انتخابی نتائج کے اپوزیشن اتحاد پر اثرات

0

لوک سبھا انتخابات کو زیادہ دن نہیں بچے ہیں، اس لیے ریاستوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا انتخابات کا ’سیمی فائنل‘ کہا جا رہا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس نے مرکزی وزرا اور ارکان پارلیمان تک کو امیدوار بنایا اور اس کی یہ حکمت عملی مؤثر ثابت ہوئی۔ اسے شاندار کامیابی ملی۔ اب خبر یہ آئی ہے کہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں الیکشن لڑنے کے لیے جن ارکان پارلیمان کو اس نے انتخابی میدان میں اتارا تھا، ان میں سے 10 ارکان پارلیمان اپنی پارلیمانی رکنیت سے مستعفی ہو گئے ہیں اور اپنی اپنی ریاستوں میں لوٹ گئے ہیں۔ ان کے اس قدم سے ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے پارلیمانی انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ ویسے سمجھا یہ بھی جاتا ہے کہ رام مندر کے افتتاح کے بعد لوک سبھا انتخابات قبل از وقت کرائے جا سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی والے اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ تیار ہے؟ اس سوال کا جواب فی الوقت ایک جملے میں دینا مشکل ہے۔ حالیہ انتخابات میں ایک طرف کانگریس نے ’انڈیا‘ سے وابستہ پارٹیوں کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے میںزیادہ دلچسپی نہیں دکھائی تو دوسری طرف ’انڈیا‘ کی پارٹیوں نے حیران کن حد تک امیدوار اتار دیے۔ ان کے اتنے زیادہ امیدوار اتاررنے کا اصل مقصد کیا تھا، اس پر تجزیہ ہوگا مگر راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی ہار کے بعد ’انڈیا ‘ سے وابستہ کئی پارٹیوں کے لیڈران نے کھل کر تاثرات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ ’نتیجے آگئے ہیں اور اہنکار ختم ہو گیا ہے۔‘کیرالہ کے وزیراعلیٰ پنرائی وجین کا کہنا ہے کہ ’کانگریس نے لالچی رویہ دکھایا۔ اس نے بی جے پی مخالف طاقتوں کو ایک ساتھ لانے کے بجائے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں رکھنے اور دبدبہ بنانے کا انتخاب کیا۔ انتخابی نتائج اس رویے کا ثمرہ ہیں۔‘ شیو سینا کی طرف سے ’سامنا‘ کے اداریے میں کمل ناتھ پر ’انڈیا‘ کے ضابطوں پر عمل آوری نہ کرنے اور راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو کمزور کرنے کا مقامی لیڈروں پر الزام عائد کیا ہے۔ ممتا بنرجی نے جہاں ایک طرف یہ بات کہی کہ ’صرف تقریر کرکے انتخابی جیت کی امید نہیں کرنی چاہیے۔‘ اور یہ کہ ’ یہ ’’انڈیا‘‘ کی نہیں بلکہ کانگریس کی ہار ہے۔‘‘ وہیں انہوں نے ’انڈیا‘ کی ان پارٹیوں کا ذکر کیا، جنہوں نے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف امیدوار اتارے، اور یہ کہا کہ اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچا۔
کانگریس جبکہ تلنگا نے بڑی جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، راجستھان میں بھی اس کا تھوڑا ہی سہی ووٹ بڑھا ہے جبکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اس کے ووٹوں میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے، اس کے باوجود ’انڈیا‘ کی پارٹیوں نے جس طرح کانگریس کی تنقید کی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ وہ اس پردباؤ بنانا چاہتی ہیں تاکہ سیٹوں کی تقسیم کے وقت کانگریس کم سے کم سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے اور انہیں اس کا فائدہ ملے؟ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ بظاہر دباؤ کی یہ سیاست کام کرے گی؟ ’انڈیا‘ کی اسی ماہ تیسرے ہفتے کی ابتدا میں ہونے والے اجلاس میں اس کا اندازہ ہوجائے گا۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کے گھر پر اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی ہونے والی میٹنگ میں شرکت سے ممتا بنرجی نے معذرت کرلی تھی اور ایسی خبرتھی کہ نتیش کمار کی شرکت کا امکان بھی کم ہے مگر اب ممتا بنر جی نے کہا ہے کہ وہ ’انڈیا‘ کے اجلاس میں شرکت کریںگی اور نتیش کمار نے کہا ہے کہ ان کے شرکت نہ کرنے کی بات ’بے بنیاد‘ ہے۔ نتیش کمار کے مطابق، اس اجلاس میںتمام ایشوز پر گفتگو ہوگی۔ ان کے مطابق، ’اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد ملک کے مفاد میں ہے۔‘n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS