شاہد زبیری
حالات بھی کس طرح پلٹا کھاتے ہیں بی جے پی مخالف پارٹیاں جوکل تک مسلمانوں کے آگے پیچھے پھرتی دکھا ئی دیتی تھیں رمضان میں افطار پارٹیوں کو لے کر ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کو شش کرتی تھیں اور ان کے لیڈر افطار پارٹیوں میں بڑے فخر سے سر پر دو پلّی ٹوپی اورگلے میں روایتی طرز کا چوخانہ روما ل ڈال کر فوٹو کھچواتے اور شائع کراتے تھے پورے رمضان’ مسلم نوازی‘ کا یہ کھیل ملک بھر میں ہر سال کھیلا جا تا تھا لیکن2014کے بعد جہاں ملک میں بہت کچھ بدلا اس کے ساتھ یہ مناظر بھی بدل گئے ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ جب سے مرکز میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے کسی بی جے پی مخالف پارٹی کے کسی چھوٹے بڑے لیڈر نے ایسی کسی افطار پارٹی میں شرکت کی ہو، سر پر ٹوپی اور گلے میں رومال کی بات تو چھوڑئے میاں اب تو ان لیڈروں کو مسلمانوں کا نام لیتے وقت زبان پر آبلے پڑجا نے کا خوف لگا رہتا ہے اور ہاتھوں سے ہندو ووٹ کھسکنے کا ڈر لگا ہوا ہے ۔یہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہوا اس کیلئے سنگھ پریواراوربی جے پی کو پورے 75سال پاپڑ بیلنے پڑے اور مسلمانوں کے ’ تسٹی کرن‘ یعنی چاپلوسی کا جھوٹ مسلسل بولنا پرا تب جاکے اس کو یہ کامیابی ملی اور اس نے اپنی مخالف جماعتوں کو آج اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ وہ بھولے سے بھی مسلمانوں کا نام نہیں لیتی ہیں لیکن مسلمان پھر بھی ان پارٹیوں کی جھولی میں غیر مشروط پر تھوک ووٹ ڈالتا آرہا ہے 2017میں یوپی کے مسلمانوں کے یکمشت ووٹ سماجوادی پارٹی کے کھاتہ میں ڈالے یہ جانتے ہوئے بھی کہ سماجوادی پارٹی کے قائد کے ہاتھوں میں بھگوان پرشو رام کا فرسہ ہے اور برہمن سماج سے وعدہ کہ سرکار بننے پر یو پی کے ہر چوک پر بھگوان پرشو رام کی مورتی نصب کروائیں گے ۔ایک یو پی ہی کیا بہار ہو کہ بنگال ،مہاراشٹر ہو یا کرناٹک اور یا تلنگا نہ سب جگہ انتخابات میں مسلمان غیر بی جے پی پارٹیوں کی جھولیاں اپنے ووٹو ںسے بھر تے آرہے ہیں اور تو اور دہلی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی مسلمانوں نے آپ پارٹی کو مایوس نہیں کیا جبکہ دہلی کے فساد میں آپ پارٹی اور اس کے قائد کے کردار سے مسلمان شدید نا راض تھے۔
یہ بات بی جے پی کیلئے پریشان کرنے والی تو ہے ہی کہ یہ سب ہوتے ہوئے بھی آخرمسلم ووٹ ادھر ادھر منتشر ہوکر بیکار کیوں نہیں جارہا اور کیوں اپنی سیاسی اہمیت اور طاقت کا احساس آج بھی کرا رہا ہے اس کا حل سنگھ پریوار اور بی جے پی کے کے تھنک ٹینک نے شاید یہی نکالا کیوں نہ اس مسلم ووٹ کو اپنے پالے میں کیا جا ئے۔
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی مسلم ووٹر کو پہلے سے اسکے لباس اور اس کی وضع قطع سے اچھی طرح پہنچانتے ہیں اور یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ بھی سر پر جالی دار ٹوپی اور تہمد والے مسلمانوں کی شناخت کرنے میں دیر نہیں لگا تے اب اسے کیا کہیں کہ اس خاص وضع قطع اور جالی دار ٹوپی اور تہمد والے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق پسماندہ مسلمانوں سے ہے لیکن اسے حالات کی ستم ظریفی کہئے کہ سنگھ پریواار اور بی جے پی ان پسماندہ مسلمانوں کے لباس کا مذاق اُراتی رہی ہے اور اشراف کہے جانے والے مسلمان دانشوروں پر دائوں لگاتی رہی خواہ وہ ماضی میں عارف بیگ ہوں یا سکندر بخت اور یا نجمہ ہبت اللہ یا ایم جے اکبر اور اعزاز رضوی یا سید شاہنواز ہوں یا مختار عباس نقوی اور محسن رضا اور جن مسلم دانشوروں کو سنگھ کے سر سنچالک موہن بھاگوت جی نے کچھ وقت پہلے شرفِ ملاقات بخشا ہے ان کا تعلق بھی اشراف سے ہے۔شاید سنگھ پریوار کو اپنی اس غلطی کا احساس ہو چلا ہے اسی لئے تو اس نے انتہائی لائق فائق مسلم دانشوروں کی بات پر کان نہیں دھرے ان کے شکوے شکا یات کو لائقِ اعتناء نہیں سمجھا اور نہ ان کے مکتوب کو کوئی اہمیت دی اابھی تک اس کا کوئی جواب تک نہیں دیا ۔مسلم دانشوروں کا ایک اور وفد ایک مسلم جماعت کے قائد کے طفیل ابھی کل پرسوں مسلمانوں کی بابت گل افشانی کرنے والے وزیرداخلہ امت شاہ سے شرفِ نیاز کر کے لوٹا ہے اس وفد نے بھی شہیدوں میں اپنا نام لکھوانے کیلئے ایک 14نکاتی مطالبات اور شکایات کے ساتھ اپنی فریاد رکھی اوریہ مژدہ بھی سنایا ہے کہ ہمارے وزیرِ داخلہ ایسے نہیں جیسا وہ نظر آتے ہیں وفد نے تو ان کو اس کے برعکس پایا جیسا کہ مسلمان خیال کرتے ہیں پتہ نہیں مسلمان وفد کے اس خیال سے متفق ہوں گے کہ نہیں ۔ ہمارے کرم فرما ایک مسلم دانشور کا مشورہ ہے کہ مسلمانوں کی مقتدر جماعتوں کے رہنمائوں کو وزیر اعظم سے ملنا چاہئے اور توجہ دلانی چا ہئے اور جہاں تک ممکن ہو ایک با مقصداور با معنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہئے یہ اس لئے کہ سوال صرف مسلمانوںکے بچا نے کا نہیں بلکہ خود ہندوستا ن کو محفوظ رکھنے کا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم جو وفود بھاگوت اور امت شاہ سے مل چکے ہیںان کی گفتگو کتنی با مقصد اور با معنی تھی بظاہر تو بے نتیجہ رہی ۔ اسی دوران بی جے پی نے ایک اور مسلم دانشور پر نہ جانے کیا سوچ کر دائو لگا یا ہے یہ مسلم دانشورکل تک مسلم یونیورسٹی جیسے ادارہ کے وائس چانسلر تھے ۔
2017سے اب تک اپنے دورِ وائس چانسلری کے لگ بھگ 6سالوں میں انہوں نے مسلم یو نیورسٹی پر جو نوازشیں کی ہیں وہ تاریخ کا حصّہ بن چکی ہیں۔ یہ صاحب اب مسلم یو نیورسٹی کی اپنی کار کر دگی اور قابلیت کی بنیاد پر سنگھ اور بی جے پی کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں اور ایم ایل سی کے اعزاز اور منصب سے سرفراز کئے گئے ہیں یہ چوتھے مسلمان ہیں جن کو بی جے پی نے یو پی میں ایم ایل سی بنایا ہے ان سے پہلے محسن رضاسمیت 3مسلمان یہ اعزاز پاچکے ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں چرچہ ہیکہ نئے ایم ایل سی صاحب کی ابھی ایک اور لاٹری کھل سکتی ہے اور ان کو کسی کمیشن کے چیئر مینی کا تمغہ مل سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ جس بی جے پی نے 4مسلمانوں کو ایم ایل سی بنایا ہے مسلمانوں میں وہ مقبول نہیں جبکہ سماجوادی پارٹی کے 9ایم ایل سی ہیں ان میں صرف دو مسلمان شاہنواز خاں اور مسٹر انصاری ہیں۔
سنگھ پریوار اور بی جے پی کے تھنک ٹینک کی ہدایت پر بی جے پی اور خود وزیر اعظم نریندر مودی مسلم دانشوروں کے بعد اب پسماندہ مسلمانوں پر دائو لگارہے ہیںاور بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کیساتھ’ سنواد‘ نام سے پروگرام رکھ کر پسماندہ مسلمانوں سے ملک بھر میں رابطے بنارہی ہے اس نے کرناٹک کے بدری ہینڈی کرافٹ کے ایک ہنر مند اور دستکار راشد احمد قادری کو حال ہی میں پدم شری جیسے ملک کے ایک بڑے اعزاز سے نوازا ہے اس کیلئے ان صاحب نے وزیر اعظم نریندر مودی کا خاص طور پر احسان جتا یا ہے اور اپنے اس دکھ کا اظہار کیا ہے کہ کانگریس کے دورِ حکومت میں ان کو یہ اعزاز نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے ان کو یقین نہیں تھا کہ بھگوا پارٹی ایک مسلم دستکار کو اس کا حق دے گی۔
بہر کیف وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی اپنی ہر ممکن کوشش کرر ہے ہیں کہ اشراف اور پسماندہ کے نام پر مسلمانوںکے مابین نہ صرٖ ف خلیج کو گہرا کیا جائے بلکہ مسلم ووٹو ں میں جیسے بھی ہو سیندھ ماری کی جا ئے تاکہ 2024کے پارلیمانی انتخابات اور اس سے پہلے ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میںمسلم ووٹوں کاکچھ حصّہ یا تو اس کے کھاتہ میں آجا ئے یا اس کو بیکار کر دیا جائے اور مخالف پارٹیاں اس کا فائدہ نہ اٹھا پائیں اس کا موقعہ خود غیر بی جے پی پارٹیاں بی جے پی کو دے رہی ہیں ہم اگر اس الزام کو صحیح بھی مان لیں کہ رام نومی کے موقعہ پر بہار اور بنگال میں فرقہ پرستوں نے جس طرح مسلمانوں کے جان ومال اور ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا اس کے پیچھے سنگھ پریوار کے گماشتوںبجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کا ہاتھ ہے لیکن سرکار تو ممتا بنرجی اور نتیش کمار کی ہے اس نے ایسا کیوں ہونے دیا کیوں اس کی پولیس اور اس کی انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے یہ ننگا ناچ ہوتا رہا ؟۔ بہارکے چیف سکریٹری تو خیر سے ایک باریش مسلمان ہیں اور ڈی جی پی بھی اقلیتی فرقہ کے سردار جی ہیںپھر یہ سب کیسے ہوا؟
[email protected]
اب پسماندہ مسلمانوں پر دائو لگا رہی ہے بی جے پی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS