نئی دہلی: کووڈ ویکسین کو لے کر سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی کو ٹیکہ لگانے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حکومت عوامی بہتری اور صحت کے لیے پالیسی بنا سکتی ہے اور کچھ شرائط عائد کر سکتی ہے۔ حکومت جسمانی خود مختاری کے شعبوں میں قواعد بنا سکتی ہے۔ ویکسینیشن کی موجودہ پالیسی کو غیر منصفانہ نہیں کہا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت اس بات سے مطمئن ہے کہ موجودہ ویکسین پالیسی کو واضح طور پر من مانی نہیں کہا جا سکتا۔ جسمانی خود مختاری جینے کے بنیادی حق کے تحت آتی ہے۔ عدالت کے پاس سائنسی شواہد پر فیصلہ کرنے کی مہارت نہیں ہے۔ اگر کوئی واضح من مانی ہے تو عدالت فیصلہ دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومتوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ڈیٹا نہیں رکھا ہے کہ ٹیکے لگوانے والے شخص کے مقابلے میں ایک غیر ویکسین شدہ شخص وائرس پھیلاتا ہے۔ درخواست گزار سے متفق نہیں ہیں کہ موجودہ ویکسین سے متعلق متعلقہ ڈیٹا حکومت کی طرف سے دستیاب نہیں کرایا گیا ہے۔ اور اب کلینیکل ٹرائلز سے متعلق تمام متعلقہ ڈیٹا پبلک ڈومین میں دستیاب ہونا چاہیے۔ حکومت ہند منفی واقعات کے اعداد و شمار فراہم کرے۔ بچوں کے لیے منظور شدہ ویکسین سے متعلق متعلقہ ڈیٹا پبلک ڈومین میں بھی دستیاب ہونا چاہیے۔ کووڈ ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز اور منفی واقعات
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مرکز کو ہدایت دی جائے کہ جن لوگوں نے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لی ہے ان میں کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے کتنے لوگوں کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا اور کتنے ہی ویکسینیشن کی وجہ سے مر گئے۔ درخواست گزار نے کہا کہ جو بھی منفی اثرات کا ڈیٹا ہے، اسے ٹول فری نمبر پر لوگوں کو بتایا جائے۔ اس کے علاوہ ایسا نظام ہونا چاہیے کہ اگر کسی کو ویکسین لگائی جا رہی ہو اور اس کا برا اثر ہوا ہو تو وہ اس کی شکایت کر سکے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں ویکسین کے استعمال کی منظوری کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ ویکسین لینے والوں پر نظر رکھی جائے۔ اس قسم کی نگرانی سے دنیا کے بہت سے ممالک میں ویکسین لینے والوں کے منفی اثرات جیسے خون کا جمنا وغیرہ کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے۔ ڈنمارک میں Astra Zeneca ویکسین کے استعمال پر پابندی ہے۔ کئی ممالک میں ویکسین روک دی گئی ہے اور وہ اس کا اندازہ لگا رہے ہیں۔