حیرانی ناقابل فہم نہیں

0

اگر کسی ایکٹ کا کوئی سیکشن ختم کردیا جائے، اس کے باوجود اس کا استعمال جاری رہے تو ایسی صورت میں حیرانی کسی کو بھی ہوگی، چنانچہ اس پر سپریم کورٹ کی حیرانی ناقابل فہم نہیں ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کو 2015 میں ہی رد کر دیا گیا مگر لوگوں کے خلاف کیس درج کرنے کے لیے اس کا استعمال ابھی بھی ہو رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کے تحت ان لوگوں کو 3 سال تک جیل کی سزا دی جا سکتی تھی جو انٹرنیٹ پر قابل اعتراض مواد پوسٹ کرتے تھے۔ غیر سرکاری تنظیم پیپلز یونین فار سِول لبرٹیز کی عرضی پر سنوائی کرتے ہوئے جسٹس آر ایف نریمن، جسٹس کے ایم جوژف اور جسٹس بی آر گوئی نے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ ان کی طرف سے اس سلسلے میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کی پیروی کر رہے سینئر ایڈووکیٹ سنجے پاریکھ سے پوچھا گیا کہ ’آپ کو یہ حیرت کی بات نہیں لگتی؟ شریا سنگھل جج مینٹ سال 2015 کا ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ جو کچھ چل رہا ہے، وہ ڈرانے والا ہے۔‘ یہ صورت حال واقعی ڈرانے والی ہے مگر ایک بات سامنے آگئی ہے تو کوشش یہ جاننے کی کی جانی چاہیے کہ 2015 کے بعد کتنے لوگ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کے تحت جیلوں میں بند ہیں، جاننے کی کوشش یہ بھی کی جانی چاہیے کہ اور کون سی دفعات ختم کی جا چکی ہیں مگر ان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حقائق جاننے کے لیے باضابطہ ایک کمیٹی کی تشکیل کی طرف توجہ دی جانی چاہیے، کیونکہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے، کافی وسیع ملک ہے اور کن دفعات کے رد ہو جانے کے باوجود ان کا استعمال کہاں ہو رہا ہے، یہ جاننا آسان نہیں ہے مگر انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ یہ جاننے میں کامیابی حاصل کی جائے اور اسی کے ساتھ یہ جاننے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ قوانین کا کہاں غلط استعمال ہورہا ہے تاکہ حالات بہتر بنانے کی کوشش ناکامیوں سے دوچار نہ ہو، عام لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ ہماری عدالتیں ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو انصاف دلانا چاہتی ہیں، انہیں یہ منظور نہیں کہ کسی بھی وجہ سے ان کے ساتھ ناانصافی ہو۔
سپریم کورٹ کے سامنے حکومت کا مؤقف رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال کا یہ کہنا تھا کہ ’آئی ٹی ایکٹ کو پڑھتے وقت سیکشن 66 اے وہاں لکھا نظر آتا ہے لیکن فٹ نوٹ میں یہ جانکاری دی گئی ہوتی ہے کہ یہ التزام ختم کر دیا گیا ہے۔ ۔۔۔جب ایک پولیس عہدیدار کیس رجسٹر کرتا ہے تو وہ یہ سیکشن دیکھتا ہے اور بغیر فٹ نوٹ کو دیکھے وہ کیس رجسٹر کر لیتا ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ سیکشن کے بغل میں ہی بریکٹ میں یہ لکھ دیں کہ یہ التزام ختم کر دیا گیا ہے۔‘ ان کی یہ تجویز اچھی ہے، امید کی جانی چاہیے کہ اس پر توجہ دی جائے گی مگر یہ سوال پھر بھی جواب طلب ہے کہ کسی دفعہ کے اضافے یا اس کی منسوخی سے کیا ان عہدیداروں کو منظم طریقے سے واقف نہیں کرایا جاتا ہے جن کے توسط سے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں؟ اگر متعلقہ عہدیداروں کو نئی دفعات کے اضافے یا پرانی دفعات کی منسوخی کے بارے میں واقف کرایا جاتا ہے تو پھر رد کیے جانے کے باوجود انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کا استعمال کرنے والوں سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ ایسا انہوں نے کیوں کیا؟ عام آدمی قانون توڑتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے، پھر ان لوگوں کو سزا کا مستحق کیوں نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے جو ایک رد سیکشن کا استعمال لوگوں کے خلاف کرتے رہے ہیں؟ اگر متعلقہ عہدیداروں کو قانون میں ترمیم و اضافے کے بارے میں مناسب طریقے سے واقف نہیں کرایا جاتا ہے تو سرکاروں سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ دفعات میں اضافے یا منسوخی کی خبر ہی متعلقہ عہدیداروں کو نہیں ہوگی تو پھر وہ قوانین نافذ کیسے کریں گے؟ ویسے اس سلسلے میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے وکیل سنجے پاریکھ کا کہنا ہے کہ ’2019 میں سپریم کورٹ نے ریاستی سرکاروں کو واضح طور پر یہ ہدایت دی تھی کہ پولیس ملازمین کو 24 مارچ، 2015کو دیے گئے شریا سنگھل جج مینٹ کے بارے میں جانکاری دی جائے۔‘ اس پر ریاستی سرکاروں نے کتنا عمل کیا؟ 2019 کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66 اے کے تحت کتنے مقدمے درج ہوئے؟ امید کی جانی چاہیے کہ عدالت یہ جاننے کی کوشش ضرور کرے گی۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کا مزید مؤقف اس وقت سمجھ میں آئے گا جب دو ہفتے بعد اس معاملے کی وہ سنوائی کرے گی مگر فی الوقت اس معاملے نے یہ تشویش پیدا کر دی ہے کہ رد سیکشن کا استعمال بھی ہوتا رہا ہے۔ اس صورت حال میں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ عام لوگ بھی قوانین جاننے کی کوشش کریں، اگر کسی معاملے میں ان کے کسی رشتہ دار، دوست و احباب یا کسی اپنے کے خلاف کیس درج ہوتا ہے تو انہیں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کن دفعات کے تحت کیس درج ہوا ہے اور وہ نافذ ہیں یا نہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS