خوش فہمی کا وقت نہیں

0

ملک میں کورونا نے حالات خراب بنا رکھے ہیں۔ حکومتوں کی تیاریوں کی پول کھل رہی ہے، لوگوں کے لیے خود کو وقف بتانے والے لیڈروں کی انسانیت پسندی کی حقیقت آشکارا ہو رہی ہے، عام لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آ رہی ہے کہ اس ملک کا ہیلتھ کیئر سسٹم کیسا ہے اور انتخابی تشہیر کے وقت بڑی بڑی باتیں کرنے والے لیڈروں کو کتنی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ بات جتنی اہم ہے کہ کورونا کی دوسری لہر ہندوستان میں تہلکہ مچا رہی ہے اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ایک سال میں اتنی بھی تیاری نہیں کی گئی کہ لوگوں کو آکسیجن کی کمی نہ ہوتی۔ اگر آکسیجن کی کمی نہیں ہوتی تو شاید بہتوں کو جانیں نہیں گنوانی پڑتیں۔ 5 مئی سے 8 مئی تک روزانہ متاثرین کی تعداد 4 لاکھ سے زیادہ رہی تھی، 9 مئی کو متاثرین کی تعداد میں کسی حد تک کمی آئی۔ اس دن کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 366499 رہی تھی مگر متاثرین کی تعداد میں کسی دن 30 یا 40 ہزار کی کمی کی وجہ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ فی الوقت حالات کو سنگین سمجھتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا چاہیے، کیونکہ ہر آدمی کی زندگی اس کے لیے قیمتی ہے، اس کی زندگی کی قیمت اس کے علاوہ اس کے گھروالے ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، ورنہ میڈیا کے بیشتر لوگوں اور مختلف اداروں کے لیے وہ ایک گنتی سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیڈروں نے اگر عام لوگوں کی پروا کی ہوتی تو انتخابی تشہیر میڈیا تک ہی محدود رہتی مگر اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا رول بھی اچھا نہیں رہا ہے۔
کورونا ویکسین کی تشہیر ایک حد سے زیادہ کی گئی۔ جب لوگوں کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ ویکسین کا پروڈکشن کتنا ہو رہا ہے، ملک کے سبھی لوگوں کو کتنے مہینوں یا سالوں میں ویکسین دی جا سکتی ہے، تشہیر ویکسین بنا لینے اور دینے کی زیادہ ہوئی۔ عام لوگوں کو یہ لگا کہ فکر کی کوئی بات نہیں رہی، کورونا اب ان کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ وہ کسی حد تک لاپروا ہوگئے اور اس لاپروائی کی انہیں بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جلانے کے لیے لکڑیاں نہیں تو لوگ لاشوں کو ندیوں میں بہا رہے ہیں۔ بہار کے بکسر کے مہادیو گھاٹ پر لاشوں کے بہتے ہوئے آنے کی خبر آئی ہے۔ وہاں کی ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ بہار کی نہیں، اترپردیش کی لاشیں ہیں جو بہتی ہوئی آ گئی ہیں۔ بات یہ تو اہم ہے کہ لاشیں بہار کی ہیں یا اترپردیش کی لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لوگ لاشیں بہانے پر اگر یونہی مجبور ہوتے رہے تو پھر ندیوں کی صفائی کی مہم کا کیا ہوگا؟ اس ’سوچھ بھارت ابھیان‘ کا کیا ہوگاجو ہمارے وزیراعظم نے 2اکتوبر 2014کو شروع کیا تھا؟ ندیوں میں بہتی ہوئی لاشوں کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا وائرس نے سائڈ ایفیکٹ دکھانا شروع کردیا ہے، اس لیے کورونا کو صرف ہیلتھ کیئر سسٹم کی ناکامی تک ہی محدود کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا دائرہ اثر کتنا وسیع اور کتنا سنگین ہوگا۔ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ کورونا کی تیسری لہر بھی آئے گی۔ اس میں بچوں کے متاثر ہونے کا زیادہ اندیشہ ہوگا، اس لیے فی الوقت لوگ گھروں کو ہی اپنی دنیا سمجھیں تو بہتر ہوگا۔ گھروں میں انہیں اس طرح کا ماحول تیار کر لینا چاہیے کہ بچوں کو بوریت نہ ہو۔ وہ لوگ جو خوش حال ہیں اور مفاد عامہ کے کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہیلتھ کیئر سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے مقامی سطح پر کیا کر سکتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کورونا کی زد میں کون آئے گا، اس لیے ’اپنی اپنی دیکھ‘ والی ذہنیت چھوڑنی ہوگی، وبا تمام انسانوں کے لیے ایک جیسی مہلک ہے، اس لیے اس سے نمٹنے کی کوشش بھی تمام لوگوں کو مل کر کرنی چاہیے۔ انہیں لیڈروں کی باتوں سے خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ نئے دور کی سیاست نئی ہے۔ لیڈر کئی بار کام پر کم اور اس کی تشہیر پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اسپتالوں کو بہتر بنانے کی باتیں کہی جاتی رہی ہیں مگر اسپتالوں کو بہتر بنانے پر اتنی ہی توجہ دی گئی ہوتی تو عام دنوں میں اسپتالوں میں بھیڑ نظر نہ آتی۔ سوال یہ ہے کہ وہ اسپتال جہاں عام دنوں میں مریضوں کے لیے علاج کرانا مشکل ہوتا ہے، ان سے وبا سے نمٹنے میں کتنی مدد لی جا سکتی تھی؟ پچھلے ایک سال میں نئے اسپتال بنائے جانے چاہئیں تھے لیکن کتنے نئے اسپتال بنائے گئے؟ مفاد عامہ کا خیال رکھنے والے عام لوگ نئے اسپتالوں کے قیام کے لیے آگے بڑھیں تاکہ کورونا کی اگر تیسری لہر آئے بھی تو وہ اتنی مہلک نہ ہو جتنی مہلک دوسری لہر رہی ہے۔ عام لوگ انسانیت دکھائیں۔۔۔دھرم، بھاشا، ذات اور کسی بھی ایسی چیز سے اوپر اٹھ کر۔ لیڈروں کو سیاست کرنے دیں، البتہ انتخابات ہونے پر یہ نظرانداز نہ کریں کہ کس نے لوگوں کی کتنی مدد کی تھی!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS