تعداد نہیں، بااختیار بنانے کی جنگ

0

مشہور ماہرنفسیات سگمنڈ فرائڈ کا نفسیاتی تجزیے پر مبنی ایک اصول ہے صنف مخالف کے تئیں کشش۔ لیکن مثال کی کسوٹی پر اس اصول کا دائرہ عاشق- معشوق یا شوہر-بیوی تک محدود نہیں رکھا گیا، بلکہ ایک ماں کی بیٹے کے تئیں محبت یا ایک والد کی بیٹی کے تئیں زیادہ کشش اور محبت تک اس کی وسعت ہے۔ اور جب یہی اصول مستقبل کے آئینہ میں اترتا ہے تو جنسی تناسب کا سائیکل ایک بار گھوم جاتا ہے۔ مثلاً مردوں کی تعداد زیادہ ہو تو، مستقبل میں خواتین کی تعداد میں اضافہ بھی طے سمجھا جاتا ہے اور حقائق اسے ثابت بھی کررہے ہیں۔
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی سیاسی گہماگہمی اور کسان تحریک کی رسہ کشی کے درمیان ایک بے حد مثبت خبر کو اتنی توجہ حاصل نہیں ہوپائی ہے، جس کی وہ صحیح معنوں میں حق دار ہے۔ یہ خبر ملک میں عورت-مرد کی تعداد کے تناسب میں آئی تاریخی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہی نہیں، بلکہ زیادہ ہوگئی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کے پانچویں دور کے اعداد و شمار سے جانکاری سامنے آئی ہے کہ اب ملک میں فی 1000مردوں پر عورتوں کی تعداد 1020ہوگئی ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ صنفی تناسب شہروں کے مقابلہ گاؤوں میں بہتر ہوا ہے۔ گاوؤں میں 1000مردوں پر 1037 عورتیں ہیں، جب کہ شہروں میں 985 خواتین ہی ہیں۔ بڑی خوش خبری یہ بھی ہے کہ کئی ریاستوں میں بیٹیوں کی شرح پیدائش میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی سروے کے اعداد و شمار سے یہ بھی راحت مل رہی ہے کہ اب آبادی دھماکہ کا خطرہ بھی کافی کم ہوگیا ہے۔
سروے کے مطابق گزشتہ 6سال میں ملک کے صنفی تناسب میں 10نمبروں کی بہتری آئی ہے۔ 2015-16میں جب اس طرح کا ہیلتھ سروے ہوا تھا، تب یہ اعدادوشمار فی 1000 مردوں پر 991عورتوں کا تھا۔ این ایف ایچ ایس کی شروعات 1992میں ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے ملک نے تقریباً تین دہائیوں میں صنفی تناسب میں اس انقلابی تبدیلی کے سفر کو کامیابی کے ساتھ پورا کیا ہے۔ بیشک این ایف ایچ ایس سروے چھوٹے پیمانہ پر منعقد ہوتے ہیں۔ اس لیے جب قومی مردم شماری کے نتائج نہیں آجاتے تب تک ان کی صداقت پر سوال قائم رہتا ہے۔ اس کے باوجود کیوں کہ یہ سروے ضلع سطح تک جاکر منعقد ہوتے ہیں، اس لیے مستقبل کے اشاریہ کے طور پر ان کی قبولیت کو عام طور پر شبہ سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔
جو سروے آیا ہے اس کے نتائج خاص طور پر کافی حوصلہ افزا ہیں۔ بچوں کے صنفی تناسب پر یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ ابھی بھی ایک ہزار نوزائیدہ پر بیٹیوں کی تعداد 929ہی ہے، لیکن راحت دینے والا اس کا پہلو یہ ہے کہ اس تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومتی سطح پر سختی اور بیداری کے سبب زچگی سے قبل صنف کا پتہ کرنے اور جنین کشی کے معاملات میں کمی آئی ہے۔ ہمارے ملک میں بیٹیوں کی پیدائش کے دن سے ہی ان کی شادی کا خرچ جمع کرنے کی پرانی روایت رہی ہے۔ بیٹی کو ’پرایادھن‘ سمجھنے کی نفسیات کے سبب آج بھی کئی پسماندہ طبقات میں لڑکیوں کو اسکول بھیج کر خودکفیل بنانے کی تعلیم دینے کے بجائے انہیں گھر کے کاموں میں ماہر بناکر ’اچھی بیوی‘ بننے کی بات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ہریانہ اور راجستھان کے کئی علاقوں میں بچیوں کو ماں کے رحم میں ہی مار دینے کے واقعات کم ضرور ہوئے ہیں لیکن یہ طوری طرح ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ان باتوں کا ذکر اس لیے ضروری ہے کیوں کہ جب ہم ان حقائق کا ہیلتھ سروے کے نتائج سے موازنہ کریں گے تبھی اس تبدیلی کی اہمیت کو ٹھیک سے سمجھ پائیں گے۔ اسی چیلنج کو بھانپ کر ملک کی حکومتیں طویل عرصہ سے اس تبدیلی کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔ مسلسل اس سمت میں ایک کے بعد ایک کئی قدم اٹھائے گئے۔ خاص طور پر مرکز کی موجودہ مودی حکومت نے تو خواتین کو بااختیار بنانے کے وژن کو مشن کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ مودی حکومت نے اپنی مدت کار میں جس ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم کو ملک کا عزم بنایا، اس کے بارے میں نیتی آیوگ کی رپورٹ کا اندازہ ہے کہ اس سے صنفی امتیاز میں کمی آئی ہے اور لڑکیوں کے تعلق سے معاشرہ کے لوگوں کی بیداری اور نظریہ دونوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔
’ناری‘ میں ’نارائنی‘ والے اس تصور پر کام کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہندوستان ’خواتین کی ترقی‘ کی سوچ سے آگے نکل کر ’خواتین کی قیادت والی ترقی‘ میں تبدیل ہو۔ اس کے لیے حکومت نے خاص طور سے ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا ہے جو خواتین کی حقیقی صلاحیت کی پہچان کرے، انہیں بااختیار بنائے اور ملک کی ترقی کے باب میں تعاون دینے کا ذریعہ ثابت ہو۔ صحت اور صفائی کی ہی مثال لیں توآج خواتین کے لحاظ سے اس شعبہ میں قابل ذکر بہتری ہوئی ہے۔ اس سے متعلق یونیسیف کی گزشتہ سال فروری میں آئی رپورٹ بتاتی ہے کہ کیسے دیہی ہندوستان میں بڑے پیمانہ پر ہوئی بیت الخلا کی تعمیر نے مقامی خواتین کے تحفظ، سہولت اور عزت نفس میں اضافہ کرنے میں تعاون دیا ہے۔ اسی رپورٹ میں ماں کی صحت اور فلاح کو بڑھاوا دینے کا کریڈٹ بھی حکومت کے عزم کو دیا گیا ہے۔ این ایف ایچ ایس سروے میں ملک کے کھاتہ میں جڑی ایک اور بڑی حصولیابی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ سروے کے مطابق ملک میں خود کا بینک کھاتہ رکھنے والی خواتین کی تعداد میں 25فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اب 78فیصد سے زیادہ خواتین اپنا بینک کھاتہ آپریٹ کررہی ہیں۔ وہیں 43فیصد سے زیادہ خواتین کے نام پر کوئی نہ کوئی پراپرٹی ہے۔ یقینا پردھان منتری جن دھن یوجنا نے اس تبدیلی میں اہم کردار نبھایا ہے۔ اس اسکیم کی مدد سے دیہی اور شہری علاقوں میں 18کروڑ سے زائد خواتین کو پہلی مرتبہ رسمی بینکنگ اور دیگر فائنانشیل سروسز سے وابستہ ہونے کا موقع ملا ہے۔
خواتین کو بااختیار بنانے کی یہ دو مثالیں آج ملک میں چل رہی اس مہم کا محض ایک حصہ ہیں جس میں خواتین کو سیاست، تجارت، طب، کھیل، زراعت جیسے تمام سیکٹروں میں خودکفیل بنانے کے مواقع دستیاب کروائے جارہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کی خواتین اگر اپنا گھر سنبھال رہی ہیں تو مسلح فورسز اور چندر مشن کی قیادت بھی کررہی ہیں۔آج کے ہندوستان میں ’خواتین کی قیادت والی ترقی‘ کی ترقی پسند سوچ نے بنیادی سہولتوں، صحت، تعلیم، روزگار اور اسکل ڈیولپمنٹ تک ان کی پہنچ کی مضبوط راہ ہموار کی ہے۔ یقینا یہ وزیراعظم کی انقلابی اور دوراندیش سوچ کے سبب ممکن ہوا ہے جس نے خواتین کو ملک کی ترقی کی اہم طاقت بننے میں مدد کی ہے، لیکن ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نہیں بھلایا جانا چاہیے کہ بیشک ہم نے وسیع پیمانہ پر اصلاحات کے ذریعہ صنفی تناسب میں ایک سنگ میل پار کرلیا ہو، ملک کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کئی سیکٹروں میں ابھی بھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ سوال اس صنفی امتیاز کا بھی ہے، جس میں دیہی علاقوں میں رہ رہی ہماری خواتین کو آج بھی شہری خواتین کی طرح تعلیم، روزگار، صحت، دیکھ بھال اور فیصلہ لینے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ سوال نظریہ میں تبدیلی کا بھی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS