غیر تعمیری طاقتیں تخریب سے اپنا وجود منواتی ہیں: عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

اگر آپ لوگوں سے یہ پوچھیں کہ ملک میں سلگتے ہوئے اہم مسائل کیا ہیں تو جواب میں وہ خواہ کچھ بھی گنوائیں، ان کی توجہ جب بے روزگاری، غریبی، بدعنوانی، ناخواندگی، صنفی عدم مساوات، آلودگی اور مختلف نوعیت کے تشدد کے وقفے وقفے سے پیش آنے والے واقعات کی طرف مبذول کرائی جائے گی تو وہ ان مسائل کو فوری توجہ کا حامل قرار دینے سے ہرگز انکار نہیں کر پائیں گے۔
ویسے تو چھوت چھات، بچپن کی شادیاں اور جسم فروشی بھی انتہائی توجہ طلب مسائل ہیں لیکن سبھی مسائل سے ایک ساتھ الجھ کر انہیں ہرگز سلجھایا نہیں جا سکتا۔ بیشتر مسائل ایک دوسرے سے راست یا بالواسطہ طور پر مربوط ہوتے ہیں۔ اس لیے اس ربط کی بنیادی کڑی کی طرف پہلے بھر پور توجہ دے کر دیگر مربوط مسائل کو بھی نسبتاً کم محنت سے حل کیا جاسکتا ہے۔
دیکھنا ہوگا کہ ایک سے زیادہ سنگین مسائل میں سے کس مسئلے کو اولین ترجیح دے کر اس سے زبانی اور عملی طور پر یومیہ رجوع کرنے کے ساتھ ہی دیگر مسائل کو اجاگر رکھا جا سکتا ہے۔ اس ورزش کا مقصد یہ ہے کہ اولین مرحلے میں معاشرے میں نسبتاً زیادہ غور و خوض کرنے والے حلقے کو شعوری طور پر بیدار کیا جائے۔
میرے خیال میں کسی بھی مسئلے سے رجوع کرنے کے دو طریقوں پر ایک ساتھ عمل شروع کیا جانا چاہیے۔ ایک انتظامی اور دوم نفسیاتی۔ انتظامی طریقے میں فوری مداخلت سے کام لیا جاتا ہے اور نفسیاتی دخل سے کسی بھی تبدیلی کو عادت میں بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے میرے خیال میں ناخواندگی اور تشدد کے مسائل سے سب سے پہلے رجوع کیا جانا چاہیے تاکہ اگلی پیڑھی کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی معاشرے میں لوگ انفرادی طور پر زندگی سے معاملات کرنے میں خود کفیل ہوجائیں اور کوئی بھی سیاسی/ سماجی/ مذہبی شعلہ بیان مقرر اپنے محدود مفادات کیلئے کسی کا بہ آسانی استحصال نہ کر سکے۔
اسی طرح انتظامی سطح پر ایک طرف نہ صرف ابتدائی تعلیم کو ایسی ہر سوچ سے پاک کرنا ہے جو بچوں کو ذہنی کشادگی عطا کرنے کے بجائے کسی ایک رخ پر کنڈیشنڈ کرتی ہوں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب انہیں ’’الف سے بن اچھا انسان، ب سے بن بہتر، بلوان‘‘ پڑھایا جائے گا۔ بصورت دیگر وہ جاننے سے زیادہ ماننے والی عمر میں ہی انسانوں کو خانوں میں منقسم دیکھنے کے عادی ہوجائیں گے۔ اس کے بعد رہی سہی کسر واقعات اور سانحات پوری کر دیں گے۔ یوروپ میں بڑی چابکدستی سے اس راہ کو ہموار کیا گیا تھا۔ نتیجے میں آج وہاں دین اور دنیا اس طرح متصادم نہیں جس طرح ہمارے یہاں ہیں۔
بہر کیف بات چل رہی تھی انتظامی اور نفسیاتی پہل کی تو ابتدائی تعلیم میں انتظامی سطح پر اس کے آغاز کے ساتھ ہی ثانوی درجات کے طالب علموں سے نفسیاتی طور پر رجوع کیا جائے اور انہیں کائنات کی تسخیر میں حسبِ توفیق کردار ادا کرنے پر پہلے آمادہ کیا جائے پھر اس میں ان کی دلچسپی پیدا کی جائے۔ یہ کام نسبتاً محنت طلب ہے لیکن مرحلہ وار کامیابی اسے اتنا پرکشش بنا دیتی ہے کہ پھر کسی اور طرف رخ کرنے کی فرصت اور چاہت دونوں باقی نہیں رہتیں۔
انسانی ارتقا کے سفر کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ابتدائے آفرینش سے اسی سلسلے نے ہی ایک مہذب معاشرے کو وجود بخشا اور قبائلی سوچ سے انسانوں کو باہر نکلنے کی توفیق و تحریک عطا کی۔ انسانی زندگی کی انقلاب آفرینی میں صنعتی انقلاب کا بہت بڑا دخل رہا۔ اس میں آگے چل کر چند دہائیوں تک بائیں بازو کی سوچ نے رخنہ ضرور ڈالا مگر جھانسے میں آنے والوں پر بہت جلد سچائی واضح ہوگئی اور اس تاریک حصار سے وہ اسی طرح باہر نکل گئے جس طرح کبھی دائیں بازو کی گرفت سے آزادی حاصل کی گئی تھی۔ باوجودیکہ یمینی اور یساری دونوں طاقتیں آج بھی مراعات سے محروم طبقات کو گمراہ کرنے میں لگی رہتی ہیں اور چونکہ وہ تعمیری ذہن نہیں رکھتیں، اس لیے تخریبی واردات کے ذریعہ اپنا وجود منواتی رہتی ہیں۔
جہاں تک ناخواندگی کو احسن طور پر ختم کرنے اور پھر اس کی برکت سے بے روزگاری ختم کرنے اور اس میں صنعتی انقلاب کے رول کو سمجھنے اور سراہنے کا تعلق ہے تو اتنا تو تاریخ کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ صنعتی انقلاب سے یعنی 19ویں صدی سے پہلے کی دنیا کی اکثریت بالعموم غریبی، مفلسی، پسماندگی اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار تھی۔ ان کی اس خستہ حالی کا جاگیر دار عناصر اور آمرانہ مزاج رکھنے والے راجہ اور مہاراجہ بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھاتے تھے۔
اس ماحول میں علم کو جس حلقے میں فروغ حاصل ہو رہا تھا، اس کا دائرہ تیزی سے اس لیے نہیں پھیلتا تھا کہ اس حلقے میں تفریحات کی بے پناہ گنجائش ہونے کی وجہ سے(کسی معلنہ خاندانی منصوبہ بندی کے بغیر بھی) بچے کم پیدا ہوتے تھے۔ دوسری طرف وسائل کی سخت کمی سے دوچار ایک بڑا حلقہ تھا جس میں انسان تفریح کی گنجائشوں کی سخت قلت کی وجہ سے غیر محتاط جنسی تسکین تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ نتیجہ آج بھی ہم سب کے سامنے ہے۔
صنعتی انقلاب یعنی انڈسٹریل ریولیوشن نے چند ہاتھوں میں محدود دولت کو ایک وسیع حلقے میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی طرف موڑ دیا۔ نتیجتاً ایک طرف جہاں لوگ غریبی سے باہر نکلنے لگے، وہیں اعلیٰ اور ادنیٰ طبقات کے درمیان ایک متوسط طبقے کا ظہور عمل میں آیا۔ ساتھ ہی کئی حلقوں سے تو غریبی کا مکمل خاتمہ ہی ہوگیا اور دنیا کے تقریباً ہر ملک میں عموماً خوش حالی آگئی۔ سائنس نے اس انقلاب کو مہمیز لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹیکنالوجیائی انقلاب نے روزگار کے مواقع بڑے پیمانے پر پیدا کیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس انقلاب میں علم کے سہارے آگے بڑھنے والوں کو انہی سرمایہ داروں کا اشتراک حاصل رہا جو سرمایہ دار پہلے جاہل قسم کے جاگیر دار، راجہ اور مہاراجہ ہوا کرتے تھے۔ آگے چل کر سائنسی ٹیکنو کریٹس نے اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا۔
صنفی عدم مساوات اور آلودگی کے مسائل پر توجہ دینے والوں نے صنفی عدم مساوات کو دنیا کے ایک قابل لحاظ حلقے سے تقریباً ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن ماحولیاتی آلودگی ترقی کے ذیلی نتائج کے طور پر پھیلتی رہی اور اس کے خلاف دہائیوں زبانی جمع خرچ سے آگے بات نہیں بڑھ پا رہی تھی۔ پھر وہ دن بھی آیا جب پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے اندر موجود اس جہل کا علم ہو گیا جو ان کے عزائم اور حوصلوں کے بیچ حائل تھا۔
بدلے ہوئے عصری منظرنامے میں اس رخ پر جو بیداری نظر آ رہی ہے، وہ اب قدرے اطمینان بخش ہے اور امید کی جاتی ہے دنیا عنقریب اس عذاب سے بھی نجات حاصل کر لے گی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS