیم بزرگ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مختصر کلمات میں پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا۔ وہ اذان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا کہ :’’یہ واقعہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ احکام شرعیہ کا مواد حکمتوں اور مصلحتوں سے پر۔ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہوا ہے کہ اذان صرف اعلان و آگہی ہی نہ ہو،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ شعارِ دین میں سے ایک مستقل شعار بھی ہو،اسی طرح جو لوگ غافل ہوں یا خبردار،لیکن مسجد سے دور رہتے ہوں ان کے سروں پر پکاردی جائے اور اس شعار دین کی عزت و توقیر کی جائے اور جو جماعت اسے قبول کرے اس کے متعلق علامت قرار پائے کہ یہ دین الٰہی کے تابع ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلمات اذان ذکر اللہ اور شہادتیں سے مرتب ہیں۔ ان میں ایسے کلمات بھی ہیں جن میں صراحتاً نماز کی طرف دعوت پائی جاتی ہے۔مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ اذاں کیلئے جو کلمات ادا کئے جاتے ہیں یہ کوئی معمولی الفاظ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق دین الٰہی سے انسان کے لگائو اور اس سے گہری وابستگی سے ہے۔