ہوائی سروس میں پاس کی نہیں، دور کی سوچئے

کچھ دوری کا سفر ہو تو جہاز کے مقابلہ میں سڑک، ٹرین سے سفر کرنا بہتر ہے

0

بھرت جھنجھن والا

ملک کا ہوابازی کا شعبہ(Aviation Sector)گزشتہ دہائی سے اڑ نہیں پارہا ہے۔ ایئر انڈیا خسارہ میں چل رہی ہے، جیٹ ایئرویز کا دیوالیہ نکل چکا ہے اور انڈیگو کے فائدہ میں زبردست کمی آرہی ہے۔ کووڈ نے اس بحران کو مزید گہرا بنادیا ہے، لیکن مسائل کی جڑ کہیں اور ہی ہے۔ ہندوستان میں ہوابازی کا مسئلہ ریل اور سڑک کا متبادل دستیاب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ دہلی سے بنگلورو جانے کے لیے سیکنڈ اے سی کا کرایہ 2935روپے ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک ماہ آگے کی ہوائی ٹکٹ 3170روپے کی مل رہی ہے جو کہ تقریباً برابر ہے۔ فرق یہ ہے کہ ٹرین میں 2راتیں اور ایک دن کا وقت لگتا ہے اور کھانے کا بھی خرچ ہوتا ہے، جب کہ ہوائی سفر میں کل 7گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ اس لیے لمبی دوری کے سفر میں ہوائی جہاز بہتر ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ اگر فوراً جانا ہو تو ہوائی سفر کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اور ٹرین سے سفر فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
اب لکھنؤ سے دہلی کے سفر کا مقابلہ کریں۔ سیکنڈ اے سی میں ٹرین کا کرایہ 1100روپے ہے، جبکہ ایک ماہ آگے کا ہوائی سفر کا کرایہ 1827روپے ہے۔ ہوائی سفر میں 5گھنٹے کا ہی وقت لگتا ہے لیکن یہ دن کا وقت ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ ٹرین میں حالاں کہ 10گھنٹے کا وقت لگتا ہے، لیکن یہ سفر رات میں کیا جاسکتا ہے، جس سے دن کا وقت بچا رہتا ہے۔ اس لیے دہلی سے لکھنؤ کا سفر ٹرین سے کرنا بہتر ہے۔ کرایہ کم ہے اور رات کے وقت کا استعمال ہوجانے سے وقت کی بھی بچت ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو فطری ہی ہے کہ علاقائی ہوابازی اپنے ملک میں کامیاب نہیں ہورہی ہے، حالاں کہ حکومت گزشتہ دہائی سے مسلسل یہی کوشش کررہی ہے۔
2012میں حکومت نے ہوابازی کے شعبہ میں توسیع کے لیے ایک ورکنگ گروپ بنایا تھا، جس نے سفارش کی تھی کہ علاقائی ہوابازی کو سبسڈی دینی چاہیے۔ اس کے بعد حکومت نے قومی گھریلو ہوابازی کی پالیسی(National Domestic Aviation Policy) بنائی، جس میں چھوٹے شہروں میں ہوائی اڈے بنانے کامنصوبہ بنایا گیا اور تین برس تک ان علاقائی شہروں کو بھرنے والی اڑانوں کی فنڈنگ کی گئی۔ حال میں ڈیلائٹ صلاح کار کمپنی نے بھی چھوٹے شہروں میں توسیع کی بات کہی ہے۔ یہ سبھی سفارشات ناکام ہیں کیوں کہ ٹرین کی شکل میں بہترین متبادل دستیاب ہے۔ موجودہ وقت میں سڑکوں میں بہتری سے ایک اور متبادل دستیاب ہوگیا ہے۔ جیسے دہلی سے دہرہ دون چار گھنٹے میں سڑک سے پہنچا جاسکتا ہے اور تقریباً اتنا ہی وقت آپ کو ہوائی جہاز سے بھی لگتا ہے۔ اس لیے ہمیں علاقائی ہوابازی میں سرمایہ کاری کرنے کی جگہ پر دور کے شہروں کو جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سمت میں دہلی کے اندراگاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کی توسیع کا منصوبہ کامیاب نظر آتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہوائی اڈوں تک پہنچنے کے لیے ہائی وے کی کوالٹی میں بہتری لائے اور سکیورٹی چیکنگ وغیرہ کو آسان بنائے۔ میری معلومات میں ایسے لوگ ہیں، جو انگلینڈ میں اڑان کے محض15منٹ پہلے ایئرپوٹ پہنچتے ہیں اور ہوائی جہاز میں داخل ہوپاتے ہیں۔ اس سمت میں اگر حکومت اصلاح کرے تو دور علاقوں میں ہوابازی کو مزید بڑھاوا مل سکتا ہے۔
حکومت یہ بھی کوشش کررہی ہے کہ سیاحت سے متعلق مقامات جیسے آسام اور انڈمان میں گھریلوہوابازی کو بڑھاوا دیا جائے۔ یہاں مسئلہ اپنے ملک میں سیاحتی علاقہ کے بنیادی مسائل کا ہے، جیسے پولیس سسٹم اور چوری چکاری کے مسائل نظر آتے ہیں۔ اس لیے سیاحت پر مبنی ہوابازی تبھی کامیاب ہوگی جب پہلے ہم سیاحت کو کامیاب بنائیں۔

2012میں حکومت نے ہوابازی کے شعبہ میں توسیع کے لیے ایک ورکنگ گروپ بنایا تھا، جس نے سفارش کی تھی کہ علاقائی ہوابازی کو سبسڈی دینی چاہیے۔ اس کے بعد حکومت نے قومی گھریلو ہوابازی کی پالیسی(National Domestic Aviation Policy) بنائی، جس میں چھوٹے شہروں میں ہوائی اڈے بنانے کامنصوبہ بنایا گیا اور تین برس تک ان علاقائی شہروں کو بھرنے والی اڑانوں کی فنڈنگ کی گئی۔ حال میں ڈیلائٹ صلاح کار کمپنی نے بھی چھوٹے شہروں میں توسیع کی بات کہی ہے۔ یہ سبھی سفارشات ناکام ہیں کیوں کہ ٹرین کی شکل میں بہترین متبادل دستیاب ہے۔

اس پس منظر میں ایئر انڈیا کا خسارے میں جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ جب پرائیویٹ شعبہ کی جیٹ اور انڈیگو کو ہی خسارہ ہورہا ہے تو انڈین ایئرلائنز کو تو خسارہ ہونا ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر فنولاجی بلاگ میں کہا گیا ہے کہ دوسری ہوابازی کمپنیوں کے مقابلہ میں انڈین ایئرلائنس میں ملازمین کا خرچ زیادہ ہے۔ سمپل فلائنگ بلاگ میں کہا گیا ہے ایئر انڈیا میں بڑے پیمانہ پر بدعنوانی ہے اور ملازمین غیرہنرمند ہیں۔ رن وے گرل نیٹ ورک کے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ کسٹمرسروس گھٹیا ہے۔ حال میں ہی وزیرہوابازی ہردیپ سنگھ پوری نے کہا کہ کووڈ بحران کے دوران ایئر انڈیا نے اپنے ملازمین کی چھٹنی نہیں کی۔ انہوں نے اس بات کو ایئر انڈیا کی حصولیابی کے طور پر بتایا جب کہ حقیقت میں غیرضروری ملازمین کی چھٹنی نہ کرنا شرمناک ہے۔ اسی طرح کے فیصلہ ایئرانڈیا کے خسارے کا سبب ہیں۔ اس نقطہ نظر سے ایئرانڈیا کا پرائیوٹائزیشن کرنے کا فیصلہ صحیح ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت جلد ہی اس سمت میں آگے بڑھے گی۔
واضح ہو کہ 2018میں ایئرانڈیا کے پرائیویٹائزیشن کی کوشش کی گئی تھی، لیکن سرکاری افسران نے انتظام کیا تھا کہ کمپنی کے صرف75فیصد شیئر پرائیویٹ خریدار کو دیے جائیں گے اور 25فیصد سرکاری افسران کے ہاتھ میں برقرار رہیں گے۔ اس طرح پرائیویٹ کمپنی میں سرکاری دخل جاری رہتا۔ اس شرط کی وجہ سے اس وقت پرائیویٹ خریدار آگے نہیں آئے تھے۔ یہ اطمینان کی بات ہے کہ سرکاری افسران نے موجودہ پرائیوٹائزیشن کے عمل میں اپنے آپ کو الگ کرنا قبول کیا ہے اور ایئرانڈیا کے 100فیصد شیئروں کا پرائیویٹائزیشن کرنے کو کہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ ایئرانڈیا کے پرائیویٹائزیشن کی حالیہ کوشش کامیاب ہوگی۔ لیکن اس پرائیویٹائزیشن سے ایووی ایشن سیکٹر کے مسائل کا حل نہیں ہوگا۔ علاقائی ہوائی اڈوں کو حمایت دینے کی جگہ پر حکومت کو اہم شہروں کے ہوائی اڈوں پر پہنچنے کے لیے سڑکوں کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ہوائی اڈے پر سکیورٹی کو آسان بنانا چاہیے۔ تب اپنے ملک میں لمبی دوری کی گھریلو ہوابازی کامیاب ہوگی۔ ورنہ قومی اور علاقائی دونوں ہوابازی پست رہیں گی۔
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS