ایک ادبی نشست کا غیر ادبی رپورٹ

0

ڈاکٹر ایم عارف_ کالی باغ ،بتیا- بہار،انڈیا_
.رابطہ 7250283933

      میرا شہر بتیا عالم میں ہے انتخاب _ جس طرح شہر ممبئ فلموں کے لئے مشہور ہے_دہلی مرکز ہند ہونے کی وجہ سے مشہور ہے_ بہار مزدور سپلائی کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہے_یو پی بلڈوزر بابا کی اتنک کی وجہ سے مشہور ہے_ پوری دنیا میں ہندوستان مودی اور امیت شاہ کے کارنامے کی وجہ سے مشہور ومقبول ہے_اسی طرح زمانہ قدیم سے لے کر دور جدید تک شہر بتیا ضلح مغربی چمپارن اپنی مردم خیزی اور حیرت انگیزی کے لحاظ سے ہر زمانے میں ممتاز رہاہے_
یہاں ایک سے بڑھ کر ایک قد آور شخصیت ہر زمانے میں پیدا ہوئی_چمپارن کی دھرتی پر مصنف بھی پروان چڑھے_ زہرہ نگار شاعر وادیب بھی_ یہاں کی سرزمین صوفیوں اور سنتوں کی بھی جلوہ گاہ بنی اور امراء وسلاطین کی بھی_زمانہ قدیم میں شہر بتیا،راجہ کی حکومت میں ہونے کی وجہ سے بتیا راج سے جانا جاتا تھا_تو کبھی چمپارن مہاراجہ اشوک کی لاٹ کی وجہ سے_ دور غلامی میں نیل کی کاشت کرنے والے کسانوں پر انگریزی حکومت کی ظلم وستم کی داستان کی وجہ سے مشہور رہا_گاندھی جی نے انگریزوں کے ظلم وستم کے خلاف اپنی تحریک کا اغاز چمپارن کی سرزمین سے کیا جسے نیل کی کاشت،چمپارن تحریک یا ستیہ گرہ تحریک کے نام سے دنیا جانتی ہے_لیکن افسوس ستیہ گرہ تحریک سب کو یاد ہے لیکن چمپارن کسی کو یاد نہیں؟ گاندھی جی سب کو یاد ہیں لیکن چمپارن کے جیالے،انگرزیوں کے  بربریت کےخلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے کسی کو یاد نہیں_؟ چمپارن میں انگریزوں کے ظلم وستم کا داستان سب کو یاد ہے_ لیکن انگریزوں کے ظلم وستم اور بربریت کو جھیلنے والا کسی کو یاد نہیں_؟ یہ غفلت، یہ لاپرواہی اور یہ احسان فراموشی کیوں_ ؟ چمپارن کے مجاہدین آ زادی کے تمام کارنامے مدفون ہوگئے_ یہاں تک کہ مجاہدین چمپارن کا نام بھی یاد نہ رہا-اور وہ گمنام ہوگئے_
       ادبی دنیا میں چمپارن کی تاریخ تین سو سال پرانی ہے،یہ وہ سر زمین ہے جس نے دہلی،لکھنو،دکن اور عظیم آ باد کے بعد گیسوئے اردو کو سنوارنے اور نکھار نے میں اہم حصہ لیا ہے_یہ دیگر بات ہے کہ ماضی میں وسائل کی کمی کی وجہ سے چمپارن کے لوگ منظر عام پر نہیں آ پائے اور وہ شہرت اور مقبولیت نہیں ہوپائی جس کے وہ مستحق تھے اور ہیں _ دور غلامی میں نیل کی کھیتی کی وجہ سے مشہور ومقبول چمپارن ، دور آزادی میں شعر وشاعری اور ادب کی کھیتی کی وجہ سے دنیائے ادب میں مقبول ہے_ زمانہ سابق میں یہاں یکے بعد دیگرے کئی بڑے بڑے آ ل انڈیا مشاعرے ہوئے ،جس میں شاعر حضرات بتیا شہر کو دیکھنے اور شعر سنانے بڑے فخر سے آ تے تھے_ یہاں کے ادبی ذوق وشوق رکھنے والے سامعین اور ادب نوازوں کا تعریف بھی کیا_  یہ اس زمانہ کی بات ہے جب گھر بیٹھے آ ل انڈیا مشاعرہ،نہیں ہوا کرتے تھے_اور گھر بیٹھے بین الاقوامی شہرت نہیں پایا جاتا تھا_ اب تو جدید دور کی باتیں ہی جدید ہے_ گھر بیٹھے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر وادیب ہوجاتے ہیں_ اور گھر بیٹھے   بین الاقوامی مشاعرہ  بھی پڑھ بیٹھتے ہیں _یہا ں تک ہی بس نہیں کرتے بلکہ بے شرمی اور بے حیائی کے   ساتھ اپنی ہی تنظیم سے خود ہی خود سے انعام وایوارڈ لئے بیٹھتے  ہیں  فراق گورکھ پوری،مجروح سلطان پوری، جگن ناتھ آزاد،کیف بھوپالی،شاغر خیا می،ساغر اعظمی،ندا فاضلی،جاوید اختر، امیر قزلباس،راحت اندوری،وسیم بریلوی، شہر یار،افتخار امام صدیقی ،مخمور سعیدی،سلطان اختر، خمار بارہ بنکوی،کلیم قیصر،بیکل اتساہی، وغیرہ وغیرہ نےکلام بھی سنایا اور سامعین کو محظوظ بھی کیا_اسٹیج پر سامعین کے سامنے بیٹھکر ادب کی محفل میں بے ادبیت کو قائم دیکھتے ہوئے آ پس میں سر گوشی کرتے ہوئے ہنسی بھی اڑائے_سامعین حضرات نے ان شاعر کی شاعری بھی سنا ،ان ادیبوں اور شاعروں کی بے ادبی پر نظر بھی جمائے رکھا_
     ہاں ایک بات تو ذہن سے غائب ہی ہو گیا تھاجو اصل میں مضمون لکھنے کا مقصد تھا_بڑے مشاعرے ہوں یا چھوٹے ہر مشاعرے کو کامیاب اور ناکام کرنے کی ذمہ داری جن لوگوں پر سونپی جاتی تھی وہ اپنے فرائض کو بڑے خوش اسلوبی سے اپنے طرز بیاں اور طرز ادا سے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے انجام دیتے_ یہاں تک کےادبی خدمات کا انجام بھی ادبی لحاظ سے اس طرح ادا کرتے کہ مخاطب کو پتہ بھی  نہیں چلتا کہ مشاعرے میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں یا نہ آ نے کا اشارہ کررہے ہیں_اس طرح بے ادبی کام ادب کے دائرے میں منافکانہ روش کے ساتھ انجام دئے جاتے بڑی شریفانہ عمل کے ساتھ جیسے مخاطب کو معلوم ہوتا کہ وہ کوئی ادب کی بہت بڑا خدمات انجام دے رہے ہیں_
    زمانہ ماضی میں مشاعرے ہوا کرتے تھے شاعرات نہیں ہوتی تھی غزل سنے جاتے تھے غزل دیکھے نہیں جاتے تھے-اشعار سنے جاتے تھے،ترنم نہیں  _داد دیا جاتا تھا،واہ،واہ ،بہت خوب کی صدائیں لگایا جاتا تھا_ تالی  نہیں بجوایا جاتا تھا_وہ بھی کیا دن تھے اور ادب کے کیا اداب تھے_ تنگ دلی کے باوجود مشاعرہ گاہ میں جگہ تنگ نہیں ہوتے تھے_اور نہ ہی لوگ مشاعرے سے تنگ نظر آتے تھے_ سامعین جو ہال میں ایک بار  بیٹھ گئےکیا مجال کے وہ کرسی چھوڑ کر ٹس سے مس ہو جائیں_ جائیں تو جائیں کہاں  _؟اگر مشاعرے سے باہر نکلے تو شیر کی طرح دہاڑ لگاتے کتے کی جم غفیر  مشاعرے سے بے ادبی کرنے والوں پر ٹوٹ پڑنے کو تیار کہ یہ آدھا ادھورا مشاعرے چھوڑ کر کہاں ںے ادبی کئے بھاگے جارہے ہو_جس کی وجہ سے سامعین ہر شاعر کو یہاں تک کے صدر محترم کے نثر کو بھی شعر سمجھ کر جی بھر کر خوب خوب سننے کو تہذیب،اخلاص اور ادب کے ساتھ تیار رہتے_
     ایک آ ل انڈیا مشاعرے میں میں بے ادبی کردی_ زمانہ طفلی کاتھا _ادب کے آداب اور مشاعرہ کے دستور عمل سے واقفیت نہ تھی بےخوف وخطر مشاعرہ گاہ سے نکل آیا مشاعرہ ہال کے باہر کے کتوں نے مجھے دیکھ کر خاموشی اختیار کرلی_جیسے مجھے پہچانتے ہوں یا انہیں بھی وہ مقامی شاعر کی شاعری پسند نہ آئی ہو اور وہ سبھی بھی رفوچکر ہونے کے لئے میٹنگ میں مصروف ہوں_میں تو وہاں سے نکل آ یا لیکن مینا بازار کے کتوں نے میرے پیر کی آ واز کو کلام سننے میں خلل محسوس کی اور مجھ پر اس طرح ٹوٹ پڑا کہ زمانہ طفلی یعنی ششم یا ہفتم کا طالب علمی کا تھا اس لئے اس طرح دوڑ لگایا کہ کتوں سے پہلے مشاعرہ گاہ میں حاضر ہوگیا ورنہ مجھے کاٹ کھاتے_اس حاد ثہ کے بعدطفلی سے لیکر آدھا جوانی اور آدھا بڈھاپا تک جب تک مشاعرے گاہ میں فجر کی اذان نہ ہوجاتی مشاعرے سے باہر نہ نکلتا_ اب تو مشاعرے میں بہت کم جایا کرتا_زیادہ تر فجر کی نماز بعد صدر کی نثری غزل،نثری نظم یا صدارتی کلمات سننے جاتا،_
        گزشتہ سال دور کرونا اور لاک ڈاؤن میں میں بے روز گاری اور لامکانی کا مزے اٹھا رہا تھا اور ہمارے شہرکے معروف شاعر وادیب گھر بیٹھے ال انڈیا مشاعرے اور انٹر نیشنل سیمنار ومذاکرے کے نام پر مہلک مرض کرونا اور سیاسی قہر لاک ڈاؤن سےبچتے ہوئے انٹر نیشنل شاعر وادیب کہلا رہے تھے_لیکن لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی وہ انٹر نیشنل سے مقامی شاعر وادیب ہوگئے اور میں بھی بے روزگار سے روزگار،لامکانی سے پھر مکانی ہوگیا_ یعنی کرائے کے مکان سے بے دخلی کے بعد اپنا ذاتی مکان میں آ گیا ہوں_ لاک ڈاؤن اور کرونا نے بڑی مشکل سے ساتھ چھوڑا ورنہ کتنے اپنوں کو ساتھ چھوڑوا گئے_ لیکن حکومت ہے کہ نہ ساتھ چھوڑنے کو تیار اور نہ ہی ساتھ چھوڑوانے کو تیاراور نہ ہی جو لوگ گئے ہیں ان کے ساتھ جانے کو تیار-جس کی وجہ سے ایک ہنگامہ پر موقوف ہے شہر کی رونق_
           اردو زبان کی خدمات کے نام پر اب پروگرام نہیں،اردو زبان کے شاعروں اور ادیبوں کی نمائش منعقد کی جاتی ہے_ ہندوستان کا کون سا علاقہ ایسا ہے جہاں اردو کے شاعر وادیب نہ ہوں_ جو آ پس میں ہندو مسلم کی طرح،اردو زبان اور ہندی زبان کی طرح لڑتے نہ ہوں اور اسٹیج کو ہند پاک سرحد نہ بناتے ہوں- ہمارے شہر کے ادیب بھی بڑے عمل اور پر جوش ہوتے ہیں_ اور دوسرے شہر کے لئے قابل تقلید بھی_ جس کی وجہ سے مایہ ناز ہستیو ں میں گنے جاتے ہیں_ اب وہ شاعر وادیب شاعری اور ادب چھوڑ کر زندگی کے ہر شعبہ حیات میں مایہ ناز ہستیاں ہونے کی حصہ داری چاہتے ہیں_اس لئے یہ ادیب کبھی بے ادبی کے ساتھ سڑکوں پر گول گپا کھاتے،کبھی ہوٹلوں میں چائے کی چسکی میں گم گروپ بازی زیادہ کرتے،کبھی اردو لائبیری کی سیاست کرتے ہوئے اردو خدمات کے نام پر لائیبری میں تالا لگاتے ہوئے سڑکوں پر مٹر گشتی کرتے،کبھی دعوت ولیمہ میں مرزا نوشہ میاں سے ہاتھ ملاتے، کبھی باراتی بن کر نوشہ میاں سے پہلے دلہن کے گھر اس طرح سج ڈھج کر پھول مالا پہن کرپہنچ جاتے کے  درجن بھر بچوں کے باپ ہونے کے باوجود دلہا میاں نظر آتے خود ادبی افطار پارٹی کراتے نہیں لیکن سیاسی افطار پارٹی میں برجمان ہوجاتے_ ہولی ملن کی تصویر اس طرح طشت ازبام کرتے جیسے خود ہی قومی یکجہتی کی نشان اور پہچان ہوں_شہر کے ویلفیر سوسائٹی کے میڈیکل کیمپ سے آں جناب اس طرح نکلتےکہ جیسے سارے مریضوں کو سمسان گھاٹ،اور قبرستان میں پہنچا کر  بڑی آن بان اور شان کے ساتھ فوٹو کھیچواتے آ رہے ہیں_جب یہ تصویر شاعر آعظم نے فیس بک پر ڈالی تو اردو میں پی ایچ ڈی کے ڈاکٹر کو ان کے وفادار ،،ان کے مداح،  ان کے قدر داں اور ان کےفرما بردار ایم بی بی ایس ڈاکٹر سمجھ بیٹھے _لوگوں کو غلط فہمی کا شکار بنا کر مریضوں کی خدمت پر داد پر داد اور مبارک باد پر مبارک باد وصول کرتے رہے_ یہ ہمارے شہر کے شاعر وادیب ہیں ،جو ادب کےسیاست داں،ادبی خدمت گار،سماجی کارکن،مذہبی رہنما ،دانشور علوم جھوٹ کا فلسفی غرض کتاب ،قلم اور ادب چھوڑ کر ہر جگہ مایہ نازہستی بنے پھرتے ہیں_ جو فیس بک پر چھائے رہنے کے لئے زندگی کے ہر شعبہ حیات میں الگ الگ جلوہ دکھاتے نظر آتے ہیں_جو دلچسپی کا باعث بھی ہوتے ہیں جو مذاق ہی مذاق میں خود مذاق بن جاتے ہیں_
    یہ اتنا اچھا اور معیاری یاد گارادبی نشست حیرت چشم تماشا تھا جو بد قسمتی سے میرے ادبی معیار پر بے ادبی نظر آ ئی_ کیونکہ اسٹیج پر آدھ درجن غیر ادبی لوگ موجود تھے_ایک مولانا،دومریضوں کاڈاکٹر ،ایک جج صاحب ،ایک ادب کا بجھا ہوا سیاست داں اور ایک شہر کے بزرگ ومعزور شاعر وادیب،اور سامعین میں اردو ادب کاڈاکٹر ،پروفیسر،اساتذہ کرام،اور شاعر وادیب جو فروغ اردو کے نام پر نشست میں جمع ہوگئے تھے لیکن یہاں تو فروغ اردو نہیں فروخت اردو کی باتیں ہورہی تھی_جو بے ادیبوں کی بہکی بہکی باتیں عملی میدان کےلئے نہیں بلکہ سرکاری دفاتر،گفتگو اور تقریر کےلئے تھا_جسے اردو کے زمینی میدان کےعملی سلطان نصیحت کے طور پر بڑے ادب و احترام کے ساتھ بڑی سنجدگی سے  بیقوفوں کی طرح سن رہے تھے_جیسے پہلی بار کوئی اردو کا پڑھا لکھا ادیب جاہل مطلق کے سامنے بڑےپتہ کی بات اردو اورانگریزی میں سنا رہا ہو_بلکل ایسے ہی جیسے چچا غالب نے ستم ہائے روز گار سے تنگ آکر رشتہ داروں کی ریشہ دوانیو ں سے پریشان ہوکر دوست ،احباب کی ایک گونہ بے نیازی سے بیزار ہوکر فرنگیوں سے انصاف طلٻی کا فیصلہ کیا_ ٹھیک آ برو اردو کی طرح ہمارے شہر کےاردو کےشاعر وادیب اردو کے خدمت گاروں کی بے نیازی سے بیزار ہوکر بے ادیبوں،غیر اردو دانوں اور اردو کے بے خدمت گاروں سے انصاف طلبی کا فیصلہ کیا ہو_
            اردو کے ادبی پروگرام کی زبوں حالی کی داستان اب پرانی ہوگئی ہے_ اب تو اچھے پروگرام کا انعقاد داستان پارینہ بن گئے ہیں_یہاں توزیادہ تر اردو پروگرام یا تو سرکاری مال لوٹنے کے لئے ہوتے ہیں یا  تو اپنی ادبی حیثیت کا احساس سسک سسک کر دلانے کےلئے _
           اردو زبان کو کس طرح کامیاب بنایا جائے- یہ تحریک اور پروگرام اچھا لگا_اردو زبان کو کس طرح زندہ کیا جائے-؟اردو تحریک کو کس طرح کامیاب بنایا جائے اور اس اردوتحریک کے ساتھ خود بھی کامیاب کیسے ہوا جائے_ ؟ لیکن ہم اردو والے ملک گیر اور بین الاقوامی تحریک چلانے ،ملک گیر اور بین الاقوامی شہرت پانے کی فکر میں اردو کی بنیادی جڑ کو بھول جاتے ہیں _خود اپنے گھروں ،دلوں آس پاس ،پاس پڑوس  ،اپنے ملنے جلنے والوں اور بچوں کو چھوڑ کر اردو زبان کے فروغ میں زمین و آسمان کے بیچ معلق نظر آ تے ہیں_کیا ہم اردو والے خود اردو کے قاتل نہیں ؟ ہم اردو کے صاحب کتاب اپنی کتاب کو  اپنے اولاد کو پڑھانے کے لئے تیار نہیں_مگر ہاں اردو کےنام پر اپنی کتاب کو دوسروں سے فروخت کرنے اور اردو کی ترقی کے نام پر مجبور کرنے کےلئے تیار ہیں_ہمیں اردو زبان کے فروغ کے لئے ملک گیر تحریک چلاکر اردو کی سیاست کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے گھروں میں ، اپنے دلوں میں اپنا وقت اردو زبان کے لئے اپنے لخت جگر کے ساتھ دینے ،اردو اخبار ورسائل خیرات  میں  بلکہ اپنی کمائی کےپیسہ میں سے اردو کے لئے زکوٰۃ نکال کر خرید کر پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے_اپنے بچوں،بچیوں اور خود اپنی شادی کارڈ اردو میں چھپواکر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دعوت ولیمہ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے _یہی خدمت اردو ہے_ یہی فروغ اردو ہے_ یہی تحریک اردو کا کام ہے_لیکن ہم خادم اردو اس کے برعکس ہیں_ اردو کے لئے زکوٰۃ  کا ذکر کون کرے بلکہ اردو کے خیراتی روپے بغیر ہضمولہ  کھائے ہضم کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں,_  جس کی وجہ سے کبھی افلاطون نے سارے شعرا وادبا کرام کوسوسائٹی سے باہر نکال دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا_”شاعر و ادیب کی نجی زندگی اور عملی زندگی میں قول وعمل میں صرف فرق ہی نہیں بلکہ تضاد بھی پایا جاتا ہے_آج کے فنکار اپنے ضمیر کی آ واز پر کان دھرتا نہیں _ جس کی وجہ سے ان کی تخلیق خون جگر سے پیدا ہوتا نہیں_لیکن اپنی تخلیق کے ذریعہ سماج کے ضمیر کو بیدار کرنا چاہتا ہے_ کیا یہ ممکن ہے_ ؟
      اردو زبان کے سلسلے میں جس جرات،بےباکی اور غمخواری سے اس نشست میں اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا اس طرح کی تقریر اردو کا کوئی عملی آدمی نہیں کرسکتا_ کیونکہ آج کا اردو داں اردو زبان سے نہیں بلکہ اردو گروہوں سے وابستہ ہوتا ہے اس لئے اردو زبان کا نہیں بلکہ اپنے آ قا کا فرمان قبول کرتا ہے_ عہ
درد  دیتی ہے تیری خاموشی
مار دیتا ہے تیرا یوں بے خبر رہنا
ہم کسی کو کیا کہیں خود ہی خود کےلئے مسائل پیدا کیا اور خود ہی خود کے لئے مسائل بن گئے_یہ بات بہتوں. کو شاید ناگوار گذرے لیکن اس حقیقت سے کس کو انکار ہے؟_اپنی اپنی اجارہ داری کے کھیل تماشے سجائے جارہے ہیں_ ادیب کے ذریعہ ادب میں بے ادبی،غیر اخلاقی،غیر معیاری اور غیر ضروری کام میں مشغول ایک دوسرے کے پھٹے کپڑے کاپیوند دکھانے میں مصروف ہیں_
    ہمارے شہر کے ہمارے دور کے سینئر ادیبوں کا کیا کہنا _ ان سینئروں کا فرماں ہے آزادانہ سطح پر کوئی کام ٹھیک نہیں ہوتا_ اس لئے میری سرپرستی  تسلیم کر لیجئے تب ہی گروپ کے ساتھ ادب میں آ گے بڑھ سکتے ہیں ورنہ اکیلے چنا کیا بھاڑ  پھوڑے گا_یہ ادبی گروپ_،وہ ادبی گروپ_یہ تعمیری گروپ،وہ تخریبی گروپ_ یہ نفرتی گروپ ،یہ تحریکی گروپ،وہ تنظیمی گروپ_ یہ اردو خدمت گاروں کا گروپ،وہ ادبا وشعراء کا گروپ ہر جگہ گروپ کا دھوم دھام ہے_ اردو کا سوگ منایا جارہا ہے لیکن بریانی کے ساتھ_  ہر جگہ پیار ومحبت  کی باتیں ہیں مگر نفرت کے ساتھ_ ہر جگہ بریانی کا ذکر ہے لیکن اردو کی کسی کو فکر نہیں_ ادبی گروپ سے ادب غائب ہے اور صرف گروپ زندہ رہ گیا ہے _یہ اردو زبان اور ادب کے لئے لمحہ فکریہ ہے_ٹریجڈی ہے__
عہ. حق کا خوف بھی عجب غم ہے_
    ہمارے دور کے ادیب جس جگہ تخریبی کام میں لگے ہوئے ہیں وہ اپنے خول کے ساتھ اپنے مختصر حصار میں مطمئین ہی نہیں بلکہ خوش فہمیوں کے جال میں اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ نئی نسل کو الجھانے کی فکر میں گھولتے چلے جارہے ہیں _ بے حسی کے انتہا اور تجربہ کاری کی خوش فہمیو ں کے شیش محل میں بیٹھے سچ بولنے،سچ دیکھنے،سچ سننےاور حقائق کا تجربہ کرنے کا ان میں سکت ہے ہی کہاں _
عہ زندگی اپنے جاں نثارو ں کو                             معتبرفیصلے سنا دے گی_
                                        ختم شد
Dr M Arif
Kali bagh,Bettiah,Bihar, India,
Mob ,No7250283933
Email=mohmmad arif alam 2018gmail  ,com
                 رابطہ_7250283933

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS